جتنے لوگ ریلی میں جمع ہوئے اس لحاظ سے اس کو فلاپ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ریلی این ڈی اے رہنماؤں کے دعووں کے آس پاس بھی نہیں پہنچی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صرف نریندر مودی کی ریلی ہی نہیں نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان کی بھی ریلی تھی۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جس حوصلے کے ساتھ ہندوستان کے وقار کودنیا میں بلند کیا ہے اس سے بہار اور ملک کی عوام بہت ہی پرجوش ہے۔ ریلی کے لئے لوگ خودبخود امڈ پڑیںگے۔ این ڈی اے کی سنکلپ ریلی تاریخی ہوگی اور اتنی بھیڑ جمع ہوگی کی ریلی کے لیے گاندھی میدان بھی چھوٹا پڑ جائےگا۔
بی جے پی کے قومی جنر ل سکریٹری اور بہارکے انچارج بھوپیندریادو نے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں 03 مارچ کو منعقد سنکلپ ریلی کے ایک دن قبل پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا تھا۔ اس سے پہلے بی جے پی کے فائر برانڈ رہنما اور مرکزی وزیر گریراج سنگھ نے کہا تھا کہ سنکلپ ریلی میں جو نہیں آئےگا وہ دیش دروہی ہوگا۔
ریلی کے پہلے کئی وجہوں سے بھوپیندریادو کے دعووں میں دم دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے کہ این ڈی اے مل جل کر یہ ریلی کر رہی تھی، اس کے علاوہ ریاست اور مرکز دونوں میں این ڈی اے کی حکومت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ ریلی ایسے ماحول میں ہو رہی تھی جب ملک میں انڈین ایئر فورس کی کارروائی کے بعد جذباتی ماحول ہے یا پیدا کیا جا رہا اور اس ماحول کو نریندر مودی اپنی حمایت میں بھنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ظاہر ہے اس ماحول میں ایسے بڑے دعوے اور بیانات کے بعد یہ بحث بھی ہونی ہی تھی کہ سنکلپ ریلی میں کتنے لوگ پہنچے۔ اتوار کی ریلی کے بعد جو زمینی حقیقت سامنے آئی وہ یہ کہ ریلی این ڈی اے کی عام ریلی جیسی رہی۔ ریلی کو لےکر عام لوگوں کا رد عمل معمولی رہا۔ریلی کے بعد ٹوئٹر پر اتوار دیر رات تک
BiharWithModi#کے ساتھ ساتھ
BiharRejectsModi #بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔
جتنے لوگ ریلی میں جمع ہوئے اس لحاظ سے اس کو فلاپ تو نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ ریلی این ڈی اے رہنماؤں کے دعووں کے آس پاس بھی نہیں پہنچی۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ صرف نریندر مودی کی ریلی ہی نہیں نتیش کمار اور رام ولاس پاسوان کی بھی ریلی تھی۔ ساتھ ہی سنکلپ ریلی ایک ایسی ریاست میں ہو رہی تھی جہاں این ڈی اے سب سے زیادہ مضبوط مانی جاتی ہے۔ اس کے باوجود ایئر فورس کی کارروائی کے بعد بھی پرجوش ماحول میں این ڈی اے کی ریلی میں عام سی بھیڑ جمع ہوئی۔ گریراج سنگھ کے بقول تو بہاری’دیش دروہی’ہو گئے اور اتناہی نہیں خود گریراج سنگھ ‘دیش دروہی’ہو گئے کیونکہ وہ طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے ریلی میں شامل نہیں ہوئے۔ تمام دعووں اور کوششوں کے بعد ریلی میں عام سی بھیڑ جمع ہونے کے معنی کیا ہیں،یہ کیا اشارہ دیتے ہیں؟
پلواما حملے کے بعد غصے اور ایئر اسٹرائک کی کارروائی کے بعد خوشی اور جوش کا خودبخود مظاہرہ ہوا ہے۔ اس کے بعد نریندر مودی کی رہنمائی میں بی جے پی کی پوری تیاری اس کو لےکر ہے کہ جذبات کے اس ابھار کو سیدھے سیدھے بی جے پی کو ملنے والی سیاسی حمایت میں تبدیل کر دیا جائے۔ نریندر مودی ایئر اسٹرائک کے فوراً بعد راجستھان کے چرو میں منعقد عوامی جلسہ سے ہی اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی اور اس سے جڑی تنظیم بھی سیدھے یا بلاواسطہ طور پر ان واقعات سے ایک جنون پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس سے کہ انتخابی موسم میں حکومت سے کوئی اور سوال پوچھا ہی نہیں جائے اور پوچھا بھی جائے تو سوال پوچھنے والوں کو ہی سوالوں کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ وہ ان واقعات کو ایک ایسا جذباتی مدعا بنانا چاہ رہے ہیں جس مدعا کو لےکے لوگ منطقی نہ ہوں۔ اس مدعے کے آگے باقی سب باتیں بھول جائیں۔ بی جے پی کی پوری تیاری اسی حکمت عملی کے اردگرد دکھائی دیتی ہے۔
لیکن اتوار کی ریلی بتاتی ہے کہ بی جے پی کی یہ کاوش عوام کو اپیل نہیں کر پا رہی ہیں۔ یہ ویسا جنون پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں جس کی آس میں بی جے پی ہے۔ یہ تمام کوشش بی جے پی کے تئیں ویسی کشش پیدا نہیں کر پا رہی ہیں جس کی ابھی بی جے پی کو ضرورت ہے۔ ویسے جنون کے بارے میں کہا بھی جاتا ہے کہ یہ بہت دن تک رہتا نہیں ہے۔دراصل مانا یہ جا رہا ہے سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کے اثر میں رہنے والے شہری متوسط طبقہ کے درمیان اس ‘جنون ‘ کا اثر زیادہ ہے اور اس متوسط طبقے کا ایک خاص سماجی اور طبقاتی بناوٹ اور سیاسی رجحان بھی ہے۔ اس لئے عام طور پر ریلی میں جن گاؤں اور قصبوں سے بھیڑ جمع ہوتی ہے وہ بھیڑ اس ‘جنون ‘پر سوار ہوکر اتوار کو پٹنہ نہیں پہنچی۔
دوسری طرف ایک سمجھ یہ بھی ہے کہ نریندر مودی کے ذریعے اپوزیشن کو ملک مخالف ثابت کرنے کی کوشش بھی عام لوگوں کو زیادہ پسند نہیں آ رہی ہے۔ نریندر مودی کی یہ کوشش ان کی امیج کی اپیل کو کم کر رہی ہے۔ نریندر مودی فضائی فوج کی کارروائی کے فوراً بعد سے اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپوزیشن کو آدھے ادھورے حقائق کے سہارے کٹہرے میں کھڑا کر رہے ہیں۔ مگر لگتا ہے ایسا کرنا نریندر مودی کو فائدہ پہنچانے کی جگہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ نریندر مودی اپنی کامیابی بھر گناتے تو یہاں تک چلتا مگر ساتھ ساتھ اپوزیشن کو کٹہرےے میں کھڑا کرنا لوگوں کو پسند نہیں آ رہا ہے۔