بامبے لائرز ایسوسی ایشن نے عدالت عظمیٰ میں دائر اپنی درخواست میں کہا ہےکہ نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ اور مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے آئین میں ‘عدم اعتماد’ کا اظہار کرتے ہوئےاس کے ادارے یعنی سپریم کورٹ پر حملہ کرکے آئینی عہدوں کے لیے اپنے آپ کو نااہل ثابت کر دیا ہے۔
نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ، سپریم کورٹ اور کرن رجیجو۔ تصویر: پی آئی بی/پی ٹی آئی/فیس بک
نئی دہلی: عدلیہ اور ججوں کی تقرری کے لیے کالجیم سسٹم کےحوالے سے نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ اور مرکزی وزیر قانون کرن رجیجوکی طرف سےمسلسل بیان بازی کے سلسلے میں ان کے خلاف کارروائی کی مانگ کرنے والی عرضی کو بامبے ہائی کورٹ کی جانب سےخارج کیے جانے کے بعد ممبئی میں وکیلوں کی ایک انجمن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
بامبے لائرز ایسوسی ایشن نے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی اس عرضی میں کہا ہےکہ دونوں سیاست دانوں نے آئین میں’عدم اعتماد’ کا اظہار کرتے ہوئے اس کے ادارے یعنی سپریم کورٹ پر حملہ کرکے اور اس کے ذریعے طے شدہ قانون کے تئیں بے ادبی کرتے ہوئے آئینی عہدوں کے لیے خود کو ‘نااہل’ ثابت کیا ہے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ عرضی کن بیانات کا حوالہ دے رہی ہے،
کرن رجیجو نے بار بار کالجیم سسٹم کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دریں اثنا، نائب صدر
جگدیپ دھن کھڑ نے تاریخی کیسوانند بھارتی (1973) کے فیصلے پر سوال اٹھایاتھا،جس نے بنیادی ڈھانچے کے اصول کو قائم کیا تھا۔
بامبے ہائی کورٹ نے 9 فروری کو بامبے لائرز ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر پی آئی ایل کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کی ساکھ ‘آسمان کو چھو رہی ہے’ اور اسے ‘افراد کے بیانات سے مجروح یا متاثر نہیں کیا جا سکتا’۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ‘منصفانہ تنقید’جائز ہے اور نائب صدر اور وزیر قانون کو ایسوسی ایشن کے تجویز کردہ طریقے سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔
عرضی میں آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت کارروائی کی استدعا کی گئی ہے، جو ہائی کورٹ کو حکومت سمیت کسی بھی شخص یا اتھارٹی کو ہدایات، احکامات اور رٹ جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
عرضی میں دھن کھڑ کو نائب صدر اور رجیجو کو مرکزی کابینہ کے وزیر کے طور پر اپنے فرائض ادا کرنے سے روکنے کا حکم دینے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔
وکیلوں کی انجمن کا دعویٰ ہے کہ قانون کے مطابق اسٹیٹسکو کو تبدیل کرنے کے لیےآئینی منصوبے کے تحت کسی بھی سہارےکے بنا دونوں نے انتہائی تضحیک آمیز زبان میں سپریم کورٹ پر ‘سامنے سے حملہ’ کیا۔
ایسوسی ایشن نے ان پر ‘مجرمانہ توہین’ کا الزام لگاتے ہوئےدعویٰ کیا کہ،’آئینی عہدوں پر فائز افراد کی طرف سے اس طرح کا غیر مہذب رویہ عوام کی نظروں میں سپریم کورٹ کے وقار کو کم کر رہا ہے اور ان کے اندر عدم اطمینان کو ہوا دے رہا ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ ججوں کی تقرری کا کالجیم نظام کچھ عرصے سے مرکز اور عدلیہ کے درمیان تعطل کا شکار ہے، جہاں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو کئی بار کالجیم نظام پر تبصرے کر چکے ہیں۔
اسی مہینے میں
کرن رجیجو نے ایک پروگرام کے دوران کہا تھا کہ ‘تین یا چار’ ریٹائرڈ جج ‘ہندوستان مخالف’ گروہ کا حصہ ہیں۔ یہ بھی کہا کہ جس نے بھی ملک کے خلاف کام کیا ہے اسے قیمت چکانی پڑے گی۔
دسمبر 2022 میں ختم ہونے والے پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس کے دوران رجیجوسپریم کورٹ سے ضمانت کی درخواستوں اور ‘بد نیتی پر مبنی’ مفاد عامہ کی درخواستوں کی سماعت نہ کرنے کے بارے میں
کہہ چکے ہیں، جس کے بعد انہوں نے عدالتوں کی
چھٹیوں پر تبصرہ کرنے کے ساتھ کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو ججوں کی تقرری سےجوڑتے ہوئے کالجیم کی جگہ نیا نظام لانے کی بات کو
دہرایا تھا۔
اس سے پہلے بھی
کرن رجیجو عدلیہ، سپریم کورٹ اور کالجیم نظام کو لے کر
تنقیدی بیان دیتے رہے ہیں۔
رجیجو کے علاوہ نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ بھی پچھلے کچھ عرصے سے سپریم کورٹ کی تنقید کر رہے ہیں۔ 7 دسمبر 2022 کو نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین
جگدیپ دھن کھڑ نے اپنے پہلے پارلیامانی خطاب میں نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سےمسترد کیے جانے پر عدالت کو نشانہ بنایا تھا۔
دھن کھڑ نے اس قانون کی منسوخی کے لیے 11 جنوری کو بھی
عدلیہ کو نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیامانی قانون کو کالعدم قرار دینا جمہوری عمل نہیں تھا۔ یہ بھی کہا کہ وہ سپریم کورٹ کی طرف سے لگائی گئی اس پابندی سے اتفاق نہیں کرتے کہ پارلیامنٹ آئین کے ‘بنیادی ڈھانچے’ میں ترمیم نہیں کر سکتی ہے۔
اس سے پہلے 2 دسمبر 2022 کو
دھن کھڑ نے کہا تھا کہ وہ ‘حیران’ تھے کہ سپریم کورٹ کی جانب سےاین جے اے سی ایکٹ کو مسترد کرنے کے بعد پارلیامنٹ میں کوئی بحث نہیں ہوئی۔ اس سے پہلے انہوں نے یوم دستور (26 نومبر 2022) کے موقع پر منعقد ایک پروگرام میں بھی ایسے ہی ریمارکس دیے تھے۔
اسی جنوری کے آغاز میں انہوں نے ایک بار پھر عدلیہ پر حملہ کیا اور 1973 کے
کیسوانند بھارتی کے فیصلے کو ‘غلط روایت’ قرار دیا تھا۔
آئینی اداروں کے اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے نائب صدر جمہوریہ نے کہا تھا، ‘کیا آئین میں ترمیم کرنے کا پارلیامنٹ کا اختیار کسی دوسرے ادارے پر منحصر ہو سکتا ہے۔ کیا ہندوستان کے آئین میں کوئی نیا ‘تھیٹر’ (ادارہ) ہے، جو یہ کہے کہ پارلیامنٹ کا نافذ کردہ قانون صرف اس صورت میں قانون ہوگا جب ہم اس پر اپنی مہر لگائیں گے۔ 1973 میں ایک بہت ہی غلط روایت ڈالی گئی، 1973 میں کیسوانند بھارتی کیس میں سپریم کورٹ نے بنیادی ڈھانچے کا خیال پیش کیا کہ پارلیامنٹ آئین میں ترمیم کر سکتی ہے، لیکن بنیادی ڈھانچے میں نہیں۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔