جو لوگ دہلی کی اقتدار کی ساخت کو جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ کے اعلان کی کاٹ اگر نقوی سے کرائی جائے تو وہ لطیفہ سےزیادہ نہیں ہے۔ وزارتِ داخلہ میں کیا ہوا ہے یا نہیں ہوا اس کی جانکاری اقلیتی معاملوں کے وزیر نقوی دے رہے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی
آج کی پہلی خبر کلاسک ہے۔ اس خبر کو بینر ہیڈلائن سے پڑھتے ہوئے آپ اندر کے صفحے پر پہنچتے ہیں تو خبر ہی بدل جاتی ہے۔ اس لئے بار بار کہتا ہوں کہ اخباروں کو پڑھنے اور چینلوں کو دیکھنے کا طریقہ بدل لیں۔ سب اخبار پڑھتے ہیں لیکن سبھی کو اخبارپڑھنا نہیں آتا ہے۔ یہ خبر آپ سے مدد مانگ رہی ہے۔ آپ کو اشارہ کر رہی ہے کہ آپ قارئین ہی پریس کو بچا سکتے ہیں۔ اس لئے اخبار مدیر بناکچھ کہے کچھ اور بھی کہہ دیتا ہے لیکن ہیڈلائن وہی رکھتا ہے جو حضورِ ہند کو پسند ہو۔
پہلے صفحے پر مرکزی وزیر کا بیان ہے کہ ابھی تک حکومت کے کسی بھی سطح پر این آر سی کو لےکر کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ ملک گیراین آر سی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔جو لوگ دہلی کی اقتدار کی ساخت کو جانتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ کے اعلان کی کاٹ اگر نقوی سے کرائی جائے تو وہ لطیفہ سےزیادہ نہیں ہے۔ وزارتِ داخلہ میں کیا ہوا ہے یا نہیں ہوا اس کی جانکاری اقلیتی معاملوں کے وزیر نقوی دے رہے ہیں۔
آپ دھیان رکھیں کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے کسی بھی بیان میں این آرسی سے پیچھے ہٹنے کی بات نہیں کہی ہے۔ ان کے پرانے سارےبیان اور پارلیامنٹ میں دیے گئے بیان یہی کہتے ہیں کہ وہ این آر سی لےکر آ رہے ہیں۔ اگر حکومت پیچھے ہٹنے کا اشارہ دے رہی ہے تو کیا اس کا اعلان سنبت پاترا اور نقوی کریںگے! بی جے پی کور کرنے والے صحافی سائڈ میں جاکر ہنس رہے ہوںگے۔اس لئے ایکسپریس نے اپنی خبر میں امت شاہ کے پرانے بیانات کا ذکر کر دیا ہے۔ پارلیامنٹ میں این آر سی کو لےکر دیے گئے پرانےجوابات کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اب یہاں سے کھیل کو سمجھیے۔
خبر نقوی سے شروع ہوتی ہے کہ حکومت کے کسی بھی سطح پراین آر سی کو لےکر بحث نہیں ہوئی ہے۔ پھر پہنچتی ہے بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو کے بیان پر۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ابھی این آر سی کے بارے میں بات کرنا بیکار ہوگا کیونکہ حکومت نے کوئی ڈٹیل نہیں تیار کی ہے۔لیکن ٹھیک دو پیراگراف کے بعد اسی خبر میں رام مادھو کا بیان ہے کہ وزیر داخلہ نے اعلان کیا ہے۔ چونکہ اس کے ہونے میں دو سال کا وقت لگ جائےگا اور ابھی کوئی ڈٹیل ملک کے سامنے نہیں آئی ہے اس لئے اس پر بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔
اگر ٹیلی گراف ہوتا تو ہیڈلائن بناتا کہ این آر سی آنے میں دو سال لگےگا۔ ایسا نہیں ہے کہ ایکسپریس کا مدیر جدو جہد نہیں کر رہا ہے۔ وہ خبر کوحکومت کے حساب سے لکھ رہا ہے مگر سمجھ پڑھنے والوں پر چھوڑ دے رہا ہے۔ یہ کاپی ایکسپریس کی صحافت کے شاندار تاریخ کی نایاب کاپی ہے۔جس میں صحافت ہے اور نہیں بھی ہے!
ورنہ انڈین ایکسپریس یہ ہیڈلائن لگاتا کہ رام مادھو کہتے ہیں کہ این آر سی کو آنے میں دو سال لگیںگے۔ مگر مادھو اور نقوی کو پتہ نہیں کہ حکومت میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ دونوں کہتے ہیں این آر سی کو لےکر کوئی ڈٹیل نہیں ہے۔ایکسپریس کی خبر scribble کا نمونہ ہے۔ جیسے بچہ کسی صفحے پر پنسل سے گونج دیتا ہے۔ گونجنا بھوجپوری کا عظیم لفظ ہے۔اسی جمعہ کے دن پی آئی بیپورا ڈٹیل جاری کرتا ہے۔ جس میں این آرسی کو لےکر سارے سوالوں کے جواب دیے گئے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ این آرسی کے وقت کن کن دستاویزوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ اس میں آدھار سے لےکر ووٹر آئی کارڈ کی بات ہے لیکن خبرچھپی ہے کہ این آر سی کا ڈٹیل نہیں آیا ہے۔ قاعدے سے ہیڈلائن یہ ہوتی کہ حکومت نے عوام کو این آر سی کا ڈٹیل بتایا یعنی وہ اس سمت میں ایک قدم اور آگے بڑھ گئی ہے۔ایکسپریس اگر اپنی پہلی خبر میں اس جانکاری کے ساتھ نقوی اور مادھو کے بیانات کو رکھتا تو قاری اور بہتر طریقے سے دیکھ لیتا کہ حکومت کیسے کھیل کھیلتی ہے۔ اس کھیل کی ایک ہی بنیاد ہے۔ لوگوں کی سمجھنے کی صلاحیت دوئم درجے کی ہے اور پریس ہماری جوتی کے نیچے۔
بہار کے وزیراعلیٰ کا بیان بھی اس مضبوط اعتماد پر ہے کہ این آر سی کے مخالفوں کو عقل نہیں ہے۔ ان کو کچھ بیان دے دو، چنے کی طرح چباتےرہیںگے۔
اب اسی خبر میں بہار کے
وزیراعلیٰ نتیش کمار کا بیان چھپا ہے کہ بہار میں این آر سی نافذ نہیں ہونے دیںگے۔ قاعدے سے صحافیوں کوفوراً بہار حکومت میں معاون بی جے پی کا بیان لینا چاہیے تھا تب پتہ چل جاتا۔ ویسے نتیش کمار نے یہ نہیں کہاکہ وہ بڑے پہلوان امت شاہ سے بات کرنے کی ہمت جٹائیںگے اور ان سے بولکر آئیںگے کہ این آر سی نافذ نہیں کریںگے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ اسی طرح لوک جن شکتی پارٹی کے چراغ پاسوان کے بیان کا بھی مطلب نہیں ہے۔ دونوں وہی کریںگے جو حکومت کہےگی۔
کاش آپ سبھی نے جارج آرویل کی 1984 پڑھی ہوتی جس میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کا نام Ministry of truth ہے۔ سچ کی وزارت۔ جس کا کام جھوٹ پھیلانا ہے۔ آرویل کی اس تصنیف میں جو وزارت لوگوں کو ستاتی ہے اس کا نام ministry of love یعنی وزارتِ محبت ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوںگے۔
سوچیے ہندی اخباروں میں کس لیول کا کھیل چل رہا ہوگا۔ مودی حامیوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ جب وہ حکومت کے ہر غلط اور جھوٹ کی حمایت کرتے ہی تو پھر خبروں کا مینجمنٹ کیوں ہو رہا ہے؟ خبروں کو خبروں کی طرح آنے دیا جائے۔ ایسا نہ کرنا مودی حامیوں کی ذہنی لیاقت کی بے عزتی ہے۔ ان کو گودی میڈیا سے اپنی خودداری کی حفاظت کرنی چاہیے۔
میں گودی میڈیا سے مودی حامیوں کی خودداری کی حفاظت کے لئے ہی لڑتا ہوں۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ گودی میڈیاوالوں آپ ہمت سے سچ چھاپیں، مودی حامی اس کو جھوٹ مان لیںگے۔ جھوٹ مت چھاپو کیونکہ وہ سچ مان لیںگے۔
نوٹ : ہندوستان کی گودی میڈیا جمہوریت کی قاتل ہے۔ یہ لائن اپنے گھروں کی دیواروں پر لکھ دیں۔ محلوں میں لکھ دیں۔ ویسے بہت دیر ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ بند ہے اس لئے دوسرے محلے میں جاکر اس مضمون کو پوسٹ کر آیا ہوں۔
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)