دی ہندو کے سابق ایڈیٹراین رام نے مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کو سوشل میڈیا پر بلاک کرنے کے حوالے سے کہا کہ انہوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ اسے ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب/ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی بہت کم آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
کرن تھاپر اور این رام (تصویر: دی وائر)
نئی دہلی: ملک کے سرکردہ صحافیوں میں سے ایک اوردی ہندو کے سابق ایڈیٹر این رام نے کہا کہ نریندر مودی حکومت کی جانب سے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسپچن’ کو یوٹیوب اور ٹوئٹر پر بلاک کرنے کی کوششیں نہ صرف ناقابل قبول سینسرشپ کی طرح ہیں بلکہ انتہائی قابل مذمت بھی ہیں۔
رام نے کہا کہ حکومت ‘بوکھلا’ گئی ہے اور اس نے خود ہی مصیبت مول لی ہے۔ انہوں نے کہا ، اگر کوئی ذی فہم سرکار ہوتی تو وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتی یا اس سے بس اختلاف رائے کا اظہار کر دیتی۔
دی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ 26 منٹ کے ایک انٹرویو میں رام سے سب سے پہلے بی بی سی کی ڈاکیومنٹری کے بارے میں ان کی رائے پوچھی گئی ، جس کے جواب میں انہوں نے کہا ، ‘یہ احتیاط کے ساتھ، کڑی محنت سے کی گئی تحقیق اور خوش اسلوبی سے پیش کی گئی تحقیقاتی صحافت کا نمونہ ہے۔
رام نے کہا کہ ڈاکیومنٹری ‘ہر اصول پر عمل پیرا ہے۔’ انہوں نے بتایاکہ بی بی سی کی ڈاکیومنٹری نے حکومت کو ‘رد عمل کا حق’ دیا تھا ، لیکن حکومت نے انکار کردیا۔
بات چیت کے دوران رام نےڈاکیومنٹری کو نشانہ بنانے والے– پہلے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی اور پھر ان نامعلوم سینئر عہدیداروں کے بارے میں بات کی ، جن کی طرف سے لکھا گیا خط متعدد اخبارات اور میڈیا میں آیا تھا۔
باگچی ، جنہوں نے ڈاکیومنٹری کو دیکھے بغیراسے ‘پروپیگنڈا’ کہا اور ‘تعصب اور غیرجانبداری کے فقدان ‘ کا الزام لگایا ، کے بارے میں رام نے کہا کہ انہوں نے اپنا ‘مذاق ‘ بنا لیا ہے۔ رام نے کہا کہ ظاہری طور پر ان کے اس رخ کے لیے حکومت کی طرف سے ان پر دباؤ ڈالا گیا ہے۔
دستاویزی فلم کے حوالے سے باگچی کے ‘نوآبادیاتی ذہنیت’ والے دعوے پر رام نے کہا کہ ان کا یہ تبصرہ فہم سے بالاتر ہے۔
اتوار کو متعدد اخبارات میں نامعلوم عہدیداروں کا تبصرہ کہ یہ ڈاکیومنٹری ‘سپریم کورٹ کے اختیاراور ساکھ پر حملہ کرنے کی کوشش’ہے ، اس کے بارے میں رام نے کہا کہ سچائی اس سے ‘بہت دور’ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکیومنٹری میں ، ‘سپریم کورٹ پر کوئی حملہ نہیں کیا گیا ہے۔’ رام نے کہا کہ حقیقت میں ڈاکیومنٹری میں ہی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے مودی کو بری کرنے والی ایس آئی ٹی رپورٹ کوقبول کیا ہے اور اس حقیقت کو چھپایا نہیں ہے۔تاہم ، رام نے یہ بھی کہا کہ ‘یہاں تک کہ اگر وہ (بی بی سی) ایسا کرتے بھی ہیں تو سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔’
ڈاکیومنٹری کے ملک کی خودمختاریت اور سالمیت کو متاثر کرنے کےدعووں سے انکار کرتے ہوئے رام نے کہا کہ اس ڈاکیومنٹری سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
رام سے یوٹیوب اور ٹوئٹر پرڈاکیومنٹری کو ‘قومی سلامتی یا عوامی نظام کے لیے خطرہ’ بتانے کی بنیاد پر بلاک کرنے کے حکومت کے فیصلے کے بارے میں پوچھا گیا ، جس کےجواب میں رام نے کہا کہ یہ ‘نہ صرف ناقابل قبول سینسرشپ ہے بلکہ یہ انتہا ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ‘بوکھلاگئی’ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایسا کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ہندوستان کا قومی سلامتی اور عوامی نظام اتنا نازک ہے کہ انہیں ایک ایسی ڈاکیومنٹری سے خطرہ ہے جو ملک میں نشر بھی نہیں ہوئی ہےاور یوٹیوب اور ٹوئٹر تک رسائی رکھنے والی صرف ایک چھوٹی سی آبادی نے اس کو دیکھا ہے۔
رام نے یہ بھی کہا کہ سینسرشپ کا یہ اقدام مودی حکومت کےاس فخریہ دعوے کی ہوا نکال دیتا ہے کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اس سے ہندوستان کی بین الاقوامی شبیہہ کو نقصان پہنچے گا۔
یہ پوری بات چیت ذیل میں دیے گئے لنک پر دیکھی جاسکتی ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)