انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کی ژنہوا ڈیٹا انفارمیشن ٹکنالوجی کمپنی لمٹیڈ کے ذریعےہندوستان کے بااثررہنماؤں جیسے صدر رام ناتھ کووند، وزیراعظم نریندر مودی، کانگریس صدرسونیا گاندھی، کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سمیت کئی کاروباری گروپوں کے عہدیداران پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
نئی دہلی: چین کی مقتدرہ کمیونسٹ پارٹی کی مددسے ایک چینی تکنیکی کمپنی ہندوستان کے 10000 سے زیادہ لوگوں اور تنظیموں پر نظر رکھ رہی ہے۔انڈین ایکسپریس کی ایک ریسرچ میں یہ جانکاری سامنے آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین کی ژنہوا ڈیٹا انفارمیشن ٹکنالوجی کمپنی لمٹیڈملک کے بااثر لوگوں پر نظر رکھ رہی ہے۔
اس میں بڑے رہنماؤں، اہم عہدوں پر بیٹھے نوکرشاہوں، ججوں، سائنسدانوں، صحافیوں، ایکٹر اور کارکن شامل ہیں۔اس میں صدر رام ناتھ کووند، وزیراعظم نریندر مودی، کانگریس صدرسونیا گاندھی کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ ممتا بنرجی، اشوک گہلوت، امریندر سنگھ، ادھو ٹھاکرے، نوین پٹنایک اور شیوراج سنگھ چوہان شامل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا، ‘چیف آف ڈیفینس اسٹاف بپن سنگھ راوت سے لےکر کم سے کم 15سابق فوجی افسر، بحریہ اور فضائیہ کے چیف، ہندوستان کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس اے ایم کھانولکر، لوک پال جسٹس پی سی گھوش اور کنٹرولر اور آڈیٹر جنرل جی سی مرمو، بھارت پے (ایک ہندوستانی پےایپ)کے بانی نپن مہرا، ٹاپ کاروباریوں رتن ٹاٹا اور گوتم اڈانی جیسے لوگوں کے نام شامل ہیں۔’
کون سا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے؟
نیوز رپورٹ کے مطابق، ژنہوا ڈیٹاانفارمیشن ٹکنالوجی کمپنی لمٹیڈ آرٹی فیشیل انٹلی جنس (اےآئی)اور بڑی ڈیٹا تکنیکوں کا استعمال کرتا ہے تاکہ وہ اپنے ٹارگیٹ(جس پر وہ نگرانی کرنا چاہتا ہے)کا ‘ڈیجیٹل فٹ پرنٹ’یعنی متعلقہ شخص کے ذریعےآن لائن یا سوشل میڈیا کےذریعہ سے درج کی گئی ہرانفارمیشن کو اکٹھا کر سکے۔
یہ لوگوں کی پیدائش کی تاریخ، پتے، ازدواجی حیثیت ، فوٹو ، سیاسی وابستگیاں، رشتہ دار اور سوشل میڈیا آئی ڈی وغیرہ کی معلومات اکٹھا کرتی ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا،‘کمپنی کے ذریعےیہ معلومات صرف نیوزذرائع یا فورم سے نہیں بلکہ مختلف پیپرس، پیٹینڈ، بڈنگ دستاویز، یہاں تک کہ تقرری کی سطح پر بھی اکٹھا کی جاتی ہیں۔’
دوسرے لفظوں میں کہیں تو کوئی ‘نجی’ ڈیٹا حقیقت میں اکٹھا نہیں کیا جا رہا ہے، جو بھی جانکاری ہے وہ تھرڈ پارٹی سے ہی لی جا رہی ہے۔حالانکہ چینی کمپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے جغرافیائی ڈیٹا بھی لے سکتی ہے۔ ایسے میں یہ خبر کیوں اہم ہے جب کمپنی کے ذریعے لی جا رہی جانکاری پہلے سے ہی عوامی ہیں؟
پہلی بات، ژنہوا ایک‘ریلیشنل ڈیٹابیس’ تیار کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں کہا، ‘یہ ایک‘ریلیشنل ڈیٹابیس’بناتا ہے، جو افراد، اداروں اوراطلاعات کے بیچ کے تعلق کو ریکارڈ اوربیان کرتا ہے۔ اس طرح کے بڑے پیمانے پر ڈیٹا جمع کرنا اور ان مقاصد کے آس پاس عوامی یا جذباتی تجزیہ بننا، اس سے ژنہوا خفیہ ایجنسیوں کے سامنے خطرے پیدا کرتا ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘ژنہواچوبیسوں گھنٹے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اپنے ٹارگیٹ پر ذاتی جانکاری اکٹھا کرتا ہے، ٹارگیٹ کے دوستوں اور رشتوں پر نظر رکھتا ہے، دوستوں اورفالوورس کے ذریعے پوسٹ، لائیک اور کمنٹ کاتجزیہ کرتا ہے اور اےآئی ٹولس کےتوسط سے فرد کے گھومنے پھرنے کو لےکر نجی جانکاری جیسے اس کی جغرافیائی حالت بھی جمع کرتا ہے۔’
ژنہوا خود کو ‘ہائی بریڈ وارفیئر’ میں مددکرنے والا بتاتا ہے، جس کے ذریعے دشمن ملک میں سماجی عداوت کو بڑھایا جاتا ہے۔کمپنی کے لفظوں میں اس وارفیئرمیں انفارمیشن پالیوشن، پرسیپشن مینجمنٹ اور پروپیگنڈہ شامل ہوتا ہے۔منگل کو انڈین ایکسپریس کی تحقیق کے دوسرے حصہ میں نگرانی فہرست میں شامل کئی اور ناموں کاانکشاف ہوا ہے جس میں کئی بڑی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپ کے عہدیداروں کے نام سامنے آئے ہیں۔
عظیم پریم جی گروپ کے پریم جی انویسٹ کے چیف انویسٹمنٹ آفیسر ٹی کے کرین، مہندرا گروپ کے انیش شاہ، ریلائنس برانڈس کے سی ٹی او پیکے ایکس تھا مس، ریلائنس رٹیل کے چیف ایگزیکیٹو براین بیڈ جیسے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ بتایا گیا ہے کہ فلپ کارٹ کے شریک بانی بنی بنسل، جومیٹو کے بانی اور سی ای او دیپندر گوئل، سوگی کے شریک بانی اور سی ای او نندن ریڈی، نایکا کی شریک بانی اور سی ای او پھالگنی نائر جیسے لوگوں پر بھی چینی کمپنی نگرانی کرتی ہے۔