سپریم کورٹ سے بلقیس بانو کیس میں11 مجرموں کی سزا کی معافی کو رد کرنے کی اپیل کرتے ہوئے سماجی کارکنوں سمیت ان دستخط کنندگان نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے سے ہر اس ریپ متاثرہ کے حوصلے پست ہوں گے اور ان پر اثر پڑے گا جس کو انصاف کے نظام پر بھروسہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔
نئی دہلی: خواتین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے سماجی کارکنوں سمیت 6000 سے زائد شہریوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ 2002 کے بلقیس بانو کیس میں ریپ اور قتل کے لیے مجرم قرار دیے گئے11 افراد کی سزا کو معاف کرنے کے فیصلے کو رد کرنے کی ہدایت دی جائے۔
ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے 21 جنوری 2008 کو ان 11 افراد کوریپ اوربلقیس بانو کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان 11 لوگوں کی سزا کو بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔
سال 2002 میں جب بلقیس کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا، تو وہ اس وقت 21 سال کی تھیں اور پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی۔
ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 2022 کی صبح اپنے یوم آزادی کے خطاب میں ہندوستان کے وزیر اعظم نے خواتین کے حقوق، وقار اور ‘ناری شکتی’ کی بات کی۔ اسی دوپہر،انصاف کے لیےصبرآزما جد وجہدکرنے والی’ناری شکتی’ کی مثال بلقیس بانوکو پتہ چلا کہ اس کے خاندان، اس کی تین سالہ بیٹی کو قتل کرنے والے، اس کے ساتھ گینگ ریپ کرنے والے اور اسے مرنے کے لیے چھوڑ دینے والے مجرام آزاد ہو گئے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ، گینگ ریپ اور قتل کے ان 11 مجرم کی سزا کی معافی سے ہر اس ریپ متاثرہ کے حوصلے پست ہوں گے اور ان پر اثر پڑے گا جس کوانصاف کے نظام پر بھروسہ کرنے، انصاف کا مطالبہ کر نے اوربھروسہ رکھنےکو کہا جاتا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ، سب سے اہم بات یہ ہے کہ مرکزی تفتیشی بیورو کے ذریعے تحقیقات اور مقدمہ چلانے والے معاملے میں مرکز کی منظوری کے بغیر ریاست کی طرف سے کوئی چھوٹ نہیں دی جا سکتی ہے۔ اگر مرکز کی طرف سے اس طرح کی رعایت پر غور کیا گیا، اس کی اجازت دی گئی، تو یہ ناری شکتی، بیٹی بچاؤ، خواتین کے حقوق اور متاثرین کے لیے انصاف کے ڈھونگ کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کرتا ہے… اس لیے، یہ بیان سپریم کورٹ سے اپیل کرتا ہے کہ انصاف کے ساتھ ہوئے اس گمبھیر کھلواڑ کو واپس لیا جائے۔
بیان جاری کرنے والوں میں سیدہ حمید، ظفر الاسلام خان، روپ ریکھا، دیوکی جین، اوما چکرورتی، سبھاشنی علی، کویتا کرشنن، میمونہ ملا، حسینہ خان، رچنا مدرابائینہ، شبنم ہاشمی اور دیگر شامل ہیں۔
شہری حقوق کی تنظیموں میں سہیلی ویمن ریسورس سینٹر، گمن مہیلا گروپ، بے باک کلیکٹو، آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن، اتراکھنڈ مہیلا منچ اور دیگر تنظیمیں شامل ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ انصاف کے نظام میں خواتین کے بھروسے کو بحال کیا جائے۔ ہم ان 11 مجرموں کی سزا کو معاف کرنے کے فیصلے کو فوری طور پر واپس لینے اور انہیں عمر قید کی سزا پوری کرنے کے لیے جیل بھیجنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ معافی کا فیصلہ فوراً واپس لیا جائے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ قتل اورریپ کے ان مجرموں کی سزا کی تکمیل سے قبل رہائی سے ان تمام مردوں کے ذہنوں میں (سزا پانے کا) خوف کم ہو جائے گا جو خواتین کے خلاف مظالم کا ارتکاب کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ دی وائر نے ایک مضمون میں اطلاع دی ہے کہ اس سال جون میں مرکزی وزارت داخلہ نے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ریاستوں کو ہدایات جاری کی تھیں۔ یہ رہنما خطوط ہندوستان کی آزادی کے 75ویں سال کے لیے تیار کی گئی ایک خصوصی پالیسی کے تحت جاری کیے گئے تھے۔
رہنما خطوط کے مطابق، قیدیوں کو 15 اگست 2022، 26 جنوری 2023 (یوم جمہوریہ) اور 15 اگست 2023 کو خصوصی چھوٹ دی جانی تھی۔ تاہم رہنما خطوط میں واضح کیا تھاگیا کہ عمر قید کی سزا پانے والے اورریپ کے مجرموں کو قبل از وقت رہائی کا حق نہیں ملے گا۔
ایسے میں اس فیصلے کے بعد کئی ماہرین نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کو رہا کرنے میں مرکزی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی ہے؟
سماجی کارکنوں سمیت 6000 لوگوں کے مکمل بیانات اور دستخط کرنے والوں کے نام نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
Bilkis Bano Statement by The Wire
سماجی کارکنوں سمیت 6000 لوگوں کے دستخط کرنے والوں کے نام نیچے دیے گئے لنک پر ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔