بلقیس کیس: مجرموں کی سزا معافی کی کمیٹی میں تھے بی جے پی ایم ایل اے اور گودھرا کیس کے گواہ

بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی کمیٹی کے چار ارکان بی جے پی سے وابستہ تھے، جن میں دو ایم ایل اے کے علاوہ سابق کونسلر اور گودھرا کیس کے گواہ مرلی مول چندانی شامل ہیں۔ اس کیس میں ان کی گواہی کو عدالت نے جھوٹا قرار دیا تھا۔

بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے قتل کے 11 قصورواروں کی سزا کو معاف کرنے والی کمیٹی کے چار ارکان بی جے پی سے وابستہ تھے، جن میں دو ایم ایل اے کے علاوہ سابق کونسلر اور گودھرا کیس کے گواہ مرلی مول چندانی شامل ہیں۔ اس کیس میں ان کی گواہی کو عدالت نے جھوٹا قرار دیا تھا۔

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ایم ایل اے اس کمیٹی کا حصہ تھے جس نے 2002 کے فسادات میں بلقیس بانو کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے والے11 مجرموں کو رہا کرنے کی سفارش کی تھی۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق، بی جے پی کے ایم ایل اے سی کے راؤل جی اور سمن چوہان گودھرا کلکٹر اور ضلع مجسٹریٹ سوجل مائترا کی سربراہی والی اس کمیٹی کا حصہ تھے، جس نے ان مجرموں کو سزا میں چھوٹ کی سفارش کرنے کے لیے ‘اتفاق رائے سے فیصلہ’ لیا تھا۔

کمیٹی کے دو دیگر ارکان بھی بی جے پی سے وابستہ ہیں۔ اخبار کے مطابق، وہ سماجی کارکن اور بی جے پی گودھرا میونسپل کارپوریشن کے سابق کونسلر مرلی مول چندانی اور بی جے پی کی خواتین ونگ کی کارکن اسنیہا بین بھاٹیہ ہیں۔

مول چندانی کو گودھرا ٹرین آتشزدگی کیس،جس میں ایودھیا سے لوٹ رہے59 کار سیوکوں کوزندہ جلا دیا گیا تھا، کے معاملے میں استغاثہ نے چشم دیدگواہ کے طور پر پیش کیا تھا۔

ایک نجی میڈیا آؤٹ لیٹ کے ذریعے کیے گئے اسٹنگ آپریشن میں مول چندانی کو دو دیگر عینی شاہدین نتن پاٹھک اور رنجیت جودھا پٹیل کے ساتھ مبینہ طور پر ایسے بیان دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا، جو ان کی اصل گواہی کے برعکس تھے۔

تاہم اس معاملے کو دیکھنے والی خصوصی فاسٹ ٹریک عدالت نے اسے قبول نہیں کیا تھا۔ یہاں جج نے – واضح تضادات کی بنیاد پر – خود یہ نتیجہ اخذ کیا تھاکہ مول چندانی اور دیگر نام نہاد گواہوں کو ‘سچاگواہ’ نہیں کہا جا سکتا  ہےاور ‘اس عدالت کے پاس ان کے شواہد کو یکسر مسترد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ کمیٹی میں ڈسٹرکٹ سوشل ویلفیئر آفیسر، ایک سیشن جج اور جیل سپرنٹنڈنٹ بھی شامل تھے۔

گجرات حکومت کی جانب سے اس کمیٹی کی سفارش کو قبول کرنے کے بعدان 11 مجرموں کو رہا کر دیا گیا اور وشو ہندو پریشد اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔

کمیٹی کے ایک رکن نے دی ہندو کو بتایا،ہم نے محسوس کیا کہ مجرموں نے پہلے ہی کافی کچھ بھگت لیا ہے اس لیے انہیں قبل از وقت رہا کر دینا چاہیے۔

تاہم کمیٹی کے رکن نے اخبار کو یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے کتنی میٹنگ کی اور فیصلے پر پہنچتے وقت کن پہلوؤں پر غور کیا گیا۔

گودھرا کے ایم ایل اے راؤل جی نے اخبار کو بتایا کہ کمیٹی نے ‘ضابطے پر عمل کیا اور اصولوں کے مطابق کام کیا۔

دریں اثناء ایک میڈیا ادارے سے بات کرتے ہوئے راؤل جی نے کہا کہ جیل میں مجرموں کا رویہ اچھا تھا۔ وہ کہتے ہیں، یہ تو معلوم نہیں کہ جرم کیا تھا یا نہیں، لیکن ان کے خاندان کا برتاؤ اچھا تھا۔ ویسے بھی وہ برہمن تھے، ان کے سنسکار بہت اچھے ہوتے  ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک کمیونٹی کے لوگ دوسری کمیونٹی کے لوگوں کو پھنسادیتے ہیں۔

کمیٹی میں شامل بی جے پی کی دوسری  رکن سمن چوہان گودھرا ضلع کے کلول سے پہلی بارایم ایل اے بنی ہیں۔

اس سے قبل بدھ کو اپنے وکیل کے ذریعے جاری ایک بیان میں بلقیس نے گجرات حکومت سے اس فیصلہ کو واپس لینے کی اپیل کی ہے۔

بلقیس بانو نے کہا ہے کہ اس کیس میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی وجہ سے انصاف پر سے ان کا اعتماد ٹوٹ  گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، میں نے اس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت پر بھروسہ کیا۔ میں نے سسٹم پر بھروسہ کیا اور میں آہستہ آہستہ اپنے صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی۔ مجرموں کی رہائی نے میرا چین وسکون چھین لیا ہے اور عدالتی نظام سے میرا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، میرا دکھ اور متزلزل اعتماد صرف میرے لیے نہیں، بلکہ ان تمام خواتین کے لیے ہے جو آج انصاف کے لیے عدالتوں میں لڑ رہی ہیں۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔