سی اے اے اور این آر سی ملک کے ہر شہری کے احساس اور آزادی کی توہین ہے

جس شہریت قانون کو گاندھی جی اور ہندوستانیوں نے آج سے113 سال پہلے غیر ملکی زمین پر نہیں مانا، اس نوآبادیاتی سوچ سے نکلے سی اے اے اوراین آر سی کو ہم آزاد ہندوستان میں کیسے قبول‌کر سکتے ہیں؟

جس شہریت قانون کو گاندھی جی اور ہندوستانیوں نے آج سے113 سال پہلے غیر ملکی زمین پر نہیں مانا، اس نوآبادیاتی سوچ سے نکلے سی اے اے اوراین آر سی کو ہم آزاد ہندوستان میں کیسے قبول‌کر سکتے ہیں؟

فوٹو : پی ٹی آئی

فوٹو : پی ٹی آئی

جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کے لئے لائے گئے شہریت رجسٹریشن قانون کی مخالفت نے 113 سال پہلے آج کے گاندھی اور ستیہ گرہ کو جنم دیاتھا۔ اسی نوآبادیاتی سوچ کو آزاد ہندوستان کی حکومت سی اے اے / این آر سی کے طورپر دوہرا رہی ہے۔جس قانون کو گاندھی جی نے غیر ملکی زمین پر ہندوستان اورہندوستانیوں کے ساتھ امتیازی رویہ اور توہین مانا تھا، اس سے مماثل کسی بھی قانون کو ہم آج کے آزاد ہندوستان میں کیسے قبول‌کر سکتے ہیں۔ اس کو قبول کرناگاندھی، ستیہ گرہ، جمہوریت اور ‘ بھارت ماتا ‘ کی توہین ہوگی۔

وزیر داخلہ امت شاہ نے شہریت ترمیم قانون کے بعد ملک گیرسطح این آر سی لانے کا اعلان کیا تھا، اس لئے اس کو جوڑ‌کر ہی دیکھنا ہوگا۔حالانکہ گزشتہ دنوں وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سے انکارکیا لیکن مردم شماری کی آڑ میں این پی آر لانے کا فیصلہ کرکے حکومت اس سمت میں پہلا قدم اٹھا بھی چکی ہے۔

 مودی اور شاہ حکومت کا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اس کو خاص مذہب  کی مخالفت کے طور پر نہ دیکھیں کیونکہ اس کے ذریعے وہ نہ صرف فرقہ وارانہ ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے، بلکہ آئین کو طاق پر رکھ‌کر ایک آمرانہ اقتدار قائم کرنا چاہتی ہے۔اس کے بعد ملک کے ہر شہری کی شہریت حکومت کے ایک رجسٹرکے بھروسے ہوگی۔

اس لئے یہ صرف ہندوراشٹر بنانے تک معاملہ نہیں ہے ؛ جیسازیادہ تر لوگ کہہ رہے ہے، بلکہ اس کی آڑ میں یہ ملک کے ہر شہری کی آزادی، جمہوریت اوروقار کو حکومت کے سامنے سرنگوں کرنے کا معاملہ ہے۔سی اے اے کے ساتھ مل‌کر این آر سی ملک کے ہر شہری کےاحساس اور آزادی کی توہین ہے۔

این آر سی کو لےکر ابھی قانون اور اصول نہیں بنے ہے۔لیکن 2003 میں باجپائی حکومت کے این پی آر کی تجویز کی بنیاد پر اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں کہ اس کے تحت مرکز، ریاست کی راجدھانی، ضلعی سطح، سب ڈویزن سطح سے لےکرشہر اور گاؤں تک شہریوں کا ایک رجسٹر بنے‌گا۔

اور جیسا کہ گاندھی جی نے جنوبی افریقہ کی اپنی مکمل تحریک کے بارے میں لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وقت وہاں کسی بھی سرکاری دفتر میں کوئی کام ہونے پر اپنا رجسٹریشن کارڈ دکھانا ہوتا تھا۔آج کل ہندوستان میں بھی آدھار کارڈ کی ضرورت ہم دیکھ چکےہے۔ آنے والے وقت میں یہ شہریت رجسٹریشن کارڈ اور اس کے نمبر میں بدل سکتا ہے۔

ہر شہری کو اپنا رجسٹریشن کروانا چاہیے اور ایک شہری رجسٹر میں یہ سب رکارڈ ہو، یہ ایک نوآبادیاتی سوچ ہے۔1906 میں جنوبی افریقہ میں وہاں رہ رہے ہندوستانی شہریوں کا رجسٹریشن لازمی کر ان کے ساتھ نسل کی بنیاد پر جانبداری کرنے اور ان پر اقتدار کی گرفت کسنے کی سوچ سے یہ میل کھاتی ہے۔

گاندھی جی نے غیر ملکی زمین پر بھی اس کو ہندوستان ملک اور اس کے لوگوں کی توہین بتایا تھا اور اس کی مخالفت کے لئے ہی ستیہ گرہ کاہتھیار گڑھا تھا۔

اس وقت کے جنوبی افریقہ کے ایک ریاست ٹرانس ویل میں رہنےوالے ہندوستانی شہریوں کا رکارڈ رکھنے کے لئے وہاں کی نوآبادیاتی حکومت 1906میں ‘ایشیاٹک رجسٹریشن ایکٹ ‘ لائی تھی۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ ایک بھی بےقصورشہری کی توہین سارے ملک کی توہین ہے۔

Mahatma-Gandhi

وہاں رہنے والے ہندو، مسلم، پارسی، سکھ تمام مذہبوں اورطبقوں کے لوگوں نے متحد ہوکر اس قانون کی کھل کر مخالفت کی تھی۔سب نے طے کیا تھاکہ کوئی بھی ہندوستانی شہری اس قانون کے تحت اپنا رجسٹریشن نہیں کرائے‌گا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس وقت جو 13000 ہندوستانی اس وقت جنوبی افریقہ میں رہتے تھے، اس میں سے صرف 500 لوگوں نے ہی اپنا رجسٹریشن کروایا۔

اس کے بعد گاندھی جی نے حکومت کی بات پر بھروسہ کر ایک سمجھوتہ کیا کہ اگر حکومت قانون کو واپس لے اور قانون کی بنیاد پر ہندوستانی شہریوں کے رجسٹریشن کی ضرورت ختم کرے، تو وہ سب اپنا رجسٹریشن کروا لیں‌گے۔اور لوگوں نے رجسٹریشن کروایا۔ لیکن حکومت ‘ ایشیاٹک رجسٹریشن ایکٹ ‘ کو واپس لینے کی بجائے 6 اگست 1908 کو اس کو اور کڑے کرنے کےاہتمام والا بل لے آئی۔

اس بل کی مخالفت میں اسی دن ایک 2000 لوگوں نےاپنے-اپنے رجسٹریشن سرٹیفیکٹ گاندھی جی کو سونپے، جن کو بڑی بھیڑ کے سامنے ایک بڑیسے کڑھاہی میں جلائی گئی آگ کے حوالے کیا گیا۔یہ ستیہ گرہ 1914 تک یعنی آٹھ سال چلا تھا، جس کے بعدگاندھی نے ہندوستان لوٹ‌کر یہاں ستیہ گرہ کے اس ہتھیار کو آزمایا تھا۔اس تحریک میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ یہ عدم تشدداور مضبوط ارادہ  یعنی ستیہ گرہ کرنے کے لئے جیل لاٹھی ہر تکلیف جھیلنے کی تحریک تھی۔

اگر حکومت غیر ملکی شہری ڈھونڈنا چاہتی ہے، تو بے شک ڈھونڈیں لیکن کیا اس کے لئے ملک کے ہر شہری کو شک کے دائرے میں لاکر قطار میں کھڑاکرنا صحیح ہے؟یہ تو ایسا ہو گیا کہ چار باہری لوگوں کو ڈھونڈنے کے نام پر پورے شہر کو قطار میں کھڑا کیا جائے۔ دوسراان کو ڈھونڈنے کے بعد ان میں سےکچھ لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر الگ کیا جائےتو کیا یہ صحیح ہے؟

ایک بات اور، سی اے اے پہلے سے ہی ہندوستان میں آ چکےلوگوں کے لئے ہیں، اس لئے یہ کہنا کہ یہ ہندوستان کے لوگوں کے خلاف نہیں ہے، غلط ہے۔کیونکہ ان میں سے صرف تین ملک لوگوں کو شہریت دی جائے‌گی،لیکن اس میں ایک مذہب خاص کے شہریوں کو شہریت نہ دینا شامل ہے۔

کیا یہ ہندوستان میں رہ رہے لوگوں کے ساتھ جانبداری نہیں ہے؟ آئین کی دفعہ 14 ہندوستان میں رہ رہے ہر آدمی کو برابری کا حق دیتی ہے۔ملک کے ہر شہری کا نام اور مکمل جانکاری ایک رجسٹر میں درج ہو جس کو گاؤں سے لےکر ضلع، ریاست اور مرکز ہر سطح پر رکھا جائے‌گا، یہ شہریوں کی آزادی پر حملہ ہے اور جمہوریت کی توہین ہے۔

یہ نوآبادیاتی سوچ کا مظہر ہے۔ اس کے خلاف ایک اور ستیہ گرہ ضروری ہے۔جس شہریت قانون کو گاندھی جی اور ہندوستانی لوگوں نے آج سے 113 سال پہلے غیر ملکی زمین پر نہیں مانا، اس نوآبادیاتی سوچ سے نکلے اس سی اےاے اور این آر سی کو ہم اس آزاد ہندوستان میں کیسے قبول‌کر سکتے ہیں؟لوگوں کو اس کے لئے ستیہ گرہ کرنا ہوگا۔ گاندھی جی کاستیہ گرہ آٹھ سال چلا تھا۔ ستیہ گرہ میں تشدد کو کوئی مقام نہیں تھا۔سی اے اے / این آر سی کے خلاف لمبے ستیہ گرہ کی تیاریرکھنی ہوگی اور اس کے لئے کئی لوگوں کو اپنا سب کچھ چھوڑ‌کر تحریک میں کودنا ہوگا۔گاندھی جی نے جنوبی افریقہ کے ستیہ گرہ کی تاریخ کے نام سے تفصیل سے لکھا ہے، جس کو آج ہر شخص کو پڑھنا چاہیے۔

(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )