بک ریویو: یہ کتاب گڑھی ہوئی کہانیاں نہیں سناتی بلکہ انڈرورلڈ کا حقیقی چہرہ دکھاتی ہے۔وہ حقیقی چہرہ جس میں ’گلیمر‘سے کہیں زیادہ ’تاریکی ‘ہے۔یہ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر اسحاق باغبان کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔وہ ممبئی پولیس کے ان اعلیٰ افسران میں سے ایک تھے جنہو ں نے شہر ممبئی میں انڈرورلڈ کی کمر توڑنے میں بھی اور شہر کو جرائم سے پاک کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
فوٹو : اسحاق باغبان/فیس بک
بمبئی انڈر ورلڈ پر یوں تو انگریزی اور ہندی میں کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔البتہ اردو کا دامن ایسی کسی کتاب سے تقریباً خالی ہے یہ اور بات ہے کہ انگریزی اور ہندی والوں نے انڈر ورلڈ پر زیادہ تر مواد اردو اخبارات ہی سے حاصل کیا ہے۔ چند کتابیں مقبول بھی ہوئی ہیں اور چند پر فلمیں بھی بنی ہیں ، لیکن زیادہ تر کتابوں اور فلموں میں بھی یا تو انڈر ورلڈ کی تاریکی پر چمک دمک کا ملمع کردیا گیا ہے ،یا کرداروں میں وہ’خوبیاں’اور ‘خامیاں’ ڈال دی گئی ہیں جو حقیقتاً ان میں نہیں تھیں ،یا ان سے جھوٹے اور فرضی قصے منسوب کردیے گئے ہیں۔ اور اگر کہیں مصنف یا فلمساز کی وطن پرستی میں ابال آیا تو مختلف مذاہب کے کرداروں کو ایک دوسرے کےمقابل اس طرح سے کھڑ ا کردیا ہے جیسے بی جے پی کے سامنے مجلس اتحادالمسلمین یا مسلم لیگ کھڑی کردی گئی ہو!
اسحاق باغبان کی کتاب
Me Against the Mumbai Underworldان کتابوں سے الگ ہے، بلکہ انوکھی ہے وہ اس لیے کہ یہ کتاب گڑھی ہوئی کہانیاں نہیں سناتی بلکہ انڈرورلڈ کا حقیقی چہرہ دکھاتی ہے۔وہ حقیقی چہرہ جس میں ‘گلیمر’سے کہیں زیادہ ‘تاریکی ‘ہے۔یہ ایک ریٹائرڈ پولیس افسر کی لکھی ہوئی کتاب ہے۔اسحاق باغبان ممبئی پولیس کے ان اعلیٰ افسران میں سے ایک تھے جنہو ں نے شہر ممبئی میں انڈرورلڈ کی کمر توڑنے میں بھی اور شہر کو جرائم سے پاک کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اے سی پی کے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے سے قبل موصوف اپنی بہادری کے لیے تین بارباوقار پولیس میڈل حاصل کرچکے تھے۔ ایک میڈل 26/11 کے دوران پاکستانی دہشت گردوں کو نریمن ہاؤس تک محدود کرنے اور علاقے سے تین سو سے چار سو کے درمیان افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچانے کےلیے تھا۔ مہاراشٹر کے ایک چھوٹے سے شہر سے ممبئی تک کے سفر او رپولیس کی ملازمت اور اس دوران طرح طرح کے اتار چڑھاؤ اور نمایاں کارناموں کے باوجود انتظامیہ کی طرف سے نظر انداز کیے جانے کے ذکر کے ساتھ اپنی یادوں کو اسحاق باغبان نے اسکتاب میں خوبی سے پیش کردیا ہے۔
یہ کتاب ممبئی انڈرولڈ کی تاریخ بھی ہے کیو ں کہ 1980-90کے دوران ممبئی انڈرورلڈ میں جہاں ایک جانب داؤد ابراہیم یا ڈی کمپنی کا طوطی بولتا تھا وہیں ارون گاؤلی اور امرنائک کے گروہ بھی سرگرم تھے۔ انڈرورلڈ کے دو بڑے کردار حاجی مستان مرزا اورکریم لالہ کا دبدبہ بھی قائم تھا اور عزیز دلیپ اور ان کے بیٹوں حمید اور مجید کے نام بھی لوگوں میں تھرتھری پیدا کرتے تھے۔ اورپٹھان گینگ میں صمد خان کی بربریت کے واقعات سے لوگوں کے رونگٹے بھی کھڑے ہوجاتے تھے۔ اور منیا سروے اور منیر شیخ الگ ممبئی والوں کے لیے سردرد بنے ہوئے تھے۔
اسحاق باغبان نے مہاراشٹر کے شہر بارہ متی سے، جو گھاگ سیاست داں شرد پوار کی کرم بھومی ہے، اپنی زندگی کی شروعات کی۔ 1974میں ممبئی پولیس میں بھرتی ہوئے اور2009 میں پولیس ملازمت میں 35 سال گزارنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے۔ اسحاق باغبان نے اپنی کتاب میں جہاں انڈرورلڈ سے تعلق رکھنے والے کرداروں کا تفصیلی ذکر کیا ہے وہیں سیاست دانوں، بشمول شرد پوار اوربال ٹھاکرے ، اور فلمی اداکاروں بشمول دلیپ کمار اورامیتابھ بچن کا بھی ذکر کیا ہے۔ اسحاق باغبان کی پہلی تعیناتی قلابہ پولیس اسٹیشن میں ہوئی تھی اور اسی پولیس اسٹیشن میں کام کرتے ہوئے انڈرورلڈ کے کئی بڑے چہرے ان کے سامنے آئے تھے۔ جن لوگوں نے انیل کپور اور مادھوری دکشت کی ہٹ فلم ‘تیزاب’دیکھی ہوگی انہیں فلم کا ایک کردار لوٹیا پٹھان ضرور یاد ہوگا جو ایک ڈانسر کو اٹھا لےجاتا ہے۔ لوٹیا پٹھان کا کردار کرن کمار نے ادا کیا تھا اور ڈانسر مادھوری دکشت تھیں۔
یہ دونوں ہی کردار حقیقی زندگی سے لیے گئے تھے۔ کریم لالہ کے بھتیجے صمد حان نے قلابہ پولیس اسٹیشن حلقے میں آنے والے ایک مشہور بار’سونیا محل’ سے ایک ڈانسر کو اغوا کیا تھا۔ باغبان اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں؛
ایک شب جب سب انسپکٹر راجہ تامبٹ، سب انسپکٹر اشوک دیسائی اور میں ڈیوٹی پر تھے، سونیا محل کا مالک ایک بوڑھے شخص کے ساتھ پولس اسٹیشن پہنچا ۔سر! یہ شریف آدمی ریٹائرڈ ریلوے افسر ہے، اس کی بیٹی سونیا محل کی ڈانسروں میں سے ایک ہے، آج کچھ لوگ آئے اور اسے اُٹھا لے گئے۔وہ کون لوگ تھے؟سر! وہ صمد خان اور انجم پہلوان تھے۔ ہم انہیں خوب جانتے تھے، صمد خان، کریم لالہ کا بھتیجہ تھا اور عورت بازی کے لیے بے حد بدنام ۔ ہم نے معاملہ درج کرکے پولیس انسپکٹر (کرائم) این جے مانک شاہ کو اطلا ع دی، انہوں نے فوراً کارروائی کا حکم دیا۔ اسی شب سب انسپکٹر تامبٹ اور سب انسپکٹر دیسائی نے خان کو اس کی رکھیل کے گھر سے دھر دبوچا۔ پولیس انسپکٹر مانک شاہ اور میں نے مرین ڈرائیو کے جیوتی سدن سے پہلوان کو پکڑلیا۔
اسحاق باغبان کے مطابق صمد خان نے ‘سونیا محل’ میں سب کے سامنے ڈانسر کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر ڈال لیا تھا۔ وہاں بیٹھے لوگوں کے ہوش اڑ گئے تھے۔
صمد خان کی موت ڈی کمپنی کے گرگوں کی فائرنگ میں ہوئی تھی۔ اسحاق باغبان نے داؤد ابراہیم اورپٹھان گینگ کے اختلافات اوران کے درمیان خون خرابے کو انتہائی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ عدالت کے اندر پیش آئے ایک واقعے کو بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں؛
عدالت پٹھان گروہ کے ممبران سے جن کی رہنمائی امیر زادہ کے والد نواب خان کررہے تھے کھچا کھچ بھری تھی ، ان کا پارٹنر مادھو بھائی مٹکے والا آگے بڑھا اور کہنے لگا ‘بھائی آج مخالف پارٹی بھی عدالت میں موجود ہے، اسی لیے ہم پوری طاقت کے ساتھ یہاں موجود ہیں۔ دوسرے منزلے پر داؤد کی سنگا پور اسمگلنگ معاملے کی شنوائی تھی۔ گینگ کے زیادہ تر ممبران عدالت میں موجود تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ امیر زادہ کے مقدمے کی پہلے منزلے پر شنوائی ہے تو نیچے اترآئے۔ جب ہم امیر زادہ کو کمرۂ عدالت میں لے جارہے تھے، تب داؤد راستے میں آگیا، اور بے طرح گالیاں دینے لگا۔ امیر زادہ نے کہا ‘میں پٹھان زادہ ہوں، سر برائے کرم میری ہتھکڑیاں کھول دیں، میں وعدہ کرتا ہوں کہ بھاگوں گا نہیں، میں بس اسے (داؤد کو) اس ہتھکڑی سے سبق سکھاناچاہتا ہوں۔ میں نے کہا ‘ان کے پاس ہتھیار ہیں‘۔ ‘سر میں ڈرتا نہیں، کسی کی جان صرف بندوق کی گولیوں سے نہیں جاتی‘۔ فضا کشیدہ ہوگئی، ہر طرف تناؤ تھا اور دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ مٹکے والا ، دائود اوراس کی گینگ کے سامنے اکڑ دکھا رہا تھا، داؤد نے اسے تھپڑ جڑ دیا اور دونوں ہی گینگ ایک دوسرے سے بھڑ گئیں۔
کتاب میں ممبئی انڈر ورلڈ کے دو انتہائی اہم واقعے بتائے گئے ہیں۔ ایک واقعہ کمرہ عدالت میں بڑا راجن کے قتل کا ہے۔ 30ستمبر 1983کو ممبئی کی ‘اسپلینڈر کورٹ‘ میں چندرا شیکھر سفالیگا نامی قاتل نیوی افسر کے لباس میں موجود تھا، اس نے قریب سے بڑا راجن پر گولیاں برسائیں، اس نے وہیں دم توڑ دیا۔ یہ قتل پٹھان گینگ کے امیر زادہ کے قتل کا بدلہ تھا۔ امیر زادہ کو بھی کمرۂ عدالت ہی میں ڈیوڈ پردیسی نامی قاتل کے ہاتھوں قتل کرایاگیا تھا۔ اسحاق باغبان تحریر کرتے ہیں؛
اس معاملے میں بڑا راجن کا نام پہلی بار سامنے آیا تھا۔ پردیسی نے تفتیش کے دوران یہ انکشاف کیا تھا کہ داؤد نے صابر کے قتل کا بدلہ لینے کےلیے بڑا راجن سے ہاتھ ملا لیا تھا اور اس سے امیر زادہ کے قتل کی منصوبہ بندی کےلیے کہا تھا۔ بڑا راجن نے اس کام کے لیے پردیسی کی خدمات حاصل کی تھیں۔ داؤد اس منصوبے کا دماغ تھا۔
کتاب میں ممبئی کی تاریخ کے پہلے پولیس مڈبھیڑ کی دلچسپ تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔اور ممبئی میں کسی گینگسٹر کو مڈبھیڑ میں مارنے کا پہلا کارنامہ کسی اورکا نہیں اسحاق باغبان ہی کا تھا۔ منیا سروے اپنے دورمیں ممبئی میں ایک ‘دہشت ‘ کا نام تھا۔ یہ لوگوں سے ‘ہفتہ وصولی’کرتا تھا اور’ہفتہ’نہ دینے والوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں اسے کوئی ہچک نہیں ہوتی تھی۔ منیا سروے اپنی گینگ کے ساتھ ہوٹلوں ، شراب کے اڈوں ، باروں او رمٹکوں کے اڈوں پر لوٹ ماربھی کیا کرتا تھا۔ وڈالا کے علاقے میں امبیڈکر کالج کے قریب منیا سروے کی موجود گی کی اطلاع پانے کے بعد جو پولیس ٹیم وہاں پہنچی تھی اس میں اسحاق باغبان شامل تھے۔ پولیس نے علاقے میں گھیرا ڈال دیا۔ جب منیا سروے پولیس کو نظر آیا تب اسحاق باغبان نے اسے للکارا۔ وہ تحریر کرتے ہیں:
حیران ، منیا پلٹا، اس کا توازن بگڑگیا تھا۔ موقع کا فائدہ اُٹھانے کےلیے اس نے اپنے موزے میں ہاتھ ڈالا جہاں اس کی ماؤزر (پستول)تھی او رمجھ پر فائر کردیا۔ بس گولیاں مجھے تقریباً چھوتے ہوئے گزر گئیں۔ اسی وقت بس اسٹاپ پر ایک بیسٹ بس رکی تھی، اس کاکنڈکٹر یہ دیکھنے کےلیے کہ کیا ہورہا ہے نیچے اترا تھا، وہ منیا کی اندھا دھند گولی باری سے زخمی ہوگیا۔ دریں اثنامیں نے درست نشانے کےلیے پوزیشن لی او رچھ فٹ کے فاصلے سے منیا پر گولی چلادی۔ گولی ہدف پر لگی ۔ میں چیخا’راجہ فائر کرو’اور سب انسپکٹر تامبٹ نے بھی منیا پر گولی چلادی۔
کتاب میں آگے منیا سروے کے جگری دوست اور خوفناک گینگسٹر منیر شیخ کے مڈبھیڑ کی بھی سنسنی خیز تفصیلات شامل ہیں۔کتاب میں کئی دلچسپ واقعات ہیں مثلاً فلمی ویلن شکتی کپور کے گھر میں چوری کی کوشش، امیتابھ بچن کو دھمکی ‘شکتی فلم کے پروڈیوسروں مشیر اور ریاض میں سے مشیر کا اغوا اور ہفتہ وصولی ، کرکٹ کے جعلی ٹکٹوں کا ریکٹ، منشیات فروش آغاخان سے ٹکراؤ، غرضیکہ یہ کتاب دلچسپ واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ کتاب میں سیاست دانوں کے بھی دلچسپ واقعات شامل ہیں بالخصوص این سی پی قائد شرد پوار اور شیوسینا پرمکھ بال ٹھاکرے کے۔ شیوسینکوں کے خلاف باغبان کی کارروائی کے بعد جب اس وقت کی شیوسینا کی ریاستی سرکار نے انہیں معطل کردیا تھا تب وہ بال ٹھاکرے سے ملے تھے اور ان سے ساری حقیقت بیان کی تھی۔ باغبان لکھتے ہیں؛
اپنے مخصوص انداز میں ، انہوں (بال ٹھاکرے) نے اپنے سکریٹری سے کہا ’راجے چیف منسٹر کو فون لگاؤ‘۔ شری بالا صاحب نے چیف منسٹر سے تفصیلی بات کی۔ ان کی وضاحت سے غیر مطمئن ، انہوں (بال ٹھاکرے) نے کہا’حکومت جائے بھاڑ میں ان لڑکوں (پولیس افسران) کی کیا غلطی ہے؟ انہیں کیوں معطل کیاجائے؟ جو ہوا سو ہوا، اب فوراً ہی یہ سب ختم ہوناچاہئے ۔ اور ہماری معطلی کے احکامات واپس لےلیے گئے۔
باغبان نے 26/11یعنی ممبئی حملوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ اس حملے میں عام لوگوں کی جانیں بچانے اور دہشت گردوں کو نریمن ہاؤس تک محدود رکھنے کےلیے اسحاق باغبان کو پولیس میڈل ملا تھا۔ وہ تحریر کرتے ہیں ؛
26 جنوری 2010 کو مجھے نریمن ہا ؤس آپریشن کےلیے گورنر شنکر نارائن کے ہاتھوں بہادری کا ایک ایوارڈ دیاگیا ۔ حالانکہ میں ریٹائرڈ ہوچکا تھا حکومت نے مجھے ایوارڈتقریبات کے موقع پر یونیفارم پہننے کی خصوصی اجازت دی۔ یہ تیسرا موقع تھا جب مجھے بہادری کا ایوارڈ ملا تھا۔ میں اپنے ملک او راپنے پیارے شہر ممبئی کی انتہائی دشوار حالات میں، دہشت گردوں سے بھڑ کر خدمات کرسکا، اس کےلیے شکرگزار ہوں، بھلے یہ موقع میرے کیرئیر کے آخری دنوں میں آیا۔ تمام ممبئکروں کی طرح میں اس باب کو کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔
یہ کتاب جہاں مدھوکر زینڈے جیسے کئی بے مثال پولیس افسروں کی خدمات کو سراہتی ہے وہیں کئی پولیس افسران کے چہروں سے نقاب ہلکے سے سرکاتی بھی ہے بھلے ہی پورا چہرہ نہ دکھاتی ہو، جو کرپٹ تھے اور جنہوں نے سروس میں دوسرے افسران سے جانبداری برتی تھی۔ ایک دلچسپ کتاب ہے اسے ضرور پڑھناچاہیے۔
(مضمون نگار ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر ہیں۔)