مرکز نے اپنے حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ شہریت قانون کسی ہندوستانی سے متعلق نہیں ہے۔ کیرل اور راجستھان کی حکومتوں نے اس کے آئینی جواز کو چیلنج دیتے ہوئے آرٹیکل 131 کے تحت عرضی دائر کی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو لےکر اب تک 160عرضیاں دائر کی جا چکی ہیں۔
احمد آباد میں ہوئے ایک پروگرام میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکز نے منگل کو سپریم کورٹ میں دعویٰ کیا کہ شہریت قانون، 2019 آئین میں درج کسی بھی بنیادی حق کی خلا ف ورزی نہیں کرتا ہے۔مرکز نے اس قانون کے آئینی جواز کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر اپنے 129 پیج کے جواب میں شہریت قانون کو قانونی بتایا اور کہا کہ اس کے ذریعے کسی بھی طرح کے آئینی جواز کی خلاف ورزی ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔
حلف نامے میں مرکز نے کہا ہے کہ یہ قانون عاملہ کو کسی بھی طرح کی من مرضی اور لا محدود اختیار فراہم نہیں کرتا ہے کیونکہ پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں استحصال کا شکار ہوئے اقلیتوں کو اس قانون کے تحت جائزطریقے سے ہی شہریت دی جائےگی۔
مرکز کی جانب سے وزارت داخلہ میں ڈائریکٹر بی سی جوشی نے یہ حلف نامہ داخل کیا ہے۔
لائیولاء کے مطابق مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ سی اےاے کسی شہری کے کسی بھی موجودہ حق کو متاثر نہیں کر رہا ہے۔ یہ ان کے قانونی،جمہوری یا سیکولرحقوق کومتاثر نہیں کرےگا۔ یہ پارلیامنٹ کی خودمختاریت سے جڑا معاملہ ہے اور عدالت کے سامنے اس پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں مذہبی اقلیتوں کونشان زد کرنے کے لیے پارلیامنٹ اہل ہے اور یہ مناسب زمرہ بندی کے اصول کے تحت خاص صورت حال میں قانون کے یکساں اپیل سے استثنیٰ معاملوں کے لیے فراہم کیا گیا ہے۔
مرکز نے کہا ہے کہ سی اے اےشہریت نہیں چھینتا بلکہ شہریت دینے کے بارے میں ہے۔عرضی گزاروں نے یہ نہیں بتایا ہے کہ ملک میں رہنے والی اقلیتوں کے لیے سی اےاے کیسے امتیاز کرتا ہے۔حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ سی اےاے پوری طرح سے قانونی اور آئینی ہے اور آئین کے آرٹیکل 246 کے تحت پارلیامنٹ کو 7ویں فہرست میں درج کسی بھی معاملے کے بارےمیں قانون بنانے کا خصوصی اختیار حاصل ہے جبکہ پارلیامنٹ کوشہریت پر قانون بنانے کے لیے خودمختاریت بھی حاصل ہے۔
مرکز نے کہا ہے کہ آرٹیکل 14 قانون کے سامنےبرابری اور قانون کے سامنےیکساں تحفظ کی بات کرتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے 20 سے زیادہ ایسے فیصلے دیے ہیں جہاں یہ کہا گیا ہے کہ اگران گروپوں کی ایک مناسب زمرہ بندی ہے جو خود کے ذریعے ایک زمرہ بناتے ہیں تو وہ قانون قابل قبول ہوگا۔
مرکز نے کہا ہے کہ یہاں تین ممالک– پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش، جنہیں اسلامی ملک اعلان کیا گیا ہے کہ چھ کمیونٹی کے عقائدکی بنیاد پر ایک ستائے گئے، مظلوم گروپ نے اس زمرہ کی تعمیر کی ہے۔حلف نامے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی اے اےکسی ہندوستانی سے متعلق نہیں ہے۔ یہ نہ تو ان کے لیے کوئی شہریت بناتا ہے اور نہ ہی اسے دور کرتا ہے۔
عدالت نے پچھلے سال 18 دسمبر کوشہریت قانون کے آئینی جواز کاتجزیہ کرنے کاارادہ کیا تھا لیکن اس کی کارروائی پر روک لگانے سے انکار کر دیا تھا۔شہریت قانون میں پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش میں مبینہ طورپر استحصال کا شکار ہوئے ہندو، سکھ، بودھ، عیسائی، جین اور پارسی اقلیتوں کے ان ممبروں کوہندوستان کی شہریت دینے کااہتماام ہے جو 31 دسمبر، 2014 تک یہاں آ گئے تھے۔
شہریت قانون کے خلاف کیرل اور راجستھان حکومت نے آئین کے آرٹیکل 131 کا سہارا لیتے ہوئے معاملہ دائر کیا ہے جبکہ انڈین یونین مسلم لیگ، سی پی ایم، ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا، کانگریس کے جئےرام رمیش، اور کئی دوسری پارٹیوں نے 160 سے زیادہ عرضیاں عدالت میں دائر کی گئی ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)