رام چرت مانس کی جو تنقیدبہار کے وزیر تعلیم نے کی ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی کوئی غلطی ہے۔ ان پر حملہ کر کے نام نہاد ہندو سماج اپنی ہی روایت اور فیاضی کی توہین کر رہا ہے۔
بہار کے موجودہ وزیر تعلیم نے ایک یونیورسٹی کے کانووکیشن میں تلسی داس کی ‘رام چرت مانس’ کے بعض حصوں کا حوالہ دیتے ہوئےاس کی تنقید کی اور کہا کہ اس طرح کے خیالات سے سماج میں نفرت پھیلتی ہے۔ اسی مرحلے میں انہوں نے’منواسمرتی’ اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے دوسرے سرسنگھ چالک مادھو راؤ سداشیوراؤ گولوالکر کی کتاب ‘بنچ آف تھاٹس’ کا بھی ذکر کیا۔
ان کے ایسا کہنے پر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندو مذہب سے خود کو جوڑنے والے سادھو–سنت سے لے کر سیاست دانوں تک اور دوسرے لوگ بھی ان کو بھلا برا کہہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ‘میڈیا’ میں بھی اس خبر کو لے کر ‘فضول بحث’ چل رہی ہے۔
‘رام چرت مانس’ اودھی زبان میں 1570 عیسوی کے آس پاس لکھی گئی۔ اس میں رام کتھا بیان کی گئی ہے۔ اسے ہندی ادب کی کتاب سمجھ کر ہندی کے نصاب میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ ہندی کی ادبی تنقید میں اس کتاب پر کافی بحث ہوئی ہے۔ تلسی داس کی شاعرانہ عظمت کے باوجود، نظریاتی طور پر یہ کتاب ورن یا ذات پات کے نظام کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتی ہے۔ جس طرح تمام ادبی تخلیقات میں ایک ہی بات نہیں ہوتی اسی طرح اس میں بھی یہی ایک بات نہیں ہے۔
وزیر تعلیم نے بار بار واضح کیا ہے کہ وہ ان باتوں کے خلاف ہیں جن میں ذات پات کے بارے میں تبصرہ کیا گیا ہے۔ یا پھر جہاں عورتوں کے بارے میں توہین آمیز بیانات درج ہیں۔ قدیم زمانے سے ‘رام چرت مانس’ کے ان خیالات کے بارے میں تحفظ اور دفاع کا احساس گامزن نظرآتا ہے۔
ہندی کے ہی زیرک نقاد کے طور پر معروف رام چندر شکل نے اپنی کتاب ‘گوسوامی تلسی داس’ میں لکھا تھا کہ ‘ بیراگی سمجھ کر ان کی بات کا برا نہیں ماننا چاہیے۔’ ہندی کے ایک اور نقاد ڈاکٹر رام ولاس شرما نے بھی ‘تلسی ساہتیہ کے سامنت ورودھی مولیہ’ جیسا طویل مضمون لکھ کر تلسی داس کی ترقی پسندی پر اصرار کیا تھا۔
ٹھیک اسی طرح ہندی اور میتھلی کے مشہور شاعر ناگارجن نے بھی ‘رام چرت مانس’ کے نظریاتی حدود کے بارے میں لکھا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ‘رام چرت مانس’ کے نظریاتی حدود پر مسلسل بحث ہوتی رہی ہے۔ یہی نہیں تقریباً پچیس تیس سال پہلے ‘ہندو سماج کے پتھ بھرشٹک تلسی داس‘ نامی کتاب بھی شائع ہو چکی ہے، جس میں تلسی داس پر کڑی تنقیدکی گئی ہے۔
ان میں سب سے زیادہ مضحکہ خیز اور تشویشناک ‘رام چرت مانس’ کے ذات پات اور عورت مخالف خیالات کے دفاع کے لیے غیر منطقی بحث کرنا ہے۔ مثال کے طور پر ‘رام چرت مانس’ کے پانچواں حصہ (واضح ہو کہ تلسی داس نے اپنے ‘رام چرت مانس’ کو ‘کانڈ’ میں تقسیم نہیں کیا ہے۔ اس میں ‘کانڈ’ کو والمیکی کی لکھی ہوئی ‘رامائن’ کی پیروی میں شامل کیا گیا ہے۔اس عمل نےبھی گیتا پریس، گورکھپور سے ‘رام چرت مانس’ کی اشاعت کے بعد مزید رفتار پکڑا کیونکہ گیتا پریس کا وسیع کاروباراس میں مددگار ثابت ہوا۔) جسے سندر کانڈ بھی کہا جاتا ہے، میں مندرجہ ذیل چوپائی نظر آتی ہے؛
ڈھول، گنوار، شودر، پشو، ناری
سکل تاڑنا کے ادھیکاری
اس میں ‘تاڑنا’ کا مطلب دیکھنا بتایاجا رہا ہے جبکہ ‘تاڑنا’ کا صحیح مطلب ‘سزا دینا’ یا ‘اصلاح کے مقصد سے سزا دینا’ ہے۔ ‘رام چرت مانس’ کے تمام قابل قبول ہندی–بھاشیہ ایڈیشن میں ‘تاڑنا’ کا یہی مطلب ہے۔ لفظ ‘تاڑ:’ سنسکرت میں بھی یہی معنی رکھتا ہے۔ سنسکرت کا ایک مشہور ومعروف شلوک، جس میں ‘بیٹے’ سے سلوک کے بارے میں بات کی گئی ہے، اس میں بھی یہی معنی و مفہوم نظر آتا ہے:
یعنی پانچ سال تک بیٹے سےمحبت کرنی چاہیے، دس سال تک سزا دینی چاہیے اور سولہ سال کی عمر ہوجانے پر دوستانہ برتاؤ کرنا چاہیے۔ واضح ہو کہ یہاں بھی بات بیٹے کی ہے بیٹی کی نہیں۔ ایسا اس لیے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہوتا ہے کہ ہندو سماج کی نظریاتی تشکیل کی متعدد صورتیں دلت مخالف (آج کی اصطلاح میں) اور عورت مخالف ہیں۔ اس کا اعتراف کرتے ہوئے ہمیں ان کادفاع کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے انہیں دور کرنے کی سمت میں قدم بڑھانا چاہیے۔
اس تناظر میں ’رام چرت مانس‘ کی مذکورہ بالا چوپائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سمندر کا بیان ہے تلسی داس کا نہیں۔ مزید کہا جاتا ہے کہ تین دن تک رام سمندر سے لنکا جانے کا راستہ مانگتے رہے اور جب اس نے راہ نہ دی تو وہ ناراض ہو گئے۔ اس کے بعد رام نے سمندر کو خشک کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر خوف زدہ سمندر نے سامنے آکریہ چوپائی کہی ۔
یہ ادب کا نہایت ہی پیچیدہ سوال ہے کہ کیا کسی بھی تخلیق میں کرداروں کے خیالات کو مصنف کا خیال تصور کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ یا کردار کی فکر آزادانہ ہوتی ہے؟ اگر یہ آزادانہ ہے تو کس حد تک؟ ان سوالات پر نظریاتی بحث کا وقت ابھی یہاں نہیں ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ اگر ہم یہاں سمندر کے قول کو مان کر ان میں درج شودر اور عورت کی مخالفت کو نظر انداز کر یں گے تب رام چرت مانس کے تیسرے سوپان (آرنیہ کانڈ) کی درج ذیل سطروں کا کیا کیاجائے گا، جو کہ خود رام کی زبان سے ظاہر ہوا ہے:
ساپت تاڑت پرش کہنتا
بپر پوجیہ اس گاوہی سنتا
پوجیہ بپر سیل گن ہینا
سدر نہ گن گیان پروینا
یہاں بھی لفظ ‘تاڑت’ آیا ہے۔ یہاں ‘دیکھتا ہے یا دیکھنے والا ‘ درست ہو ہی نہیں ہو سکتا۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ‘تاڑنا’ صرف پیٹنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا ان سطروں کا واضح مطلب یہ ہے کہ شراپ دینے والا، مارنے والا، سخت الفاظ کہنے والا بھی بپریعنی برہمن پوجنے کے قابل ہے۔ اگر کوئی برہمن خوبیوں سے عاری ہو تب بھی اس کی پوجا کی جانی چاہیے اور اگر شودر کے پاس کچھ خوبیاں ہوں اور عالم ہو تب بھی اس کی پوجا نہیں کرنی چاہیے۔
اب ان باتوں کو نسل پرستی نہ سمجھا جائے تو اور کیا سمجھا جائے؟ ان کے لیے تلسی داس اور ‘رام چرت مانس’ کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ان سطروں کے ٹھیک اوپر رام یہ بھی کہتے ہیں:
سنوگندھرب کہوں میں توہی
موہے نہ سہائے برہما کل دروہی
اس کا مطلب ہے ‘سنو گندھرو! میں تم سے کہتا ہوں۔ برہمن قبیلے کے ساتھ غداری کرنے والا مجھے پسند نہیں۔یہ گندھرو بھی کبندھ نامی راکشس ہے، جسے ‘رام چرت مانس’ کے مطابق،رام بے وجہ ہی مار ڈالتے ہیں۔ مارے جانے کے بعد وہ کہتا ہے کہ وہ گندھروتھا جسے درواسا رشی نے اس لیےشراپ دیا تھا کہ وہ لوگوں کو ڈراتا تھا۔
اس بات پر بھی تحقیق کی جا سکتی ہے کہ ہندو اساطیراور دیومالا میں بے وجہ کیے جانے والے قتل کے حوالے سے پچھلے جنم کے شراپ یا بد اعمالی کا تصور کیوں کیا گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس جنم میں مارا جانے والا شخص کوئی غلط حرکت تونہیں کر رہا ہے، اس لیے اس کے قتل (جسے ودھ کہتے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کو بھی ‘ودھ’ کہاجاتا رہا ہے، جس پر کتابیں بھی لکھی گئی ہیں) کی توثیق پچھلے جنم کے گناہوں کو سامنے لا کر ہی کی جا سکتی ہے!
والمیکی رامائن میں کبندھ کی کہانی کچھ مختلف ہے۔ رام اوپر جو یہ کہہ رہے ہیں کہ برہمن قبیلے سے غداری کرنے والا ان کو پسند نہیں ہےاس سے صاف ظاہر ہے کہ رام کتھا خاص طور پر والمیکی کی روایت والی، ذات پات کی حمایت میں لکھی گئی ہے۔ والمیکی رامائن کی ابتدا میں ہی یہ واضح کیا گیا ہے کہ رام چاروں ورن کو اپنے اپنے دھرم یعنی فرض میں مصروف رکھیں گے:
یہ وہ پہلو ہے جب ہمیں یہ بھی سوچنے کا موقع ملتا ہے کہ ہندوؤں کی دیومالائی اور اساطیری کہانیاں کس طرح ہماری توجہ نظریاتی بالادستی کی طرف مبذول کراتی ہیں! یہی وجہ ہے کہ ہمیں تمام دیومالائی اور اساطیری کہانیوں کی متعددصورتیں اور شکلیں ملتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بالادستی کے لیےدیومالائی اور اساطیری کہانیوں کا استعمال کیا گیا ہے تو اس بالادستی کی مخالفت کے لیے بھی انہی دیومالائی اور اساطیری کہانیوں کااستعمال کیا گیا ہے۔ اسی لیے ہمیں ایک ہی کہانی کے حرکیاتی محورکی شکلیں ملتی ہیں۔
ایک شکل کہتی ہے کہ رادھا ایک باکرہ ہیں تو دوسری شکل کہتی ہے کہ رادھا شادی شدہ تھیں اور رشتے میں کرشنا کی مامی لگتی تھیں۔ (حوالہ- چیتنیہ فرقے کے روپ گوسوامی کا ڈرامہ ‘ودگدھامادھوم’ اور ششی بھوشن داس گپتا کی لکھی ہوئی کتاب ‘شری رادھا کا کرم وکاس’) یہی ہندوستان کی تکثیریت ہے، جسے آج ایک روپ عطاکرنے کی منصوبہ بند مہم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ افراد کی جانب سے کئی سطحوں پر چلائی جا رہی ہے۔
رام کتھا کی ہی بات کریں تو جینوں کی رام کتھا بالکل مختلف ہے۔ ہندی کے ابتدائی دور کے شاعر سویمبھو کی ایک کتاب ‘ پؤم چریو’ ہے، جس میں والمیکی کی کہانی سے کئی سطحوں پر فرق ہے۔ورناشرم مذہب کے حامی رام کتھاکے تئیں اس میں ایک تنقیدی احساس کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔’پؤم چریو’ کی شروعات میں ہی راجا شرینک کئی سوال پوچھتے ہیں:
یعنی’دنیا میں معجزہ آرا اور فریبی لوگوں نے بھرم پھیلا رکھا ہے۔ اگر زمین کی پشت کچھوے نے اٹھا رکھی ہے تو تیرتے کچھوے کی پشت کس نے اٹھائی ہے؟ اگر تری بھون رام کے پیٹ میں سماجاتا ہے، تو راون ان کی بیوی کو کہاں لے جاتا ہے؟’
واضح ہے کہ یہاں وشنو کے ‘دشاوتار’ اور ان کے پرم برہمن روپ پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ اسی طرح، ہنومان جین رام کتھا میں برہمچاری نہیں ہیں۔ ان کی دو دو شادیاں ہو چکی ہیں۔ ان کی ایک بیوی تو راون کی بہن ہی ہے۔
اگر ہم مکردھوج (ہنومان کے پسینے سےپیدا ہونے والا)کی کہانی پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہنومان کے عورت سے رشتے پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ ان تمام حوالوں میں قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت ایسی کہانیاں تخلیق کرنے پر کسی نے بھی سویمبھو یا ایسے ہی بہت سے مصنفین کو مذہب مخالف یا ‘راشٹر دروہی’ نہیں کہا ۔
ادھر تقریباً دس سالوں میں جب بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا ہندو سماج پر دبدبہ قائم ہوا ہے، تب سے ایسے واقعات زیادہ رونما ہونے لگے ہیں کہ کسی بھی قسم کی تنقید کو مذہب مخالف یا دیش ورودھی بتادیا جا رہا ہے۔ ایک جارحانہ اور مشتعل ماحول بنایا جا رہا ہے۔
رام چرت مانس کی جو تنقیدبہار کے وزیر تعلیم نے کی ہے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی کوئی غلطی ہے۔ وہ شاید اپنی کسی بات پر زور دینے کے لیے ‘رام چرت مانس’ کا حوالہ لے کر آئے ہوں گے! ان پر حملہ کر کے نام نہاد ہندو سماج اپنی ہی روایت اور فیاضی کی توہین کر رہا ہے۔
(یوگیش پرتاپ شیکھر سینٹرل یونیورسٹی آف ساؤتھ بہار میں ہندی پڑھاتے ہیں۔)