سی اے جی نے گجرات کو بڑھتے قرض کے بارے میں خبردار کیا، بہار کے اسپتالوں کی حالت کو قابل رحم بتایا

گجرات، بہار، مہاراشٹر، کیرالہ، مغربی بنگال اور اڑیسہ سے متعلق یہ سی اے جی رپورٹ حال ہی میں متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کی گئیں، جن میں صوبوں کی اقتصادی حالت اور دیگر پروجیکٹ پر کیے گئے کام اور ان کی صورتحال کے بارے میں جانکاریاں دی گئی ہیں۔

گجرات، بہار، مہاراشٹر، کیرالہ، مغربی بنگال اور اڑیسہ سے متعلق یہ سی اے جی رپورٹ حال ہی میں متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کی گئیں، جن میں صوبوں کی اقتصادی حالت اور دیگر پروجیکٹ پر کیے گئے کام اور ان کی صورتحال کے بارے میں جانکاریاں دی گئی ہیں۔

(فوٹو : پی ٹی آئی)

(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گزشتہ دنوں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (سی اے جی) کی مختلف صوبوں کی آڈٹ رپورٹ متعلقہ اسمبلیوں میں پیش کی گئیں۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، یہ صوبے گجرات، بہار، مہاراشٹر، کیرالہ، مغربی بنگال اور اڑیسہ ہیں۔

گجرات

سی اے جی کی رپورٹ 31 مارچ کو گجرات اسمبلی میں پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کی اہم جھلکیاں درج ذیل ہیں؛

1) سی اے جی کی رپورٹ میں ریاستی حکومت کو مسلسل بڑھ رہے قرض کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کے لیے ایک منصوبہ بند ادائیگی کی حکمت عملی پر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریاست کو اگلے سات سالوں میں مجموعی قرض کا 61 فیصد ادا کرنا ہے، جس سے اس کے وسائل پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

2) کووڈ-19 وبائی مرض کا ذکر کیے بغیر سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020-2021 کے بعد پہلی بار ریونیو کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکومت نے 10997 کروڑ روپے کے ریونیو خسارے کو کم سمجھاتھا۔

3) پردھان منتری گرام سڑک یوجنا کے تحت ریاست نے 2020-2021 میں اپنے ہدف شدہ سڑک کی لمبائی میں ایک تہائی کی ترمیم کی اور سال کے آخر میں 54 فیصد رقم کو خرچ نہیں کیا گیا۔

4) سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گجرات کی پی ایس یو کمپنیوں کو 30400 کروڑ روپے کا نقصان ہوا اور حکومت نے ان کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی۔ گجرات روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور گجرات پٹرولیم کے اثاثے ختم ہو گئے۔

5) ریاستی حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سبسڈی پانچ سالوں میں 2020-2021 کے آخر میں دوگنی ہو کر 22141 کروڑ روپے ہو گئی۔

بہار

بہار کی 2002 کی سی اے جی رپورٹ 30 مارچ کو ریاستی اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔

1) نمونے کے طور پرلیے گئے پانچ ضلعی ہسپتالوں میں سے تین میں 52 فیصد سے 92 فیصدی بستروں کی کمی تھی اور ان ہسپتالوں میں سے کسی میں بھی آپریشن تھیٹر نہیں تھا، جبکہ صرف ایک ہسپتال میں آئی سی یو کی سہولت موجود تھی۔ چار ہسپتال انسیفلائٹس کے شکار علاقوں میں ہیں اور ان میں جاپانی انسیفلائٹس کی جانچ کی کوئی سہولت نہیں ہے۔

2) نمامی گنگا پروگرام کے تحت پٹنہ میں سیوریج ٹریٹمنٹ کے لیے کوئی مناسب منصوبہ نہیں ہے۔

3) 31 مارچ 2020 تک ریونیو کے ایک بڑے ذرائع کے طور پر  4584.73 کروڑ روپے بقایہ تھے، جس میں سے 1357.78 کروڑ روپے پانچ سال سے زیادہ  سے بقایہ ہیں۔

مہاراشٹر

1) مہاراشٹرا کی سی اے جی رپورٹ گزشتہ ہفتے اسمبلی میں پیش کی گئی، جس میں کہا گیا کہ مرکزکے ذریعے اسپانسر ڈ راشٹریہ اچتر شکشا ابھیان (آر یو ایس اے) کے مہاراشٹر حکومت کے ذریعے نفاذ میں تاخیر ہوئی اور اس کی نگرانی غیر مؤثر رہی ۔ اس کے لیے ریاست کو ملنے والی کل گرانٹ 376.97 کروڑ روپے ہے، جس میں سے حکومت صرف 283.07 کروڑ روپے ہی خرچ کر سکی جبکہ 93.90 کروڑ روپے خرچ ہی نہیں ہوئے۔

2) میونسپل کارپوریشن آف گریٹر ممبئی (ایم سی جی ایم) کے ذریعے ہاؤسنگ ریزرویشن اسکیم کے تحت مارکیٹ تعمیر کے ایک اہم شعبےکو یا تو استعمال نہیں کیا گیا یا خالی پڑا رہا۔ایم سی جی ایم، پھل، سبزی اور گوشت کی فروخت کے لیے عوامی منڈیوں کی تعمیر، اس کی دیکھ بھال اور اس کو ریگولیٹ کرتی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ موجودہ خستہ حال بازاروں کی بحالی اور دکان مالکوں کی بحالی کی  حالت ابتررہی۔

پابندی لگائے گئے علاقوں میں سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر پر 3.25 کروڑ روپے کا فضول خرچ ہوا کیونکہ اسے بعد میں ضائع  کرنا پڑا۔

ایک ادھورے پن بجلی منصوبے کے لیے نظرثانی شدہ انتظامی منظوری کے لیے گرانٹ میں تاخیر کی وجہ سے چھ سال سے زیادہ سے فنڈروکے گئے ۔

ممبئی سلم امپروومنٹ بورڈ، ممبئی مضافاتی ضلع کے کلکٹر اور ایم سی جی ایم  کے درمیان تال میل کے فقدان کی وجہ سے ممبئی کے گھاٹ کوپر (مشرقی) میں رمابائی امبیڈکر نگر میں 5.71 کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا کثیر مقصدی مرکزپانچ سال سے زیادہ  تک غیر فعال رہا۔

قابل ٹیکس آمدنی کا غلط تخمینہ اور پیشگی انکم ٹیکس کی کم ادائیگی کی وجہ سے مالی سال 2017-2018 کے لیے 2.36 کروڑ روپے کے سود کی ادائیگی کرنی پڑی۔

نہر کی تعمیر کے لیے زمین حاصل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ڈیم کی تعمیر پر 15.20 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

کیرالہ

سال 2020-2021 کے لیے کیرالہ کی  سی اے جی رپورٹ حال ہی میں اسمبلی میں رکھی گئی تھی۔

1) اس میں بتایا گیا کہ کیرالہ کا مالیاتی خسارہ 2016-2017 میں 26448.35 کروڑ روپے سے بڑھ کر 2020-2021 میں 40969.69 کروڑ روپے ہو گیا۔

2) 2020-2021 کے دوران مالیاتی خسارے میں 17132.22 کروڑ روپے کا اضافہ بنیادی طور پر محصولات کے خسارے میں اضافہ (11334.25 کروڑ روپے)، غیر قرض کیپٹل وصولیوں میں کمی (24.83 کروڑ روپے)، سرمایے کے اخراجات (4434.85)میں اضافہ اور قرضے کی تقسیم  (1338.29 کروڑ روپے) میں اضافے کی وجہ سے ہوئی۔

3) کل ریونیو کے اخراجات میں سے 60.94 فیصد تنخواہ اور مزدوری (28767.46 کروڑ روپے)، سود کی ادائیگی (20975.36 کروڑ روپے)، پنشن کی ادائیگی (18942.85 کروڑ روپے) اور سبسڈی (6547.48 کروڑ روپے) پر خرچ ہوئے۔

4) 2020-2021 کے اختتام پر ریاست کا عوامی قرض 205447.73 کروڑ روپے رہا، جس میں داخلی قرض (190474.09 کروڑ روپے) اور مرکزی حکومت سے قرض اور پیشگی (14973.64 کروڑ روپے) شامل ہیں۔

اڑیسہ

اڑیسہ کی سی اے جی رپورٹ 31 مارچ کو اسمبلی میں پیش کی گئی۔

1) ریاست کی سی اے جی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 1980 کی دہائی سے ریاست میں آبپاشی کے منصوبے نامکمل رہے ہیں اور ان کی لاگت 182 فیصد سے بڑھ کر 4596 فیصد ہو گئی ہے۔ آڈٹ شدہ سات منصوبوں میں سے اب تک صرف تین منصوبے مکمل ہو سکے ہیں۔ ان کی کل ابتدائی لاگت کا تخمینہ 955.73 کروڑ روپے ہے۔

تاہم نظرثانی شدہ تخمینہ19103.63کروڑ روپے ہے جس میں سے اب تک صرف 12742.11 کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ اب تک آبپاشی کے لیے مجوزہ 502842 ہیکٹر میں سے صرف 122418 ہیکٹر  ہی کور ہو پایا ہے۔

2) 2020-21 کے دوران اڑیسہ حکومت کی محصولات کی وصولی (104387 کروڑ روپے) کا مجموعی ریاستی گھریلو مصنوعات (جی ایس ڈی پی ) (509574 کروڑ روپے) کا 20.49 فیصد کنٹری بیوشن تھا۔ 2020-21 کے لیے ریاست کے محصولاتی اخراجات (95311 کروڑ روپے) جی ایس ڈی پی کا 18.70فیصدتھا، جو 2019-20 (99137 کروڑ روپے) کے مقابلے 3826 کروڑ روپے (3.86 فیصد) کم رہا۔

3) 2020-21 میں ریاست کی کل بچت 43554.13 کروڑ روپے تھی، جس میں سے 32,556.37 کروڑ روپے (74.75فیصد) سال کے آخری دن یعنی 31 مارچ 2021 کو سرینڈر کر دیے گئے تھے۔ 2020-21 کے دوران 10997.76 کروڑ روپے کی بچت (25.25فیصد) سرینڈر نہیں کی گئی۔

مغربی بنگال

سی اے جی کی رپورٹ 28 مارچ کو ریاستی اسمبلی میں پیش کی گئی۔

1) سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2020 اور فروری 2021 میں حکومت بنگال نے 2019-2020 سے 2024-2015 تک کے ان چھ سالوں کے ہدف کے حوالے سے ایف آر بی ایم ایکٹ میں ترمیم کی تھی۔2016-21 کے دوران ریاست کے مالیاتی پیرامیٹرز، جیسا کہ اس کی آمدنی اور مالیاتی خسارے سے ظاہر ہوتا ہے، منفی رہا۔ 2017-21 کے دوران ریاست کو نقصان بھی اٹھانا پڑا۔

2) ریاست کی ذمہ داریوں میں سال بہ سال اضافہ ہوا ہے۔ 2020-2021 کے دوران مارکیٹ کے 58.84 فیصد قرضے ریاست کے ریونیو اکاؤنٹ کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔

3) 2020-2021 کے آخر میں ریاست کے بقایہ عوامی قرض میں 12.92 فیصد اضافہ ہوا۔ اگلے تین، پانچ اور سات سالوں میں کل بقایہ عوامی قرض (424247 کروڑ روپے) کی قرض کی مچیورٹی 15.49، 26.60 اور 41.42 فیصدرہےگی۔

4) رپورٹ بتاتی  ہے کہ 65 خود مختار اداروں (اے بی)،جنہیں اپنے سالانہ اکاؤنٹس سی اے جی  کو جمع کروانے تھے، میں سےدو ڈسٹرکٹ لیگل سروسز اتھارٹیز (ڈی ایل ایس اے) نے 1998-99 میں اپنے قیام کے بعد سے اکاؤنٹس جمع نہیں کیے ہیں۔ 30 ستمبر 2021 تک سال 2020-21 تک ایسے اداروں کے 288 سالانہ اکاؤنٹس زیر التوا تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ریاستی حکومت کے مختلف محکموں کے’ناکافی اندرونی کنٹرول’  اور ‘مانیٹرنگ میکانزم کی کمی’ کو ظاہر کرتا ہے۔