گجرات حکومت کی معافی کی پالیسی کےتحت بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کےاہل خانہ کےقتل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کو قبل از وقت رہا کر دیا گیا ہے۔ اس کیس میں کلیدی گواہ رہے ایک شخص نے الزام لگایا ہے کہ رہا ہوئےایک مجرم نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دی ہے۔
15 اگست کو مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان کا خیرمقدم کیا گیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: بلقیس بانو کیس کے کلیدی گواہ امتیاز گھانچی (45) نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حال ہی میں ایک مجرم رادھے شیام شاہ نے دھمکی دی ہے۔
دی کوئنٹ کی رپورٹ کے مطابق، امتیاز نے ملک کے چیف جسٹس یو یو للت کو خط لکھ کر اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دی کوئنٹ کے مطابق، گھانچی نے 15 ستمبر کو شاہ کے ساتھ اپنی اچانک ملاقات کو یاد کرتے ہوئے کہا، انہوں نے (شاہ) مجھے یہ کہتے ہوئے دھمکی دی کہ ہم تم لوگوں کو پیٹ پیٹ کر گاؤں سے نکال دیں گے۔
رادھے شیام شاہ 2002 کے گودھرا فسادات کے دوران بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے افراد بشمول ان کی تین سالہ بیٹی کےقتل معاملے میں مجرم ٹھہرائے گئے 11 افراد میں سے ایک ہیں، جنہیں 15 اگست کو گجرات حکومت کی سزا معافی کے بعد قبل از وقت رہا کیا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ مجرموں کی رہائی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، جس نے اس ماہ کے شروع میں گجرات حکومت کو مجرموں کی رہائی سے متعلق ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
پندرہ ستمبر کے واقعے کو یاد کرتے ہوئے گھانچی نے دی کوئنٹ کو بتایا کہ رادھےشیام نے اسے پپلود ریلوے پھاٹک پر اس وقت دیکھا جب وہ سنگوڑ گاؤں سے دیوگڑھ بڑیا اپنے گھر جا رہے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ ڈر گئے تھے، لیکن وہ حیران نہیں ہوئے کیونکہ انہیں اس صورت حال کا اندازہ اس وقت سے تھا، جب سے گیارہ مجرموں کو رہا کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا،میں موٹر سائیکل پر تھا اور ٹرین کے گزرنے کا انتظار کر رہا تھا، جب رادھے شیام شاہ نے مجھے دیکھا اور اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔ میں اس کے قریب جانے سے ڈررہا تھا لیکن چلا گیا۔ پھر اس نے مجھے دھمکی دی کہ اب ہم نکل آئے ہیں۔ تم لوگوں کو مار مار کے گاؤں سے نکال دیں گے۔
بتادیں کہ 2002 کے فسادات کے فوراً بعد گھانچی اپنے خاندان کے ساتھ اپنے آبائی گاؤں سنگوڑ (رندھیک پور) میں اپنا گھر چھوڑ کر دیوگڑھ بڑیا میں ایک ریلیف کالونی میں چلے گئے تھے اور تب سے وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ وہیں رہ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا،2002 میں فسادات کے بعد میں نے گاؤں (رندھیک پور) جانا چھوڑ دیا تھا۔ کبھی واپس جانے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن میں ایک دیہاڑی مزدور ہوں، کام کی تلاش میں گاؤں جانا پڑتا ہے۔
گزشتہ 19 ستمبر کوسی جے آئی کو لکھے اپنے خط میں گھانچی نے بتایا ہے کہ رادھے شیام شاہ جو ااپنے ڈرائیور کے ساتھ ان کی کار میں بیٹھے تھے، نے انہیں دھمکی دی اور جب وہ وہاں سےجا رہے تھے، تو ان پر ہنسے۔ اس کے بعد سے گھانچی نے سی جے آئی سمیت کئی عہدیداروں کو خط لکھے ہیں۔ انہوں نے سی جے آئی کو لکھے خط کی ایک کاپی گجرات کے ہوم سکریٹری اور ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی بھیجی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ان کی جان کو خطرہ ہے۔
معاملے میں ممبئی سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران گھانچی نے بتایا تھا کہ گودھرا ٹرین آتشزدگی کے واقعے کے اگلے دن انہوں نے ایک ملزم (اب فوت شدہ) نریش مودھیا کوہاتھ میں رامپوری چاقو پکڑے ہوئے دیکھا تھا۔
انہوں نے عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے ایک اور ملزم پردیپ مودھیا کو بھی رندھیک پور میں اپنے گھر کے قریب پتھراؤ کرتے اور نعرے لگاتے دیکھاتھا۔
غورطلب ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔
تین مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔
بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت کرناہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا
حکم دیا تھا۔