بک ریویو: یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ وآہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت، سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔
حیدرآباد ہمیشہ سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور اُردو ادب کی نشوو نما میں دکن کی مرکزی حیثیت سے کم و بیش ہر کوئی واقف ہے۔
نازیہ اختر کی کتاب
بی بی کا کمرہ (حیدرآبادی عورتیں اور بیسویں صدی کی اردو نثر)سرزمین حیدرآباد میں پیدا ہونے والی اوررہائش پذیر تین خاتون لکھاریوں– زینت ساجدہ، نجمہ نکہت اور جیلانی بانو کی زندگی اورادبی خدمات کا احاطہ کرتی ہے۔
کتاب کے عنوان سے بھی ظاہر ہے کہ ان لکھنے والیوں کا تعلق اردو زبان و ادب سے ہےاور عرصہ تحریر بیسویں صدی ہے۔
نازیہ اختر آئی آئی ٹی،حیدرآباد(تلنگانہ) میں ادب کی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ان کا یہ تحقیقی کام دی نیو انڈیا فاؤنڈیشن فیلوشپ کے زیر اہتمام انجام دیا گیا ہے۔جسےاورینٹ بلیک سوان نے شائع کیا ہے۔
تقریباً 400 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ہمیں حیدرآباد کے نظام شاہی دور کی روشن تاریخ کے ساتھ ساتھ بادشاہت اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کی نزاعی تصویریں دکھاتی ہے۔
یہ کتاب حیدرآبادی عورتوں کی اردو تحریروں کے تجزیہ و مطالعہ اور ترجمہ تک محدود نہیں ہے بلکہ متعلقہ دور کو بھی ان تمام تاریخی ،سماجی، سیاسی حقائق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے جواب ہمارےلیےقصہ پارینہ ہیں۔
ادب اور تاریخ کا رشتہ جتنا پرانا ہے اتنا ہی گہرا بھی ہے۔وہ سچ جو اکثر تاریخی کتابوں سے غائب ہوتا ہے اس کی جھلکیاں ادب میں نظرآتی ہیں۔اس ضمن میں ساجدہ، نکہت اور بانو کی تحریریں یہاں بریکٹ کی جا سکتی ہیں۔
ان خواتین کی تحریروں میں حیدرآباد کی تاریخ اور تہذیب کا رنگ نمایاں ہے ۔یہ کتاب،اس تہذیب میں سانس لیتی عورت کی زندگی،اس کے تجربات و محسوسات اور لسانی رنگ و آہنگ سب کو پیش کرتی ہے۔گویا حیدرآباد کی تاریخ، سیاست، تہذیب و ثقافت،سماجی صورتحال،لسانی اثرات، بالخصوص عورتوں کی زندگی یہاں متوجہ کرتی ہے۔
جانے کیوں عورت لکھاریوں کی تحریروں میں عورت کی مرکزی حیثیت بعض لوگوں کو گراں گزرتی ہے۔بہر کیف، بی بی کا کمرہ میں آپ کی ملاقات ایسے کرداروں سے ہوگی جو ہمارے سماج میں دوسرے درجے کی مخلوق مانی جاتی ہیں۔
مردان خانہ ، زنان خانہ والا دور بھلے ہی ختم ہو گیا ہو، لیکن اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں۔یہ عورتیں مختلف کلاس اور بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان میں اشرافیہ ، متوسط طبقہ ،غریب–مزدور طبقہ اور دلت سماج کے کردار بھی ہیں جو بنیادی سہولیات سے بھی محروم رکھے جاتے ہیں۔کئی معنوں میں انہی کے مسائل، ان کی زندگی اور ان کی کہانی سے ان خواتین مصنفین نے اپنا بیانیہ تشکیل دیا ہے۔
یوں تومیں ادب کو خانے میں بانٹنے کی قائل نہیں ہوں، لیکن جس طرح کسی سے اس کی شناخت چھین لینا جرم ہے اسی طرح اس کی شناخت کو بنیاد بنا کر دوجا سلوک کرنا بھی کسی گناہ سے کم نہیں ہےاور یہ صرف جنس کی تفریق تک محدود نہیں بلکہ کلاس، ذات، مذہب،سیکس،زبان،علاقہ جیسے تصورات میں کئی سطحوں پر موجودہے۔
یہ دنیا شمال جنوب،مرد عورت، ہندو مسلم جیسے کئی خانوں میں بنٹی ہوئی ہے۔جسے ان ادیبوں نے اپناموضوع بنایا ہے۔
‘حیدرآبادی عورتیں’ کی اصطلاح کی بات کریں تو نازیہ کے مطابق حیدرآبادی عورت سے ان کی مراد وہ عورتیں ہیں جن کی تحریروں میں حیدرآباد زندہ ہے، اپنے مخصوص کلچر کے ساتھ۔حیدرآبادی عورت کےاسی وسیع تناظر کو پیش نظر رکھتے ہوئے انھوں نے جیلانی بانو کو بھی حیدرآبادی عورتوں میں شامل کرکے اس کتاب کا شہری بنادیاہے۔حالاں کہ ان کی جائے پیدائش بدایوں (اترپردیش)ہے مگر بدایوں اور حیدرآباد دونوں جگہوں سےان کا گہرا تعلق ہے؛
Bano writes that it was because of their strong connection to both Badayun and Hyderabad that the family always felt an in-betweenness, for in Badayun, they were seen as ‘Hyderabadis’ and in Hyderabad, they were called ‘Hindustanis’. P:287
نازیہ کے کام کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے زینت ساجدہ، نجمہ نکہت اور جیلانی بانو کی تحریروں کا محض ترجمہ نہیں کیا بلکہ ان کی تحریروں میں موجود تاریخی شعور، تہذیب و ثقافت کے نشانات، پدری سماج کی حقیقت، عورتوں کے کردار، ان کی زندگی، مذہبی رسومات، سماجی، سیاسی، معاشی صورتحال ،طبقاتی کشمکش وغیرہ کو بھی اپنے بیانیہ کا حصہ بنایا ہے۔
ایک طرح سےان تحریروں کے ذریعے انھوں نے حیدرآباداور اس کے گردونواح کی کہانی کو کتابی صورت میں مرتب کیا ہے۔
کتاب ‘بی بی کے کمرے ‘میں زینت ساجدہ، نجمہ نکہت اور جیلانی بانو کے افسانے،انشائیے /طنزیہ و مزاحیہ مضامین کےترجمے موجود ہیں، جو اس طرح ہیں: جیلانی بانو کا افسانہ’میں اور میرا خدا’، نجمہ نکہت کا افسانہ ‘آخری حویلی’ اور زینت ساجدہ کا انشائیہ ‘اگر اللہ میاں عورت ہوتے’ وغیرہ۔
حالانکہ طنز و مزاح کے میدان میں خواتین کی تحریریں خال خال ہی نظر آتی ہے۔اس ضمن میں زینت ساجدہ کے مضامین ایک خوشگوار احساس سے دوچار کرتے ہیں۔
ساجدہ نےپدری سماج کے ڈسکورس کو اپنے مضامین میں پیش کیا ہے جہاں عورت کو ‘کم عقل ‘اور ‘نااہل’مان کر ان سے دوجا سلوک کیا جاتا ہے ،جبکہ المیہ یہ ہے کہ عورت اس قدر رشتوں اور ذمہ داریوں کی قید میں ہےکہ اسے ‘بی بی کا یہ کمرہ’ کم ہی نصیب ہوتا ہے جہاں وہ کچھ وقت اپنے ساتھ گزار سکے اور سکون سے لکھنے پڑھنے کا کام کر سکے۔بعض اوقات تو اس کی اپنی شناخت بھی انھیں رشتوں کی نذر ہو جاتی ہے۔
‘اگر اللہ میاں عورت ہوتے’،’ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور’،’اگر میں مرد ہوتی’ جیسے مضامین میں ساجدہ نے پدری ذہنیت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ بقول نازیہ؛
She rigorously and perceptively critiques patriarchal attitudes towards girls and women and their consequence.It marks a passionate intervention in exposing the specifics of how patriarchy first ensures that women are unable to perform to their fullest potential, and then criticises them for this perceived under performance, attributing it to incompetence or lack of ability. P: 118
کتاب میں ہر لکھنے والی کا مختصر زندگی نامہ بھی پیش کیا گیا ہے۔نازیہ نے ان کے تعارف کے ساتھ ان کی تحریروں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ذیلی عنوان قائم کرتے ہوئے نازیہ نے ان کی تحریروں میں موجود کردار، زبان اور ماحول کا مفصل جائزہ پیش کیا ہے۔نسائی زبان کے مخصوص بیانیہ کو بھی ‘بیگماتی زبان ‘کے تحت بریکٹ کیا ہے۔جو اکثر عورتیں آپس کی بات چیت میں استعمال کرتی ہیں۔
In the context of this book, Begumatizubaan emerges in all its vigour and keenness in Nikhat’s short stories on the lives of women in feudal ‘deodis’. (P:27, Bibi’s Room)
نکہت نے اپنے افسانوی مجموعے ‘
سیب کا درخت ‘میں لکھا ہےکہ’ میں ایک ایماندار ادیب کو یا تخلیق کار کو اپنے زمانے کا مؤرخ مانتی ہوں اور نئی نسل کی ذہنی تربیت کا ذمہ دار بھی۔’اپنی تحریروں کے ذریعے انھوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔
انھوں نے پدری ثقافت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے’ڈیوڑھی’میں عورت کی زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔ عورت کی بے بسی کا یہ بیانیہ آج بھی بامعنی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ اب وہ جاگیردارانہ نظام نہیں رہا۔
زبان پر ہونے والی سیاست ہمارے زمانے میں بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔اس طرح کئی معنوں میں اردو اور دکن کی سیاست بھی نازیہ کے تحقیقی بیانیہ کا حصہ ہیں۔سیاسی اقتدار میں زبان کے استعمال کی معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا،جس کی ایک مثال نوآبادیاتی بیانیہ بھی ہے۔
جس کے تحت انگریزوں نے ہندوستانی زبانوں پر انگریزی زبان کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی تھی،اور یورپ کی الماری کے ایک شیلف کو ہندوستان اور عرب کے تمام ترمقامی ا دب سے اعلیٰ قرار دیا تھا۔
ہر زبان اپنی مٹی سے ہم آہنگ ہوتی ہےاور کوئی بھی عمدہ تخلیق اپنی مٹی کی خوشبو سے یکسرخالی نہیں ہوتی۔اس کی مثال حیدرآباد کی ان لکھنے والیوں کی تحریروں میں وہ لفظ اور محاورے ہیں جو یہیں کی مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔
نازیہ لکھتی ہیں کہ حیدرآباد اردو کی ادبی تاریخ میں حاشیے پر ہے اور اگر حیدرآباد کا ذکر کہیں ہے بھی تو عورت کے ذکر سے خالی ہے۔اس اعتبار سے وہ حیدرآباد ی خاتون لکھاریوں (جنھوں نے اردو زبان میں لکھا)کے بارے میں لکھتی ہیں؛
In the case of Hyderabadi women writers who work in Urdu; they are thrice marginalised in the literary histories of Urdu, both in English and in Urdu
ان کی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ مین اسٹریم بیانیہ میں عورت اور اُردو دونوں حاشیے پر ہیں۔جس کو طشت از بام کرنے کی کوشش ان کی یہ کتاب ہے۔
نازیہ کی اس کتاب میں عورت،حیدرآباد ،اور اردو کومرکزی حیثیت حاصل ہے۔نازیہ نے حیدرآباد کی مخصوص شناخت کے آئینے میں ان ادبی تحریروں کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی ہےجو ایک عورت کے تجربات کا بیانیہ بھی کہے جا سکتے ہیں۔
دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے،برتنے والی یہ خواتین اپنے دور کی معروف اور فعال ہستیاں ہیں۔جوانجمن ترقی پسند مصنفین سے بھی منسلک تھیں اور ادبی محفلوں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیا کرتی تھیں۔
کتاب کے مطالعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مصنفہ نے بہت قریب سے تینوں ادیبوں کو جاننے کی کوشش کی ہے اور ان کی تحریروں کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔یوں انگریزی قارئین کے لیے ان کی ایک مکمل اور جامع تصویر پیش کی ہے۔
ان تینوں خاتون لکھاریوں کی تحریروں کو سمجھنے کے لیے ان کی زندگی کے نشیب و فرازکو بھی قلمبند کیا گیا ہے،اوران کے خاندان، رہن سہن کا خاکہ بھی اس کتاب میں نظرآتاہے۔
نازیہ نے ان خواتین کی اس اوڈیسی کو سمجھنے کی کوشش کی ہےجس نے ایک ایسے بیانیہ کو جنم دیا جس کی وجہ سے آج یہ کتاب اپنے معنوی حسن کو قاری پر منکشف کرتی ہے۔
ہم یہ جانتے ہیں کہ عورت کا تخلیقی سفر آسان نہیں ہوتا، اس کا ثبوت نہ صرف یہ کتاب ہے،بلکہ آپ کے اردگرد موجود وہ تمام خواتین ہیں جو ہر طرح کے نامساعد حالات کے باوجود قلم اٹھاتی ہیں۔ یادش بخیر کے طور پر عرض کرتی چلوں کہ اردو ادب کی روایت میں ایسی خواتین کا ایک طویل سلسلہ موجود ہے۔ ساجدہ،نکہت اور بانو اسی سلسلہ کی ایک کڑی محض ہیں۔
خواتین کا لکھنا پڑھنااور کہیں شائع ہونا جب معیوب سجھا جاتا تھا(آج بھی کچھ گھروں میں یہ رواج عام ہے)تب بھی عورتیں مردوں کے نام سےلکھ رہی تھیں۔تعلیم کی بات جائے تو لڑکیوں کو اس بنیادی حق سے بھی محروم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ آج بھی یہ کوشش جاری ہے۔اس کے باوجود عورت نے کبھی ہار نہیں مانی۔
نازیہ کی یہ کتاب ان ٹیبوز کو طشت از بام کرتی ہے جو عورت سے متعلق تشکیل دیے گئے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ ہمارے یہاں عورت کے لکھے کو ‘نسائی ادب’ کے زمرے میں رکھ کر ‘اہمیت ‘دینے کا رواج بھی عام رہا ہے۔
نازیہ کی یہ کتاب ایک طرف اس بات کا اشارہ ہے کہ عورت کی لکھت کی پڑھنت اب عورت کر رہی ہے۔تو دوسری طرف خواتین قلمکاروں پر سامنے آنے والا کام اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ادب میں بھی عورت کو دوجا سمجھنے کی بے ادبی دھڑلے سے کی گئی ہے۔خواتین مصنفین پر ملنے والی اسکالرشپ پر نازیہ لکھتی ہیں؛
While meaningful strides have been made in some areas of publishing, scholarship on women writers still remains woefully inadequate.P:4
بی بی کا کمرہ (حیدرآبادی عورتیں اور بیسویں صدی کی اردو نثر)کتاب جب میرے پاس آئی تو میں اس’اتفاق’ کو نظر انداز نہیں کر پائی کہ یہ کتاب عورتوں کے بارے میں ہے ،جسے ایک عورت نے قلمبند کیا ہے اور اس پر تبصرے کے لیے بھی ایک عورت سے رابطہ کیا گیا ہے۔ نہیں جانتی کہ اسے اتفاق ہی کہنا چاہیے یا کچھ اور؟
خیر،یہ کتاب ان عورتوں کا بیانیہ ہے جہاں آپ کو ان کے تجربات کی بھٹی میں جلی بھنی کہانیاں بھی ملیں گی اور طنز و مزاح کے پیرایے میں سماج کی تلخ حقیقتوں سے بھی آپ دوچار ہوں گے۔بقول نازیہ؛
Women and their gendered experiences in a patriarchal society form one of the most consistent themes in Bano’s oeuvre over the sixty years that she has been writing. P:332
کتاب ‘بی بی کا کمرہ’ اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لیے نازیہ کا تحفہ ہے جو ان کی سالوں کی محنت کا ثمرہ ہے۔
حیدرآباد ی سماج، کلچر اور یہاں کی سیاست کو بریکٹ کرتی یہ کتاب ان ادیبوں کے بارے میں نہیں ہے جنہیں گمنام کہیں بلکہ ان کا شمار مشہور زمانہ ادیبوں میں ہوتا ہے۔
جیلانی بانو نیشنل، انٹرنیشنل ایوارڈ یافتہ ادیب ہیں جنھوں نے حیدرآباد کے سیاسی ڈسکورس کو بھی موضوع بنایا ہے۔ طنز و مزاح کے میدان میں زینت ساجدہ بھی اپنے زمانے میں کافی مشہور رہی ہیں اور نجمہ نکہت کی کہانیاں بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کی جا چکی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اکثر ادیبوں کی تحریریں وقت کی گرد میں دھندلا جاتی ہیں۔ اور عورت تویوں بھی’دوجی’ ہے۔دوجی عورت کا ⸺گمشدہ بیانیہ ⸺وقت کی گرد میں گم گیا توکون سی بڑی بات ہے؟ان معنوں میں نازیہ کی یہ کتاب ایک اچھی کوشش کہی جا سکتی ہے۔