یہ پہلی ایسی کتاب ہے جو حکیم احسن اللہ خاں پر لگائے گئے الزامات کا پوری معروضیت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے اور الزام تراشی کے مسلسل عمل پر فل اسٹاپ لگاتی ہے۔
ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی (1857)کے بیانیہ نے، جسے نوآبادیاتی مؤرخوں (Colonial Historians)اور والہانہ جذبۂ حب الوطنی سے سرشار ہندوستانی مصنفوں نے مرتب کیا، بعض مفروضات اور قیاسات کو اس شد و مد کے ساتھ پیش کیا ہے کہ انہیں مسلمہ صداقت کے طور پر قبول عام حاصل ہو گیا ہے۔ واقعات کی جرح و تعدیل، دستاویزی ثبوت کی چھان پھٹک اور عینی گواہوں کے بیان کردہ واقعات اور اس عہد کے اہم ادیبوں اور شاعروں کی تحریروں سے براہ راست استنباط سے بے اعتنائی، تقلید پر انحصار اور حقائق کی نئی تعبیر سے چشم پوشی نے نہ صرف بیانیہ کی تاریخی صداقت پر سوالیہ نشان قائم کیے بلکہ بعض سرکردہ عالموں، دانشوروں اور ادیبوں کی شبیہ کو بری طرح مسخ کردیا ہے اور انہیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مسلسل معتوب کیا جاتا رہا ہے۔
اس نوع کی شخصیات میں سب سے اہم نام حکیم احسن اللہ خاں کا ہے جو نہ صرف مغلیہ سلطنت کے آخری وزیر اعظم تھے بلکہ وہ طب، تصوف اور دیگر علوم پر ماہرانہ دسترس بھی رکھتے تھے اور ان کی ایما پر غالب کو خاندان تیموری کی تاریخ نویسی پر مامور کیا گیا تھا۔ مرزا غالب نے مہر نیم روز کے عنوان سے پہلا حصہ مرتب کیا اور غالب نے اسی کتاب میں حکیم احسن اللہ کے بارے میں لکھا ہے ‘مبارک وزیر کار آگاہ، ستودہ مذہب اور گرامیِ رازداں، خوش اخلاق،ضمیر کے اعتبار سے لوحِ محفوظ کی مثال اور گراں مایہ ہونے میں عقل اول کا ہم سر، کیواں جیسا بلند خیال، مشتری جیسی عقل و دانش والا، برجیس ہوش، عطارد جیسی طاقت کا مالک، ارسطو مرتبہ افلاطون کی سی عقل والا،احترام الدولہ، معتمد الملک، حاذق الزماں، عمد ۃ الحکماء حکیم احسن اللہ خاں ثابت جنگ’۔
غالب جس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اسے پہلی جنگ آزادی کے دوران منافقانہ کردار ادا کرنے والوں یا انگریزوں کے مفادات کی ہر سطح پر پاسداری کرنے والوں میں سرفہرست رکھا جاتا ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں کے بارے میں بدگمانیوں اور غلط فہمیوں نے ایک مصدقہ حقیقت کے طور پر اعتبار حاصل کر لیا ہے اور انہیں عام طور پر1857 کا ویلن سمجھا جاتا ہے۔ ممتاز محقق، ماہر غالبیات اور فن طب میں امتیازی شان رکھنے والے مشہور ادیب حکیم ظل الرحمان نے اس بیانیہ کو اپنی محققانہ ژرف نگاہی کا ہدف بنایا اور اس عہد کے اہم تاریخی ماخذوں اور معاصر شہادتوں کا براہ راست مطالعہ کرکے 1857 میں حکیم احسن اللہ خاں کے کردار کا پوری معروضیت اور تحقیقی دیانت داری سے مطالعہ کیا اور ان کی ہشت پہل شخصیت اورقابل قدر اکتباسات کو محیط ایک گرانقدر مونوگراف کی صورت میں پیش کیا جسے ابن سینا اکادمی، علی گڑھ نے ’’حکیم احسن اللہ خاں ‘‘ کے عنوان سے حال ہی میں شائع کیا۔
یہ کتاب کسی معروف شخصیت کا رسمی تحسینی بیانیہ نہیں ہے بلکہ یہ کتاب تحقیقی دقت نظری کے نئے باب وا کرتی ہے اور حکیم احسن اللہ خاں کو ایک نئے تاریخی تناظر میں پیش کرتی ہے جہاں حکیم صاحب مغلیہ سلطنت کے سچے بہی خواہ اور انگریزوں کے مخالف کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ پہلی ایسی کتاب ہے جو حکیم صاحب پر لگائے گئے الزامات کا پوری معروضیت کے ساتھ جائزہ لیتی ہے اور الزام تراشی کے مسلسل عمل پر فل اسٹاپ لگاتی ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں یقیناً 1857ء کا سب سے اہم المیہ کردار ہے اور مقام مسرت ہے کہ حکیم ظل الرحمان صاحب اس جانب متوجہ ہوئے۔ انہوں نے اس سلسلے میں لکھا ؛
میں نے 1857 کی جنگ آزادی میں حکیم صاحب کے کردار کو اپنا موضوع بنایا اور اس سلسلہ کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ حکیم صاحب کے ساتھ بڑی زیادتی کی گئی ہے اور ان کی شخصیت کو کسی تحقیق کے بغیر رسوا کیا گیا۔ غالب، خواجہ حسن نظامی، غلام رسول مہرکی کتابوں کے علاوہ ادھر جیون لال کا جو روزنامچہ، غداروں کے جو خطوط اور1857 کے اخبارات اور دستاویزات کی جو نقل شائع ہوئی ہیں اور جو نیا مواد سامنے آیا ہے، اس کی روشنی میں حکیم صاحب پر لگائے گئے الزامات بے اصل ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے مطالعہ سے محض ان کی بے گناہی نہیں بلکہ ان کا انگریز مخالف رویہ بھی سامنے آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی موقع پر انہوں نے انگریزوں کا ساتھ نہیں دیا ہے۔ وہ جس منصب پر فائز تھے، اس منصب کے تقاضے کے مطابق انہوں نے جو۱قدامات کیے اور آخر تک وفاداری کا حق ادا کرتے ہوئے کوئی ایسا عمل اختیار نہیں کیا جو ملک و قوم کے لیے ضرر رساں اور بادشاہ کی مرضی کے خلاف ہو۔ ان کی ساری کوششیں بادشاہ کے احکامات اور مشوروں کی تابع رہیں۔
مصنف نے اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں مستند تاریخی شواہد پیش کیے ہیں اور حکیم احسان اللہ خاں سے متعلق الزامات کو روایتی انداز میں دہرانے کی روش کی بے مائیگی کو خاطر نشان کیا ہے۔ حکیم احسن اللہ خاں پر سب سے سنگین الزام حویلی ثمرو بیگم (چوڑی والان، دہلی)میں انقلابیوں کے بارود خانہ میں آتش زنی کا ہے۔ اس دھماکہ میں 500 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ حکیم صاحب اس بارود خانہ کا معائنہ کرنے گئے تھے۔ افواہ اڑائی گئی کہ حکیم صاحب نے اس میں آگ لگوا دی۔ اس کے نتیجے میں حکیم صاحب کا گھر لوٹا گیا اور جلایا گیا۔ حکیم ظل الرحمان نے اس واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے معاصر شہادتوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس واقعہ کے ضمنمیں غالب نے دستنبو میں لکھا ہے؛
ایک شخص نے جس کے دماغ میں فرماں روائی و تکبر کے خیالات بھرے ہوئے تھے، درپردہ اپنے آقا اور مربی کا دشمن بن گیا۔ اس خیال سے کہ اگر وہ واقف کار اور رازداں زندہ رہے گا تو میں نے جو خزانہ (ناجائز طریقوں سے )جمع کیا ہے اس کا راز کھل جائے گا، ہمیشہ نقصان پہنچانے کی تدبیریں سوچتا تھا اور یہ بات مشہور کرکے کہ حکیم احسن اللہ خاں انگریزوں کے خیر خواہ اور طرفدار ہیں، فوج کے افسروں کو ان کی طرف سے بھڑکاتا رہتا تھا۔
حکیم ظل الرحمان نے انگریزوں کے بعض مخبروں کی رپورٹیں بھی نقل کی ہیں۔ اس ضمن میں گوری شنکر کے خفیہ خط کی یہ عبارت من و عن درج کی ہے؛
7تاریخ کو بارود کی فیکٹری میں جو دھماکہ ہوا اس میں تقریباً ۵۰۰ افراد ہلاک ہوئے۔ یہ دھماکہ کسی حادثہ کی وجہ سے ہوا تھا، حکیم احسن اللہ خاں کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اس سلسلے میں جیون لال اور دیگر مخبروں کے بیانات بھی درج کیے گئے ہیں اوراگر حکیم احسن اللہ خاں صاحب کے انگریزی حکام کے ساتھ گہرے مراسم ہوتے یا وہ ان کی ایما پر کام کر رہے ہوتے تو بقول سید ظل الرحمان صاحب، اگر اس میں حکیم صاحب کا ذرا بھی ہاتھ ہوتا تو ان کی کارگزاری اور خیر خواہی کے طور پر ضرور اسے ان کی جانب منسوب کرتے۔ حکیم ظل الرحمان نے اس واقعہ سے متعلق دہلی اردو اخبار، صادق الاخبار اور غدر کے فرامین بھی نقل کیے ہیں جس سے حکیم صاحب کی بے گناہی پاےۂ ثبوت کو پہنچتی ہے۔ حکیم ظل الرحمان صاحب نے جیون لال کے حوالے سے لکھا ہے کہ حکیم صاحب کی اس معاملہ سے بے تعلقی ثابت ہونے کے بعد باغی خود اپنے اتہام پر شرمندہ ہوئے مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ1857 کے مؤرخوں نے حکیم صاحب سے متعلق ان بین شہادتوں سے صرف نظر کیا۔حکیم ظل الرحمان کا اس امر پر متعجب ہونا بالکل بجاہے۔ حکیم صاحب رقم طراز ہیں؛
اب اس کو کیا کیا جائے کہ ان سب کے باوجود نہ صرف اسلم پرویز (سوانح نگار حکیم احسن اللہ خان)بلکہ مولانا آزاد اور اس موضوع پر لکھنے والے بعض دوسرے حضرات نے معاصر شہادتوں اور بعد کے دوسرے ثبوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی تحقیق کے بغیر بہت آسانی سے حکیم صاحب کو اس سلسلے میں مہتم قرار دیا ہے اور ان کے خلاف بدگمانی کو بے اصل نہیں کہا ہے۔
ممتاز ناقد اورفکشن نگار شمس الرحمان فاروقی نے اپنے مشہور ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ میں انگریز ریزیڈنٹ ولیم فریزر اور حکیم احسن اللہ خاں کی ملاقات اور حکیم صاحب کی صداقت شعاری اور عزت نفس کی پاسداری کا ایک کثیر حسی بیانیہ خلق کیا ہے۔ یہ عبارت سید ظل الرحمان صاحب نے نقل کی ہے۔ شمس الرحمان فاروقی کا بیانیہ مستند تاریخی حوالوں سے مرتب اور متشکل ہوتا ہے۔ اس کا ایک مختصر التباس قارئین کے لیے عین دلچسپی کا باعث ہوگا ؛
ولیم فریزر نے حکیم صاحب کو نواب شمس الدین احمد تک ذاتی پیغام رسانی کے لیے استعمال کرنا چاہا (ولیم فریزر چھوٹی خانم پر عاشق تھے اور چاہتے تھے کہ نواب شمس اس کا خیال دل سے نکال دیں۔ ولیم فریزرکو بعد میں قتل کر دیا گیا اور نواب شمس الدین کو اس کا سزاوار ٹھہرایا گیا) ۔
فریزر نے ذرا بلند آواز میں کہا ’’حکیم صاحب، ہم ہر چیز کی خبر رکھتے ہیں۔ دلی میں کیا ہے جو ہم پر آئینہ نہیں۔ ہم جس کام کے لیے آپ کو پسند کیا ہے اس کے لیے آپ موزوں ترین شخص ہیں‘‘۔ ’’بہتر ہے، میں مقدور بھر کوشش کروں گا، کوتاہی ہرگز نہ کروں گا۔آپ شمس الدین کو آگاہ کردیں کہ چھوٹی خانم کسی اور کی نظر پر چڑھ چکی ہے، بس وہ اس کا خیال چھوڑ دیں۔ آپ انہیں صاف صاف بتا دیں کہ یہ میرا پیغام ہے اور آپ کو بے واسطہ غیر مجھ سے ملا ہے۔
اس اعتماد کے لیے میں صاحب کلاں بہادر کا ممنون ہوں لیکن نہ تو میرا شمس الدین احمد پر کوئی داب یا اثر ہے اور نہ یہ میرا منصب ہے کہ میں ان کے پاس آپ کا پیغام لے جاؤں۔
کیوں، منصب کیوں نہیں؟فریزر نے سرکہ جبیں ہو کر کہا۔ ’’کیا آپ سرکار کمپنی کے وفادار نہیں ہیں؟
خطا معاف، لیکن میں نہیں گمان کرتا کہ اس معاملے کا کوئی ربط وفاداری سرکار کمپنی سے ہے‘‘۔ حکیم صاحب نے تیوری پر بل لاکر جواب دیا، ’’اور بالفرض اگر ہو بھی تو میں نمک خوار بادشاہ کا ہوں، نمک خوار کمپنی نہیں‘‘۔
’’اور تمہارا بادشاہ کمپنی بہادر کا نمک خوار ہے عمدۃ الملک حکیم احسن اللہ خاں۔اپنا اپنا خیال ہے نواب ریزیڈنٹ بہادر‘‘، حکیم صاحب کا لہجہ اور بھی خشک ہو گیا۔’’ظل الٰہی اور ان کے اسلاف کو تخت دہلی پر حکمرانی کرتے ہوئے دوسو سے زیادہ برس ہو گئے۔
ہم نے آپ کو یہاں تاریخ کا درس دینے نہیں طلب کیا ہے حکیم صاحب۔
جی ہاں اور نہ نسخہ عرق گاوزباں کے لیے۔ اور یہی دو کام میں جانتا ہوں۔ مجھے رنج ہے کہ میں آپ کے لیے ناکارہ ثابت ہوا۔
حکیم صاحب کے اس تیور سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ ان پر انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرنے کا الزام بہتان تراشی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔زیر مطالعہ کتاب میں سید ظل الرحمان صاحب نے نہ صرف حکیم احسن اللہ خاں کی داغدار سیاسی شبیہ کے جالوں کو صاف کرنے کی سعی مشکور کی ہے بلکہ حکیم صاحب کے علمی و ادبی اکتباسات، تصنیف و تالیف اور طبی حذاقت کو گہرے تنقیدی شعور اور تحقیقی بصیرت کے ساتھ واضح کیا ہے۔
یہ کتاب نہ صرف علمی تحقیق کے نئے امکانات ہویدا کرتی ہے بلکہ1857 کے واقعات کا ایک مستند رویا خلق کرتی ہے۔ مقدمات کی تدوین اور نتائج کے استنباط میں معروضیت کی پاسداری نے کتاب کی وقعت کو دوچند کردیا ہے۔ حکیم سید ظل الرحمان صاحب کی اس تصنیف کی پذیرائی اردو تنقید اور تحقیق کے ناخن پر قرض ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
The post ورق در ورق: حکیم احسن اللہ خاں کی داغدار سیاسی شبیہ کے جالوں کو صاف کرتی کتاب appeared first on The Wire - Urdu.