گوہاٹی کی بی جے پی رکن پارلیامان کوئین اوجا نے کہا کہ ابھی معاملہ بہت گرم ہے۔ جب کیتلی بہت گرم ہے تو اس کو چھونے پر ہاتھ جل جائیںگے۔ ہم انتظار کریںگے۔ ہم آہستہ آہستہ کوشش کریںگے۔
آسام کے تن سکیا میں شہریت ترمیم بل کی مخالفت کرتے مظاہرین (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: بدھ کو راجیہ سبھا سے پاس ہوئے شہریت ترمیم بل کے خلاف آسام میں بڑھتے مظاہرے کے درمیان حکمراں بی جے پی کے رکن پارلیامان نے کشیدہ آمیز حالات پر تشویش کا اظہار کیااور کہا کہ لوگوں میں فکر اور غلط فہمی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، بی جے پی کے تین رکن پارلیامان نے کہا کہ بل کو لےکر بہت ڈھیر ساری غلط فہمیاں ہیں۔ حالانکہ، انہوں نے کہا کہ مخالفت کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے۔
تیج پور کے رکن پارلیامان پلب لوچن داس نے کہا، ‘ مدعا اس کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے طریقے سے ہے۔ ایسی غلط خبریں پھیلائی جا رہی ہیں کہ لاکھوں لوگ یہاں رہنے آ رہے ہیں اور سرحد کو بنگلہ دیشی لوگوں کے لئے کھولا جا رہا ہے۔ لوگوں کو کوئی آخری تاریخ نہیں بتائی گئی ہے۔ ‘
شہریت ترمیم بل میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ہندو، جین، عیسائی، سکھ، بودھ اور پارسی کمیونٹی کے ان لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کی تجویز ہے، جنہوں نے ملک میں چھے سال گزار دئے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے۔
داس نے کہا، ‘ آسام کے لوگوں کو ڈر ہے کہ ان کی زبان کھو جائےگی۔ بنگلہ، آسام کی زبان کی جگہ لے لےگی اور وہ اقلیت ہو جائیںگے۔ انہوں نے کہا، ہمیں کئی قدم اٹھانے ہوںگے۔ ایک مہم چلانے کے علاوہ مرکز کو آسام کی زبان کی حفاظت کے لئے ایک قانون پاس کرنا چاہیے۔ آسام میں چھے کمیونٹی ایس سی کمیونٹی کا درجہ مانگ رہی ہے اور ہمیں اس کے لئے قدم اٹھانے ہوںگے۔ ‘
گوہاٹی کی بی جے پی رکن پارلیامان کوئین اوجا نے قبول کیا کہ حالات خراب ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ یہ اچھا نہیں ہے کل کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔ یہاں غلط فہمی اور غلط جانکاری ہے۔ میں ان کی مخالفت کرنے کے حق کی حمایت کرتی ہوں لیکن یہ مخالفت کرنے کا طریقہ نہیں ہے۔ ‘ یہ پوچھے جانے پر کہ مظاہرین کو خاموش کرنے کے لئے وہ کیا کریںگی؟ انہوں نے کہا، ‘ ابھی معاملہ بہت گرم ہے۔ جب کیتلی بہت گرم ہے تو اس کو چھونے پر ہاتھ جل جائیںگے۔ ہم انتظار کریںگے۔ ہم آہستہ آہستہ کوشش کریںگے۔ ‘
منگلدوئی سے بی جے پی رکن پارلیامان دلیپ سیکیہ نے کہا، ‘ حالات بہت کشیدہ ہیں۔ لوگوں میں بنگلہ دیش سے آنے والے ہندوؤں کا ڈر ہونے کی بات قبول کرتے ہوئے سیکیہ نے کہا، مقامی لوگ فکرمند ہیں کہ ان کے حقوق اور ذریعہ معاش کو دور کرنے اور ان کی زبان کو بدلنے کے لئے لاکھوں لوگ آئیںگے۔ ‘
انہوں نے کہا، ‘ 1985 کے آسام سمجھوتہ کو نافذ کرنے کے لئے نریندر مودی حکومت نے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل کی ہے۔ ہم بھی فکرمند ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آسامی ہماری زبان بنی رہے۔ ‘ داس اور سیکیہ نے کہا کہ اس بار بل کو پارلیامنٹ میں پیش کرنے سے پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور ریاست کے مختلف جماعتوں کے بیچ بات چیت لمبی چلی۔
داس نے کہا، ‘ کبھی بھی کسی نے بھی ایسی کوشش نہیں کی۔ ہم نے کوشش کی۔ لیکن اگر کوئی نہیں سمجھنا چاہتا ہے اور پریشانی پیدا کرناچاہتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟’