چھتیس گڑھ کے بیجاپور ڈویژن کے کورچولی گاؤں کی رہنے والی سنیتا پوٹم کو بیجاپور پولیس نے 3 جون کو رائے پور سے گرفتار کیا تھا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پولیس انہیں بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑی میں لے گئی تھی۔
ممبئی: رائے پور میں 3 جون کو قبائلی کارکن سنیتا پوٹم روزانہ کے معمولات میں مصروف تھیں کہ ان کے گھر بیجاپور پولیس آ دھمکی ۔ پولیس زبردستی گھر میں داخل ہوئی، پہلے تو پوٹم کے یہاں موجود دو کارکنوں کو کمرے میں بند کیا، پھر 25 سالہ پوٹم کو اپنے ساتھ لے گئی۔
گرفتاری کے بعد پوٹم کو بیجاپور میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا اور بعد میں جگدل پور سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔
چھتیس گڑھ کے بیجاپور ڈویژن کے گاؤں کورچولی کی رہنے والی سنیتا پوٹم میٹرک کی پڑھائی کے لیے رائے پور میں رہتی ہیں۔ اپنے علاقے کے دیگر طالبعلموں کی طرح پوٹم کو بھی کئی سال قبل اس وقت اچانک اسکول چھوڑنا پڑگیا تھا، جب ان کے اسکول کو سلوا جڈوم کیمپ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
پولیس نے پوٹم کی گرفتاری کے بارے میں کچھ بھی واضح نہیں کیا ہے، لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے پانچ مقدمات کا حوالہ دیا ہے – چار مرتر میں درج ہے اور ایک بیجاپور کوتوالی میں۔ تاہم، پولیس نے ابھی تک یو اے پی اے کے تحت حراست کی مانگ نہیں کی ہے۔
پولیس نے دعویٰ کیا کہ سنیتا پوٹم کے خلاف 12 مقدمات زیر التوا ہیں، لیکن ان کی تفصیلات پوٹم یا ان وکیلوں کو نہیں دی گئی ہیں جو ان کی رہائی کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پولیس کی گاڑی پر نہیں تھا نمبر پلیٹ
چھتیس گڑھ میں دیہی قبائلیوں اور کارکنوں کی گرفتاری بہت عام سا واقعہ ہے۔ یہ گرفتاریاں قانونی ضابطے کے تحت شاذ و نادر ہی کی جاتی ہیں۔ پوٹم کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ 17 سال کی عمر میں پوٹم نے بیجاپور ضلع کے کڈینار، پالنار، کورچولی اور اینڈری گاؤں میں چھ لوگوں کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
جیسے ہی بیجاپور پولیس پوٹم کے ساتھ گھر سے باہر نکلی، پیپلز یونین فار سول لبرٹیز (پی یو سی ایل) کی ان کی ساتھی شریا کھیمانی موقع پر پہنچ گئیں۔ کھیمانی نے کہا کہ ان کے بار بار پوچھنے کے باوجود پولیس نے پوٹم کی گرفتاری کی وجہ بتانے سے انکار کر دیا۔
کھیمانی نے کہا، ‘ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ گریما دادر کاغذات کا ایک بڑا پلندہ لے کر آئی تھیں۔ جب ان سے وارنٹ یا نوٹس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کاغذات کی جانب اشارہ کر دیا۔’ کھیمانی کا کہنا ہے کہ جب پوٹم کو لے جایا جا رہا تھا تو انہوں نے غور کیا کہ پولیس کی گاڑی میں نمبر پلیٹ نہیں تھا۔
پوٹم 2015 سے پی یو سی ایل کے ساتھ ساتھ ویمن اگینسٹ سیکسوئل وایلنس اینڈ رپریشن کی رکن بھی رہی ہیں۔
پولیس پوٹم کو ‘مفرور ملزم’ قرار دے رہی ہے، جبکہ بہت سے کارکنوں نے پولیس کے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ چھتیس گڑھ کے دوروں کے دوران ان سے ملتے رہے ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے جب پوٹم پولیس کی نظر میں آئی ہوں ۔
پوٹم کی گرفتاری کے خلاف احتجاج
انسانی حقوق کے وکیل چھتج دوبے نے پوٹم کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ مارچ 2021 میں، جنگل کے حقوق اور قیدیوں کے لیے کام کرنے والی کارکن ہڑمے مرکام کو پولیس نے تقریباً اسی انداز میں دنتے واڑہ کے سمیلی گاؤں سے عالمی یوم خواتین کےموقع پر منعقد کیے گئے ایک عوامی پروگرام کے دوران حراست میں لے لیا تھا۔ ہڑمے کو دہشت گردی اور قتل کے کئی مقدمات میں ملزم کے طور پر بھی دکھایا گیا تھا۔ بالآخر انہیں تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔
دوبے نے کہا، ‘ہڑمےتو پھر بھی خوش قسمت رہیں کہ وہ دو سال میں ہی جیل سے باہر آگئیں۔ کچھ معاملات میں، ہمیں ان [غلط طریقے سے پھنسائے گئے کارکنوں] کی بے گناہی ثابت کرنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔’
ایسا مانا جا رہا کہ پوٹم کے علاوہ بیجاپور پولیس مول نواسی بچاؤ منچ کے دیگر نوجوان کارکنوں کی تلاش کر رہی ہے۔ مول نواسی بچاؤ منچ ایک تنظیم ہے جو بستر کے قبائلیوں کی طرف سے بنائی گئی ہے، اور جو حکومت کے جبر اور بستر کے دیہاتوں میں جبری طور پر بنائے جا رہے سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے کیمپ کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہے۔
گرفتاری کے چند دنوں بعد پوٹم کی ماں اور چھوٹا بھائی کورچولی گاؤں سے چل کر اس سے ملنے جگدل پور چلے گئے۔ قبائلی کارکن سونی سوری نے بتایا کہ یہ سفر بہت مشکل تھا۔ وہ کہتی ہیں،’ان کی ماں کے پیر میں گہرا زخم تھا۔ پھر بھی وہ 20 کلومیٹر سے زیادہ پیدل چلیں، ایک رات سڑک پر گزاری، ٹرانسپورٹ کے کئی وسائل بدلے، اور پھر جگدل پور پہنچیں۔’
سوری کا کہنا ہے کہ پوٹم کی والدہ اپنی بیٹی کے لیے کھانے پینے کی چیزیں لے کر آئی تھیں، ‘لیکن جیل حکام نے انھیں یہ چیزیں پوٹم کو دینے کی اجازت نہیں دی۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)