بجٹ ریونیو میں شدید کمی دیکھی جا رہی ہے۔ مرکزی وزیر خزانہ نرملاسیتارمن اس سے کیسے نپٹیںگی؟
وزیر اعظم نریندر مودی کی اکانومک ایڈوائزری کونسل کے ممبر رہ چکےماہر اقتصادیات رتھن رائے نے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کے ذریعے گزشتہ سال 2018-19میں پیش کئے گئے ترمیم شدہ بجٹ کے اعداد و شمار میں1.7 لاکھ کروڑ روپے(جی ڈی پی کا1.2 فیصد)کی شدیدٹیکس ریونیو کی کمی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی معیشت حکومتی خزانہ کے نظریےسے’سائلنٹ ہارٹ اٹیک’کے دور سے گزر رہا ہے۔اس پس منظر کو واضح کرنا اہم ہے جس میں رائے نے اس سنگین مسئلہ کےبارے میں بات کی تھی۔ سال 2019 کے انتخابات سے پہلے پیوش گوئل کے ذریعے پیش عبوری بجٹ میں ترمیم شدہ تخمینے میں ریونیو کی شدیدکمی کی جانکاری نہیں دی گئی تھی۔شاید مودی حکومت تب ‘سائلنٹ مالی خزانےکےہارٹ اٹیک’کو عام نہیں کرنا چاہتی تھی۔
حالانکہ یہ بڑی غلطی تب پکڑی گئی جب نرملا سیتارمن نے نئی حکومت بننے کے بعد بجٹ پیش کیا۔ اس وقت، اصل ٹیکس جمع کاریکارڈ رکھنے والےکنٹرولراکاؤنٹنٹ آف جنرل نے تلخ سچائی کو اجاگر کیا کہ ریونیو ایک سال کے اندرجی ڈی پی کے 1.2 فیصد تک گر گیا تھا، جو حال کی دہائیوں میں غیرمتوقع ہے۔جب اس پیمانے پر ریونیوکی کمی ہو اور حکومت کا سال بھر کا بجٹ کم وبیش یہی رہتا ہے، تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ بڑے پیمانے پر خرچ میں کمی ہوتی ہے۔ انتخابات سے پہلے کے مہینوں میں سرکاری صرفےمیں کمی آئی تھی اور ‘مالی خزانےکے ہارٹ اٹیک’کے اس نتیجہ کو لےکر شفافیت میں شدید کمی تھی۔
حکومت نے پبلک سیکٹر کا کام کرنے کے لئےپرائیویٹ سیکٹرکے ٹھیکیداروں کو ادائیگی میں تاخیرشروع کر دی یہاں تک کہ مودی حکومت کی فلاحی اسکیموں پر خرچ بھی بہت کم ہونے لگا۔ ایسی خبریں آئی ہیں کہ کیسے پی ایم کسان کی ادائیگی(سالانہ 80000 کروڑ روپے)اور اُجوالا گیس سیلنڈردینے کی تعداد میں کافی کمی آئی ہے۔ایک بڑی ریاست کے ایک سینئر نوکرشاہ نے مجھے یہاں تک بتایا کہ وزیر اعظم کے نام پر شروع کی گئی کفایتی رہائش گاہ اسکیم میں رقم کی کمی ہے اور ریاستوں کو اس گیپ کو بھرنے کے لئے زیادہ قرض لینے کے لئے مجبور کیاجا رہا ہے۔
ایک فروری کو پیش کیا جانے والا بجٹ ہمیں بتائےگا کہ ہندوستان کی عوامی معیشت کو متاثر کرنے والا ‘سائلنٹ ہارٹ اٹیک’کیسے جاری ہے۔ ایک معمولی سرکاری اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے۔ مرکز نے 2019-20 کے لئے کل ریونیومیں18.5 فیصدکے اضافہ کے لئے بجٹ دیا تھا۔ ظاہر ہے، مالی خزانےکا نقصان جی ڈی پی کا 3.3 فیصد طے کرنے کے ساتھ، اسی کے مطابق اخراجات کے بجٹ کی اسکیم بنائی گئی ہوگی۔حالانکہ، حال میں آئی کئی رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ ریونیو میں18.5 فیصد کے اضافہ کے تخمینے کے مقابلے نو مہینوں کے لئے اصل ریونیو شرح نمو صرف3 فیصد ہے۔ ‘سائلنٹ ہارٹ اٹیک’جاری ہے۔ 2019-20 کے لئے بجٹ کاٹیکس ریونیو2461000 کروڑ روپے ہے، جو کہ 2018-19 میں کل ٹیکس جمع سے زیادہ 18.5 فیصد کا اضافہ ہے۔
اب اگر اصل جمع صرف تقریباً 3 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے، تو یہ بجٹ رقم کے مقابلے تقریباً 2.75 لاکھ کروڑ روپے کی کمی ہوگی۔ اس مالی بحران کا ایک اہم حصہ جی ایس ٹی ریونیو ہے جو کہ 2017-18 سے قریب قریب مستحکم بنا ہوا ہے، جبکہ مرکز ریاستوں کے ساتھ قرارکے مطابق 14 فیصد سالانہ اضافہ کا اندازہ لگا رہا ہے۔اس کو لےکر بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ مرکز بجٹ میں ریونیو میں اتنی بڑی کمی سے کیسے نپٹ رہا ہے۔ ریونیو میں اتنی بڑی کمی کی وجہ سے یہ تمام بجٹ اخراجات کو کیسے پورا کر رہا ہے؟ کیا یہ بڑے پیمانے پر خرچ میں کٹوتی کر رہا ہے،جیسا کہ 2018-19 میں کی گئی تھی جس نے جی ڈی پی اضافہ کو منفی طور سے متاثر کیا؟ہم جو بھی جی ڈی پی اضافہ حاصل کر رہے ہیں وہ نجی سرمایہ کاری کے فقدان میں بڑےپیمانے پر سرکاری خرچ سے ممکن ہو پا رہا ہے۔
اس لیے وزیر خزانہ نرملا سیتارمن کو ایک فروری کو سب سے بڑے سوال کا جواب دینا ہوگا کہ وہ ریونیو میں اتنی غیر متوقع کمی کے مقابلے میں بجٹ خرچ کوکیسے منظم کر رہی ہیں۔ اس طرح کی کمی کو پورا کرنے کا واحد طریقہ بازار سے بہت زیادہ قرض لینا ہے۔ لیکن کیا وہ ایسا کر رہی ہیں؟ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلی سہ ماہی (جنوری سے مارچ 2020) میں حکومت کے ذریعے خرچ میں تیزی سے کٹوتی کرنے کی کوشش رہی ہے۔ اس کی وجہ سے مختصر سے درمیانی مدت کے لئے جی ڈی پی شرح نمومیں کمی آسکتی ہے۔
بی جے پی کے پاس سیاست میں اپنے فائدے کے لئے من مطابق طریقے سےبیانیہ /ڈسکورس تیار کرنے کا ہنر ہے۔ لیکن اقتصادیات میں اگر اعداد و شمار الگ کہانی بیاں کر رہے ہوں تو اختیاری حقیقت کی تشکیل مشکل امرہے۔ مالی خزانےکا ہارٹ اٹیک اب سائلنٹ نہیں ہے۔