خصوصی رپورٹ: اتر پردیش کےتشددمتاثرہ15اضلاع میں جاکر ملک کی تقریباً30یونیورسٹی کے طلبا کے ذریعے تیار کی گئی رپورٹ میں پولیس پرسنگین الزام لگائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس نے مظاہرہ کو روکنے اور لوگوں کو کھدیڑنے کے بجائے لوگوں پر گولیاں چلانی شروع کر دیں اور نوجوانوں بالخصوص نابالغوں کو نشانہ بنایا گیا۔
نئی دہلی: شہریت ترمیم قانون کے خلاف اتر پردیش میں ہوئے احتجاج اور مظاہرے کے دوران پولیس نے خاص طور پر مسلم علاقوں اور اقتصادی طورپر کمزور ایسے لوگوں کو نشانا بنایا جو کباڑ بینتے ہیں، یومیہ مزدوری کرتے ہیں یا پھر چھوٹے ڈھابے چلاتے ہیں۔یہ الزام ‘اسٹوڈنٹس رپورٹ آن پولیس بروٹیلٹی اینڈ آفٹرمیتھ‘ نامی ایک رپورٹ میں لگائے گئے ہیں۔ جس کو ملک کی تقریباً 30 یونیورسٹی کے طلبا نے اتر پردیش کےتشدد متاثرہ 15 اضلاع میں جاکر تیار کیا ہے۔ یہ ضلع میرٹھ، مظفرنگر، علی گڑھ، بجنور،فیروزآباد، سہارنپور، بھدوہی، گورکھپور، کانپور، لکھنؤ، مئو اور وارانسی ہیں۔
تقریباً 30 سے زیادہ یونیورسٹی میں بنارس ہندویونیورسٹی، لکھنؤیونیورسٹی، الہ آبادیونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی، جواہر لال نہرویونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، آئی آئی ٹی دہلی، آئی آئی ایم سی، نیشنل لاء یونیورسٹی، آئی آئی ایم احمدآباد، جندل سمیت دوسری نیورسٹی شامل ہیں۔ان یونیورسٹی کے طلبا نے 14-19 جنوری، 2020 کے بیچ ان 15 اضلاع میں جاکر حقائق کی چھان بین کی اور شواہد جمع کیے اورتشدد کے شکار لوگوں سے ملاقات کی۔
رپورٹ میں پولیس پر سنگین الزام لگائے گئے ہیں اور کہا گیا ہے کہ اس نے مظاہرہ کو روکنے اور لوگوں کو کھدیڑنے کے بجائے لوگوں پر گولیاں چلانی شروع کر دی اور نوجوانوں بالخصوص نابالغوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ پولیس نے گولی مارنے کے بنیادی اصولوں تک کی پیروی نہیں کی اور زیادہ تر لوگوں کو کمر کے اوپر گولی ماری۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوپی پولیس بنا کسی ثبوت کے اور خاص طور پر رات میں لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ وہ چھتوں کے سہارے گھروں میں گھس کر دروازوں کو توڑکر گرفتاریاں کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے کئی فیملی فوری طور پراپنے گھروں سے بھاگ گئے ہیں جبکہ کئی معاملوں میں فیملی کے مرد گھر لوٹنے کے بجائے کام سے لوٹنے کے بعد کہیں اور رہ رہے ہیں۔ جن گھروں میں پولیس توڑ پھوڑ کر رہی ہے انہی لوگوں سے یہ لکھوا رہی ہے کہ یہ توڑ پھوڑ مظاہرین نے کی ہے۔ اس کے بعد انتظامیہ متاثرین کے اہل خانہ کو املاک کو نقصان پہنچانے کا نوٹس بھیج رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، انتظامیہ املاک کے نقصان کی بھرپائی کے لیے اب تک مرادآباد میں 200،لکھنؤ میں 110 گورکھپور میں 34 فیروزآباد میں 29 اور سنبھل میں 26 نوٹسں بھیج چکی ہے۔اس کے ساتھ ہی پولیس کے ذریعے لوگوں کے فوٹو اور پتے اخباروں، پوسٹروں اور ہورڈنگ کے توسط سے عوامی کئے جانے کی وجہ سے ان کے اہل خانہ کے لیے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
وہیں، رپورٹ میں یہ الزام بھی لگائے گئے ہیں کہ پولیس نے غیر نامزد افرادمیں ہزاروں لوگوں کے نام شامل کر دیے، ہیں اور ان کا نام ہٹانے کے لیے وصولی کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اہل خانہ کو مرنے والوں کی لاشیں ان کے گھر لےکر نہیں جانے دیا جا رہا اور بڑی تعداد میں پولیس فورسزکی موجودگی میں چند گھنٹوں میں تجہیز وتکفین کےرسوم کے بغیرلاشوں کو دفن کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پوسٹ مارٹم میں دیری کی جا رہی ہے اور ایک مہینے کے بعد بھی پولیس مرنے والوں کے اہل خانہ کو پوسٹ مارٹم رپورٹ نہیں دے رہی ہے۔ وہیں، کئی ایسے معاملے سامنے آئے جہاں ہاسپٹل میں زخمیوں کو بھرتی کرنے سے منع کر دیا اور جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی موت ہو گئی۔زخمیوں کو ان کے علاج سے متعلق ایکسرے او ردوسرے دستاویز بھی نہیں دیے گئے۔
پولیس نے ایک ایسی جھوٹی کہانی بھی تیار کی کہ جو لوگ زخمی ہوئے یا مارے گئے وہ مسلم کمیونٹی کے بیچ گینگ وار کا شکار ہوئے۔ وہیں، پولیس کے ذریعے کسی کو بھی گولی مارے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے پولیس نے اموات کے لیے ایف آئی آر بھی نہیں لکھے۔رپورٹ کے مطابق، آر ایس ایس، بجرنگ دل کے ساتھ بی جے پی کے کئی وزراء نے تشدد کو بھڑ کانے میں پولیس کا ساتھ دیا۔ اس کے ساتھ ہی لوگوں پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کی جائیداد کو نقصان پہنچانے میں پولیس کی مدد کی۔
وہیں، لوگوں کے جذبات کو عام لوگوں اور مظاہرین کے خلاف کرنے کے لیے رپورٹ میں مقامی میڈیا کو بھی مجرم ٹھہرایا گیا۔ جبکہ انتظامیہ یا ریاست کا کوئی وزیر متاثرین کی فیملی سے ملنے نہیں گیا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس تشدد کو پچھلے کچھ سالوں میں انتظامیہ اور عام لوگوں کی سوچ کو متاثر کرنے والے ایک کمیونل پولرائزیشن کے نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کے تحت ایک خاص کمیونٹی کے تئیں نفرت کے جذبات پیدا کیے گئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کے ان 15 ضلعوں میں 23 سے زیادہ لوگوں کی موت ہوئی ہے جس میں وارانسی میں مارا گیا ایک آٹھ سال کا بچہ صغیر بھی شامل ہے۔ وہیں یوپی پولیس نے مظاہرین کے خلاف درج کئے گئے 327 معاملوں میں 1113 لوگوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس میں نابالغ خاص کر اسکول کے طلبا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، 5558 لوگوں کو احتیاطاً حراست میں لیا گیا۔
کسی بھی نابالغ کو حراست میں نہ لینے کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنبھل میں 16 اور 17 سال کے دو نابالغ کی فیملی نے الزام لگایا کہ ان کے بچوں کو بریلی جیل میں ایک ہفتے تک حراست میں رکھا گیا۔
‘ناگریک ستیہ گرہ’ نام کی مہم کے تحت مختلف یونیورسٹی کے طلبا کو اتر پردیش کے پر تشدد علاقوں میں بھیج کر رپورٹ تیار کروانے والے سماجی کارکن منیش شرما نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘بنارس میں سی اے اے، این آرسی کے خلاف مظاہرے کے دوران ہمارے تقریباً 50 ساتھیوں کو یہ الزام لگاتے ہوئے حراست میں لینے کے بجائے سیدھے گرفتار کر لیا گیا کہ وہ ملک مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ یہ نیا پیٹرن ہے، جہاں مخالفت کرنے والے ملک مخالف ہو جاتے ہیں۔ ان کو چھڑانے کے دوران ایسے دیگر لوگوں کے بارے میں کھڑا ہونے کا خیال آیا۔ سرکار نے ایک پیٹرن کے طور پر سب سے کمزور طبقے کو نشانہ بنایا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اپنے ساتھیوں کو چھڑانے کے بعد ہم نے اپنے گروپ کے ساتھ الگ الگ یونیورسٹی کے طلبا سے رابطہ کیا۔ ہم نے انہیں یوپی کے سب سے پر تشدد 15 ضلعوں میں بھیجا، جہاں پر پولیس نے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا ہے اور ہندی میڈیا انہیں دنگائی بلوائی کہہ رہا ہے۔ اتر پردیش، این سی آر، پنجاب، جنوبی ہندوستان سمیت قریب 30 یونیورسٹی کے طلبا وہاں گئے اور لوگوں کو بتانے کی کوشش کی یہ ملک ان کے ساتھ ہے۔’
شرما نے کہا، ‘ہم ہندو علاقوں میں جاکر یہ کہانیاں سنائیں گے اور متاثرین کی فیملیوں کے لیے پیسے اکٹھا کریں گے۔ گولی چلانے والے پولیس والوں کے خلاف ہم قانونی طریقے سے لڑائی لڑیں گے۔ ایس آئی ٹی جانچ کی مانگ کو لے کر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی ہم 30 جنوری سے 15 مارچ تک چمپارن سے راج گھاٹ تک 1300 کلومیٹر کی پدیاترا نکالیں گے۔’