پہلگام میں دہشت گردانہ تشدد کے اشتعال کے درمیان ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کیا گیا ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ پانچ سال تک کشمیر کو اپنے قبضے میں رکھنے کے بعد بھی بی جے پی حکومت سیاحوں کی حفاظت کیوں نہیں کر سکی؟ اس سوال سے توجہ ہٹانے کے لیے حکومت نے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو موضوع دیتے ہوئے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر دیا ہے۔
(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)
حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے پس پردہ اس کی منشااس بات سے صاف ہو جاتی ہے کہ حکومت یا بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی یہ کہہ کر اس کی تعریف کر رہے ہیں کہ بی جے پی نے اپوزیشن سے سب سے بڑاایشو چھین لیا ہے۔ ‘بی جے پی نے کانگریس یا راہل گاندھی کے پیروں کے نیچے سے دری کھینچ لی ‘؛ یہ ایک اخبار کی سرخی تھی۔
وہیں، اپوزیشن نے اپنی جیت کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے کہا، بی جے پی جو ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو ہندو سماج کو تقسیم کرنے کی سازش قرار دے رہی تھی، اب خود ہی ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کرنے کو مجبور کر دی گئی ہے۔
کئی لوگوں نے نوٹ کیا کہ یہ اعلان پہلگام میں فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ تشدد کے اشتعال کے درمیان آیا ہے۔ اس تشدد نے پورے ہندوستان میں مسلم مخالف نفرت کو ہوا دی اور حکومت کے بجائے ہندوکشمیریوں اور مسلمانوں سے سوال کیا جانے لگا۔ ان پر حملےہوئے۔
لیکن آہستہ آہستہ لوگ یہ بھی پوچھنے لگے کہ آخر بی جے پی حکومت 5 سال تک کشمیر کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے بعد بھی سیاحوں کی حفاظت کیوں نہیں کر سکی؟
یہ سوال مرنے والوں کے اہل خانہ پوچھ رہے ہیں اور مین اسٹریم میڈیا کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام ہندو بھی یہ سوال پوچھنے لگا ہے۔
اس سوال کو ختم کرنے کے لیےہی حکومت نے ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح اس نے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو ایک موضوع دیا ہے تاکہ وہ اس سوال سے ملک کی توجہ ہٹا سکیں۔
دونوں صورتوں میں اسے بی جے پی حکومت کی بدنام زمانہ ہوشیاری کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ حکومت نے یہ قدم اپوزیشن کو بے اثر کرنے اور کشمیر میں شہریوں کو محفوظ رکھنے میں ناکامی پر تنقید سے بچنے کے لیے اٹھایا ہے۔
بی جے پی کے حامی یہ کہتے ہوئے خوش ہو رہےہیں کہ اب اپوزیشن کے پاس کوئی ایشونہیں بچا ہے۔
اس اعلان نے بی جے پی کے ان تمام لوگوں کو حیران کر دیا ہے جنہوں نے پہلگام حملے کے فوراً بعد یہ پوسٹر جاری اور نشرکیا تھا کہ؛’دھرم پوچھا ، ذات نہیں’۔ ‘اس ایک پوسٹر نے بی جے پی کی بے حیائی کو ظاہر کرد یا۔
اس تشدد کے درمیان بھی وہ اپنی ذات پات کی سیاست کو نہیں بھولی تھی۔ اس تشدد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ ہندوؤں کو بتا رہی تھی کہ ان کا سب سے اہم سچ ان کا مذہب ہے، ان کی ذات نہیں کیونکہ ان کے دشمن ان پر ان کے مذہب کے بارے میں پوچھ کر حملہ کرتے ہیں، ان کی ذات کے بارے میں نہیں۔ لیکن اب ان کی اپنی حکومت ہندوستانیوں سے ان کی ذات پوچھنے والی ہے۔
جس وزیر اعظم نے ابھی سال بھر قبل ہی ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرنے والوں کو ‘اربن نکسل’ کہا تھا، وہی اب ذات پر مبنی مردم شماری کی بات کر رہے ہیں۔ وہ لوگ جو ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کرنے والوں کو راون کہہ رہے تھے اب اس کے حق میں دلیلیں ڈھونڈ رہے ہیں۔
‘بٹیں گے تو کٹیں گے’ اور ‘ایک ہیں تو سیف ہیں’ جیسے نعروں کا کیا ہوگا؟ ان نعروں کے ذریعے بی جے پی یہ کہنے کی کوشش کرتی رہی ہے کہ ذات پات ہندو سماج کی بنیادی حقیقت نہیں ہے اور ہمیں ذات پات کی شناخت پر زور نہیں دینا چاہیے۔ حال ہی میں سینسر بورڈ نے فلم ‘پھولے’ سے ذات پات سے متعلق الفاظ اور مناظر ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
یہی نہیں، پچھلے 10 سالوں سے اسکول کی کتابوں سے ذات پات سے متعلق موضوعات کو ہٹایا جا رہا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے نصاب سے ذات پات سے متعلق موضوعات کو ہٹایا جا رہا ہے۔
یہ دلچسپ ہے کہ جس دن ذات پر مبنی مردم شماری کا اعلان ہوا ، اسی دن ٹیلی گراف اخبار نے یہ خبر شائع کی کہ این سی ای آر ٹی نے اپنی کتاب میں ذات پات کے بارے میں کہا ہے کہ یہ ایک مستحکم سماجی اکائی نہیں تھی اور لوگوں کو ایک پیشہ سے دوسرے میں جانے کی اجازت تھی۔ یہ کوئی جابرانہ نظام نہیں تھا اور معاشرے کو استحکام فراہم کرتا تھا۔ انگریزوں نے ہی اسے بدنام کیا۔
ذات پات کے معاملے پر بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا دوہرا معیار سب پر عیاں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہندو اپنی ذات کو کبھی نہیں بھولتے اور وہ اپنی زندگی کے تمام اہم فیصلے صرف ذات کے تناظر میں لیتے ہیں۔ آر ایس ایس ذات پات کے خاتمے کی مہم نہیں چلا سکتی۔ اس میں نہ تو امبیڈکر اور نہ گاندھی جیسی ہمت ہے کہ وہ اپنے سماج کو بدلنے کی ترغیب دے۔ یاد رہے کہ گاندھی کو چھواچھوت کے خلاف مہم چلانے کی وجہ سے جان لیوا حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندو اتحاد کی بات کرنے والی بی جے پی اپنے تمام سیاسی فیصلے ذات پات کے مساوات کے اندر لیتی ہے۔ 2013-14 میں نریندر مودی کو ایک ہندو نایک اور پسماندہ ذاتوں کے رہنما کے طور پر پیش کیا گیا۔ مودی نے بار بار اپنے ذات کے پس منظر کا حوالہ دے کر خود کو محکوم کے طور پر پیش کرنے اور ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
پسماندہ اور دلت طبقات میں با اثر ذاتوں کے علاوہ دیگر ذاتوں کا اتحاد بنا کر، بی جے پی نے سماجی انصاف کی ذات پر مبنی سیاست کا جواب ہندوتوا کی ذات پرستی کی سیاست سے دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی ذات پات کی حقیقت جانتی ہے اور اس کا فائدہ بھی اٹھاتی رہی ہے۔ لیکن ہندوتوا نظریہ اسے تصوراتی سطح پر قبول نہیں کر سکتا۔ وہ ذات کے تصور کو استعماری سازش قرار دیتی ہے۔
بی جے پی ذات پات کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے، لیکن اسے اصولی طور پر قبول نہیں کر سکتی کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے ہندوازم کا بھرم بکھر جائے گا۔ آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ اس کے سایہ میں سب ہندو ہیں، کوئی ذات نہیں ہے۔ لیکن بھنور میگھونشی کی کتاب پڑھ کر آپ کو آر ایس ایس کا یہ جھوٹ بھی سمجھ میں آ جائے گا۔
بہر حال! بابا صاحب، گاندھی اور ان سے پہلے اور بعد کی کئی تحریکوں کی وجہ سے ذات کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں رہا۔ بی جے پی ان ذاتوں کے غضب کو جھیلنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی جو اب ان تحریکوں کی وجہ سے جمہوری سیاست میں اپنی آواز رکھتے ہیں اور ووٹوں کے ذریعے اس پر دعویٰ پیش کر رہے ہیں۔
جو لوگ بی جے پی کے نہیں ہیں، ان میں سے بہت سے لوگ نیک نیتی سے پوچھتے ہیں کیا ہماری شناخت آخرکار ذات سے طے ہوگی؟ وہ کہتے ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے ہماری شناخت حتمی طور پرذات کے دائرے میں آ جائے گی ۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ اس سوال کا ذات پر مبنی مردم شماری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
زندگی کے ہر سماجی اور سیاسی شعبے میں ہمارے فیصلے ذات سے جڑے ہوئے ہیں۔ چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں۔ اس کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ہندوؤں کو تقسیم کرنے کے لیے ذات پر مبنی مردم شماری کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ پہلے ہی تقسیم ہیں۔ ان کے درمیان کوئی بامعنی شراکت داری نہیں ہے۔ اس لیے اس منقسم معاشرے کو ہندو بنانے کا ایک ہی راستہ ہے؛ ایک مشترکہ دشمن مسلمان کو سامنے رکھنا، جس کے خلاف وہ سب متحد ہو کر ہندو بن جاتے ہیں۔
پھر بھی، ذات پر مبنی مردم شماری سے بالکل الگ سوال یہ ہے کہ کیا بابا صاحب کا ذات پات کے خاتمے کا خواب آخر کار معطل کر دیا گیا ہے؟
اس سوال کا ذات پر مبنی مردم شماری سے کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن جمہوریت کے لیے اس سوال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس ذات پات کے نظام کا خاتمہ ضروری ہے، جس نے سماج کی اکثریت کو انسان نہیں بننے دیا۔ ان میں اکثریت کا تعلق دلت اور انتہائی پسماندہ طبقات سے ہے۔ ذات پر مبنی مردم شماری ان کے انسان بننے کے راستے میں رکاوٹ نہیں تھی۔
پھر بھی ہندوستانی جمہوریت کا ایک بڑا فتنہ یہ ہے کہ ذات پات کو کبھی ختم نہیں ہونے دینا چاہیے، کیونکہ یہ سیاسی صف بندی اور لین دین کی سب سے آسان اکائی ہے۔ وہ اکائی جس کے گرد رائے عامہ آسانی سے بنائی جا سکے۔ پھر رائے عامہ ذات پات کے جوڑ توڑ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
لیکن اگر اب ہم انسان بننے کی آرزو کو ہمیشہ کے لیے ملتوی کر دیں تو یہ معاشرے اور جمہوریت دونوں کے لیے اچھا نہیں ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)