ایمنسٹی انڈیا نے کہا کہ ،پڑوسی ممالک میں اقلیتوں پر ہو رہےمظالم سے یہ قانون انجان ہے۔یہ ترمیم، حقوق انسانی اور شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی قرارکے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی پوری طرح سے خلاف ورزی ہے۔ کچھ پناہ گزینوں کے لئے حراست کا اہتمام رکھنا اور دوسروں کو اس سے چھوٹ دینا، آرٹیکل 21 کی بھی خلاف ورزی ہے ۔
نئی دہلی: ایمنسٹی انڈیا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ،پارلیامنٹ کے ذریعے منظور کیا گیا شہریت ترمیم قانون مذہب کی بنیاد پر جانبداری کو جواز عطا کرتا ہے اور صاف طور پر ہندوستانی آئین اورحقوق انسانی کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
ایمنسٹی انڈیا کےایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے کہا کہ،یہ قانون، اپنے مبینہ مقاصد میں تو برابری کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہ اپنی اصلیت میں جابندارانہ ہے۔ یہ 1955 کے شہریت قانون میں ترمیم کے ذریعے غیرقانونی تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے۔لیکن یہ موقع صرف افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے، 31 دسمبر 2014 کو یا اس سےپہلے آئےغیر مسلموں کو دیا گیا ہے۔اس قانون کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لئے ہندوستان میں رہائش کی مدت کو کچھ خاص کمیونٹی کے لئے 11 سال سے گھٹاکر 5 سال کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ،پناہ گزینوں کا استقبال کرناقابل ستائش قدم ہے لیکن، ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں مسلمان اور دیگر کمیونٹی کے لئے صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر دروازے بندکرنا جانبداری کرنا اور خوفناک ہے۔
"The amendments also set a dangerous shift in the way citizenship will be determined in India. Worryingly, they also stand to create the biggest statelessness crisis of the world causing immense human suffering”, said Avinash Kumar @Avinash_1_Kumar.#CABBill2019
— Amnesty India (@AIIndia) December 12, 2019
اویناش کمار نے مزید کہا کہ ،پڑوسی ممالک میں اقلیتوں پر ہو رہےمظالم سے یہ قانون پوری طرح سےانجان ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، یہ ترمیم، حقوق انسانی اور شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی قرارکے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی پوری طرح سے خلاف ورزی ہے۔ یہ ترمیم آئین کے آرٹیکل 14 کے بھی برعکس ہے، جو ہر فرد کو مساوات کا حق دیتا ہے اور مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائےپیدائش کی بنیاد پر امتیاز سے تحفظ عطا کرتا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ،اس کے علاوہ، پاسپورٹ(ہندوستان میں داخلہ)قانون، 1920 اور غیر ملکیوں سے متعلق قانون، 1946 کےغیرقانونی تارکین وطن اور غیر ملکیوں کو حراست میں لینے اور ان پر مقدمہ چلانے کےاہتماموں سے بھی ان خاص کمیونٹی کو ترمیم کے ذریعے چھوٹ دی گئی ہے۔ کچھ پناہ گزینوں کے لئے حراست کا اہتمام رکھنا اور دوسروں کو اس سے چھوٹ دینا، آرٹیکل 21 کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ہر آدمی کو من مانے طور پر آزادی چھینے جانے کے خلاف تحفظ دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ، بھوٹان، میانمار، نیپال اور سری لنکا سمیت کئی دیگر ممالک بھی ہندوستان کی سرحد سے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن سری لنکا کے تمل پناہ گزین اس ترمیم کے دائرے سے باہر رکھے گئے ہیں جبکہ وہ ہندوستان میں رہ رہے پناہ گزینوں کا سب سےبڑا حصہ ہے اور پچھلی تین دہائیوں سے ملک میں رہ رہے ہیں۔ ترمیم میں میانمار کےروہنگیا مسلمان بھی شامل نہیں ہیں، جن کو اقوام متحدہ نے دنیا کی سب سے ستائی گئی اقلیت بتایا ہے۔ پاکستان کے احمدیہ، بنگلہ دیش کے بہاری مسلمان اور پاکستان کی ہزارا کمیونٹی کی تکلیف دہ صورتحال کو بھی یہ قانون نظرانداز کرتا ہے جنہوں نےسالوں سےاستحصال کو جھیلا ہے۔ ان طبقوں کا قانون سے باہر رکھا جانا حکومت کے متعصب ارادوں کا ثبوت ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ ،پناہ گزینوں اور پناہ چاہنے والوں کے علاوہ، یہ ترمیم ہندوستانی شہریوں، خاص طورپر مسلمانوں کے انسانی حقوق کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ حکومت ہند ایک ملک گیراین آر سی شروع کرنے کی پوری تیاری میں ہے جس کے تحت ملک کے 130 کروڑ لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا جائےگا۔ اس کارروائی کو حال ہی میں آسام میں پورا کیا گیا جس میں 19 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ہندوستانی شہریت سے باہر کر دیاگیا۔ این آر سی سے باہر رکھے گئے ہندوؤں اور دوسری کمیونٹی کے غصے کا سامنا کررہی، مرکز اور آسام میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے این آر سی کےنتائج کو خارج کر دیا۔ 2 اکتوبر 2019 کو، شہریت (ترمیم) قانون کو این آر سی سےباہر رکھے گئے لوگوں کو تحفظ عطا کرنے کا ہتھیار بتاتے ہوئے، مرکزی وزیر داخلہ،امت شاہ نے کہا، میں تمام ہندو، سکھ، جین، بودھ اور عیسائی پناہ گزینوں کو مطمئن کرنا چاہتاہوں کہ آپ کو ہندوستان چھوڑنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائےگا۔ افواہوں پر یقین نہ کریں۔ این آر سی سے پہلے، ہم شہریت (ترمیم)قانون لائیںگے، جس سے ان لوگوں کوہندوستانی شہریت حاصل ہوگی۔ ان کو ایک ہندوستانی شہری کے تمام حقوق حاصل ہوںگے۔
بعدکی ایک تقریر میں انہوں نے کہا،ہم چن چن کر تمام گھس پیٹھیوں کوباہر نکال دیںگے اور یہ کام [این ار سی] بی جے پی 2024 سے پہلے کرےگی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند جانبداری کے تمام الزامات سے انکار کرتی ہے لیکن یہ ترمیم صاف طور پر این آر سی کی کارروائی کو مسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کی شکل دیتے ہیں۔ شہریت (ترمیم) قانون کو وسیع تناظر سےالگ رکھکر نہیں دیکھا جا سکتا جس کے تحت یہ ظاہر ہے کہ یہ ترمیم اور این آر سی ہندوستان میں اقلیتوں کو ان کی شہریت سے محروم کر سکتے ہیں۔ یہ ترمیم ہندوستانی شہریت طےکرنے کے طریقوں میں ایک خطرناک تبدیلی کے مظہر ہیں۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے عدم قومیت کو لےکر دنیا کا سب سے بڑا بحران پیدا ہوگا، جوبے انتہا انسانی دکھ اورتکلیف کا باعث ہوگا۔