تین مذہبی چیریٹبل ٹرسٹ اور ممبئی کے ایک جین شخص نے اپنی عرضی میں میں نان ویجیٹیرین اشیاء کے اشتہارات پر پابندی لگانے کے لیے رہنما خطوط وضع کرنے کی مانگ کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بچوں اوراہل خانہ کو ایسے اشتہارات دیکھنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے اس عرضی کو خارج کر دیا۔
نئی دہلی : بامبے ہائی کورٹ نےسوموارکے روز تین جین مذہبی چیرٹیبل ٹرسٹوں اور شہر کے ایک جین عقیدت مند سے سوال کیا کہ وہ ‘پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا’ میں گوشت اور گوشت کی مصنوعات کے اشتہارات پر پابندی لگانے کی اپیل کر کے دوسروں کے حقوق کیوں سلب کرناچاہتے ہیں۔
چیف جسٹس دیپانکر دتا اور جسٹس مادھو جمعدار کی ڈویژن بنچ نے اس بات کا ذکر کیا کہ یہ مسئلہ مقننہ کے دائرہ کار میں آتا ہے اور وہ (عدالت) پابندی عائد کرنے کے لیے قانون/اصول نہیں بنا سکتی۔
قابل ذکر ہے کہ تین مذہبی چیرٹیبل ٹرسٹوں اور ممبئی کے ایک جین شخص نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے بچوں اور اہل خانہ کو اس طرح کے اشتہارات دیکھنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔
عرضی گزاروں نے دلیل دی ہے کہ یہ ان کے پرامن طریقے سے جینے کے ان کے حق کی خلاف ورزی ہے اور یہ ان کے بچوں کے ذہن پر اثر انداز ہو رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، پی آئی ایل میں ریاستی حکومت اور اس کے محکمہ خوراک، شہری رسدات اور امور صارفین، مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات، پریس کونسل آف انڈیا، ایڈورٹائزنگ اسٹینڈرڈس کونسل آف انڈیا سے راحت مانگی گئی تھی۔
اس کے علاوہ، عرضی گزاروں نے لشیس، فریسٹوہوم فوڈس اور مٹیگو کو مدعا علیہ بنایاتھا۔
پٹیشن میں متعلقہ اتھارٹی کو میڈیا میں نان ویجیٹیرین فوڈ آئٹم کے اشتہارات پر پابندی لگانے کے لیے گائیڈ لائن تیار کرنے اور جاری کرنے کی ہدایت دینے کی مانگ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ و نہ صرف ان لوگوں پریشان کرتے ہیں جو سبزی خور ہیں ، بلکہ ان کے پرائیویسی کے حق کی بھی خلاف ورزی کرتے ہیں۔
اس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھاکہ آئین کا آرٹیکل 51اے(جی) ذی روحوں کے ساتھ ہمدردی کو بنیادی فرائض میں سے ایک قرار دیتا ہے اور یہ اشتہارات ان کے ساتھ سفاکی کو فروغ دیتے ہیں۔
عرضی گزاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ حکومت پہلے ہی شراب اور سگریٹ پر پابندی لگا چکی ہے اور شراب اور سگریٹ کی طرح نان ویجیٹیرین کھانا بھی صحت کے لیے نقصاندہ ہے اور ماحولیات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
عرضی گزاروں کا کہنا تھا کہ وہ نان ویجیٹیرین کھانے کی فروخت اور استعمال کے خلاف نہیں ہیں، لیکن ان کی شکایت صرف ایسی اشیاء کے اشتہارات کے خلاف ہے۔
سوموار کو درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے عرضی پر سوال اٹھایا۔
چیف جسٹس دتا نے کہا کہ آپ (عرضی گزار) کیوں دوسروں کے حقوق سلب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے آئین کی تمہید پڑھی ہے؟ اس میں کچھ وعدے کیے گئے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 19 کی خلاف ورزی کے بارے میں کیاکہیں گے؟
بنچ نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اس کے پاس عرضی پر حکم جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
بنچ نے کہا، یہاں اسے دیکھنے کے دو طریقے ہیں، ایک عام آدمی کہے گا کہ ٹی وی بند کر دو۔ لیکن ہم اسے قانون کے نقطہ نظر سے دیکھیں گے۔آپ جو مانگ رہے ہیں اسے قانون کے ذریعے حل کرنا ہوگا، لیکن یہاں ایسا کوئی قانون نہیں ہے، اس لیے آپ ہمیں قانون بنانے کو کہہ رہے ہیں۔
عدالت نے کہا، آپ ہائی کورٹ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ریاستی حکومت کے لیے کسی بھی چیز پر پابندی لگانے کے لیے قواعد، قوانین یا رہنما خطوط وضع کرے۔یہ قانون سازی کا عمل ہے۔ یہ مقننہ کو فیصلہ کرنا ہے… ہمیں نہیں۔
عدالت نے ذکرکیا کہ جب ایسے اشتہارات سامنے آئیں لوگوں کو ٹیلی ویژن بند کرنے کا آپشن دستیاب ہےاور عدالت کو قانون کے معاملے پر غور کرنا ہے۔
اس کے بعد، عرضی گزاروں نے دیگر ہائی کورٹس کے متعلقہ احکامات کی کاپی حوالے کرنے کے لیے درخواست میں ترمیم کرنے کی اجازت مانگی۔ بنچ نے ہدایت دی کہ عرضی گزار درخواست واپس لیں اور نئی درخواست دائر کریں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)