تین اور چار اپریل کی رات تقریباً 1 بجے ‘بولتا ہندوستان’ کی ٹیم کو ایک ای میل میں بتایا گیا کہ حکومت کی ہدایت پر ان کا چینل بلاک کر دیا گیا ہے۔ جب ٹیم کی جانب سے پوچھا گیا تو جواب دیا گیا کہ یہ کارروائی کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کی وجہ سے کی گئی ہے۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
چار اپریل کو ڈیجیٹل پورٹل ‘بولتا ہندوستان’ کے یوٹیوب چینل کو بلاک کر دیا گیا، جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ حکومت آمرانہ فیصلے لے رہی ہے۔ حکومت متبادل میڈیا کو خاموش کروانا چاہتی ہے۔ جو صحافی سوال پوچھتے ہیں، کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، تنقید کرتے ہیں، تحریکوں کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، ان کی بولتی بند کروانا چاہ رہی ہے۔
کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہوں گے کہ ایسا تو نہیں کہ چینل کو تکنیکی وجوہات کی بنا پر بلاک کیا گیا ہے اور اسے بے وجہ سیاسی طور پرطول دیا جا رہا ہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی مواد پر اعتراض درج کیا گیا ہو اور بے وجہ وکٹم کارڈ کھیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے!
کب اور کیا ہوا؟
تین اور چار اپریل کی درمیانی شب تقریباً 1 بجے ‘بولتا ہندوستان’ کی ٹیم کو ایک ای میل موصول ہوتا ہے کہ حکومت کی ہدایت پر آپ کا چینل بلاک کر دیا گیا ہے اور پھر چند گھنٹے بعد دن میں چینل کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ ‘بولتا ہندوستان’ سرچ کرنے پر تقریباً 3 لاکھ سبسکرائبرز والا چینل یوٹیوب پر نظر نہیں آتا ہے۔
گوگل لیگل سپورٹ کی طرف سے آئے ای میل میں کہا گیا ہے کہ ‘وزارت اطلاعات و نشریات کی ہدایات پر کارروائی کی جا رہی ہے’، آپ کے چینل کو یوٹیوب سے ہٹا دیا گیا ہے۔ دوسرے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ 2000 اور 2021 میں نافذ نشریاتی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اس لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ تیسرے پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ اسے خفیہ رکھنے کی ہدایات دی گئی ہے، اس لیے ہم یہ نوٹس آپ کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتے۔ چوتھے پیراگراف میں اس کارروائی کےقانونی جواز کے حوالے سے وزارت اطلاعات و نشریات سے بات کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اس کے ساتھ وزارت کی جانب سے ایک ای میل بھی لکھا ہوا ہے۔
اس یکطرفہ فیصلے سے حیران ’بولتا ہندوستان‘ کی ٹیم ایک طرف یوٹیوب سے فیڈ بیک سیکشن میں رابطہ کرتی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اپنی بات رکھتی ہے۔ چند گھنٹوں کے اندر،
ہیش ٹیک ری اسٹور بولتا ہندوستان وائی ٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر نمبر ون ٹرینڈ ہونے لگتا ہے۔ اس ہیش ٹیگ سے ہزاروں پوسٹس کی جاتی ہیں اور لاکھوں لوگ حکومت سے سوال کرنے لگتے ہیں۔
ادھر ایکس پلیٹ فارم پر یوٹیوب انڈیا کا جواب آتا ہے، دوسری طرف فیڈ بیک میں تقریباً وہی جواب آتا ہے کہ ہم نے آپ کا چینل بلاک کر دیا ہے کیونکہ یہ کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کر رہا تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یوٹیوب کی کونسی کمیونٹی گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کی جا رہی تھی یا یہ فیصلہ صرف حکومتی ہدایات کو احکامات مانتے ہوئے کیا گیا ہے۔
یوٹیوب کی طرف سے ‘بولتا ہندوستان’ ٹیم کو بھیجا گیا ای میل۔
حکومت اور یوٹیوب سے سوال
سوال یہ اٹھتے ہیں کہ کس ویڈیو پر کیا اعتراض ہے، کس ویڈیو میں کیا غلطی ہوئی ہے، ہمیں یہ سب بتانے اور اپنا موقف پیش کرنے کا موقع کیوں نہیں دیا گیا؟ ایک آن میں یکطرفہ فیصلہ کیوں کیا گیا؟ مناسب طریقہ کار پر عمل کیوں نہیں کیا گیا؟
یہ سوال حکومت کے ساتھ ساتھ یوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے بھی بنتے ہیں، خاص طور پر جب گوگل خود دنیا بھر میں غیر جانبداری کی بات کرتا ہے اور جمہوریت کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے جج تمام ٹی وی چینلوں کے نام لیتےہیں، ان کے اینکر اور ڈیبیٹ پروگرام کا نام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوگ معاشرے میں نفرت پھیلا رہے ہیں اور تعصب پیدا کر رہے ہیں، اس لیے ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ اس کے باوجود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور یوٹیوب بھی ایسے چینلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا۔
اس ملک میں دنگے کا ماحول بنانے والے، ہندو-مسلمان پر بحث کر کے نفرت پھیلانے والے، آئے دن چین پاکستان کے نام پر جنگ کو بھڑکانے والے ٹی وی چینلوں کی کرتوت حکومت کو خطرناک نہیں لگتی ہے، بھلے ہی سپریم کورٹ کو اس پر اعتراض ہے۔جبکہ ‘بولتا ہندوستان’ جیسے متبادل میڈیا کے یوٹیوب چینل کو بند کروا دیا جاتا ہے، انہیں اپنی بات رکھنے کا موقع تک نہیں دیا جاتا ہے۔
نہ صرف عام لوگ بلکہ اپوزیشن جماعتوں کے لوگ بھی حکومت کے امتیازی اقدامات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی پالیسیوں کے خلاف تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ کانگریس نے الیکشن کمیشن کے سامنے یہ مسئلہ اہمیت کے ساتھ اٹھایا ہے کہ ‘بولتا ہندوستان’ کا یوٹیوب چینل کیوں بند کر دیا گیا ہے۔
اس نے ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ کیا ضابطہ اخلاق کے نفاذ کے بعد حکومت کو ایسے فیصلے لینے کا حق ہے؟ یا الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا کہ کیا نشر ہونا چاہیے اور کیا نہیں نشر نہیں ہونا چاہیے؟
یا یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ملک میں لوک سبھا کے عام انتخابات ہو رہے ہیں؟
اب ہم ‘میٹا’ سے بھی تحریری جواب طلب کریں گے تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ چند ماہ قبل ہمارا انسٹاگرام اکاؤنٹ کیوں بند کیا گیا۔ اگر حکومت نے انہیں کوئی ہدایت دی ہے یا کوئی یکطرفہ حکم دیا ہے تو ہمارے ساتھ شیئر کریں۔
(ثمر راج بولتا ہندوستان کے ایڈیٹر اور بانی رکن ہیں۔)