ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ساتواں حصہ پاسی ذات کے بارے میں ہے۔
کپڑوں اور دیگرپہچانوں کے ذریعے انسانوں کی شناخت کی جاسکتی ہےیا نہیں، یہ سوال آج کے دور میں جتنا غیر سیاسی ہے، اتناہی سیاسی بھی۔ مطلب یہ کہ کون برہمن ہے اور کون مسلمان، اس کی پہچان کے آسان طریقے ہیں۔ لیکن کوئی کس ذات سے تعلق رکھتا ہے،اس کی پہچان کیسے کی جاسکتی ہے ؟ کیا لباس سے کسی کی ذات معلوم کی جا سکتی ہے؟
کبیرکہتے ہیں—
بڑا بھیا تو کیا بھیا، جیسے پیڑ کھجور
پنتھی کو چھایا نہیں پھل لاگے اتی دور
کبیر کے اس دوہے میں جس تاڑ— کھجور کو کمتربتایا گیا ہے وہ ایک ذات کے لیے سب سے اہم ہیں۔ یہ وہ ذات ہے، جس کے لوگوں کی شناخت بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے اور وہ بھی ان کے ہاتھوں، سینے اور پاؤں پر پڑے سیاہ نشانات کو دیکھ کر۔ اس ذات کا نام پاسی ہے۔
وہی پاسی، جو آسمان میں اونچے کھڑے تاڑ کے درختوں پر چڑھ کر تاڑی اتارتے ہیں۔ تاڑی ایک ایسا مشروب ہے، جو قدرت نے تحفے کے طور پرعطا کیا ہے، لیکن انسان اسے بھی نشہ بنا دیتا ہے۔
کبیر پاسی نہیں تھے، بُنکر تھے۔ بنکروں کو مسلمانوں میں جولاہا کہا جاتا ہے۔ تاہم پاسی اور جولاہا میں ایک مماثلت ہے۔ جولاہوں کی طرح پاسی ذات کے لوگ بھی بُنتے ہیں۔ وہ تاڑ کے پتوں سے صرف چٹائیاں ہی نہیں بُنتے، بلکہ جھونپڑیوں کا چھپر تک چھانتے ہیں۔ بے شک اب پہلے کا زمانہ نہیں رہا، لیکن اتنا بھی نہیں بدلا کہ قابل ذکر نہ ہو۔ ہاتھ کے بنے تاڑ کے پنکھے تو آج بھی چلن میں ہیں۔
پاسی بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، جھارکھنڈ وغیرہ جیسی ریاستوں میں درج فہرست ذات میں شامل ہے۔ لیکن درج فہرست ذات کے لیے ایک لازمی پہلو یہ ہے کہ اس زمرے میں صرف ‘اچھوت’ کو ہی شامل کیا جائے گا، یہ اس ذات کے روایتی پیشے کے لحاظ سے ایک سوال کے طور پر سامنےآتا ہے۔
آج بھی بہار کے دیہاتوں میں پاسی برادری کے لوگوں کے ساتھ اس وقت تک چھو اچھوت نہیں ہوتا جب تک کہ لوگ ان کی تاڑی پینے کے لیے ان کی راہ دیکھتے ہیں۔ دیہاتوں میں تاڑوں کے درختوں کے درمیان ہی ان کا تڑوننا ہوتا ہے، جہاں تمام ذاتوں/ برادریوں کے لوگ تاڑی پیتے ہیں۔ کچھ شوق کے لیے اور کچھ نشہ کے لیے۔ اس لحاظ سےیہاں چھوت اور اچھوت کا سوال معدوم ہو جاتا ہے۔
اس ذات کے لوگوں کی معاشیات بلاشبہ تاڑ کے درختوں پر منحصر رہی ہے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہوتا۔ چونکہ اس ذات کے زیادہ تر لوگوں کے پاس کھیتی باڑی کے لیے زمین نہیں ہوتی اس لیے وہ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کر کے اپنی روزی کماتے ہیں۔ لیکن انہیں عزت نہیں دی جاتی۔ جبکہ جن مشروبات کو وہ بڑی مشکل سے یا اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اتارتے ہیں، انہیں ویدوں میں دیوتاؤں کے لیے بھی قابل قبول قرار دیا گیا ہے۔
مشہور مؤرخ ڈی این جھا تک نے اپنی کتاب ‘دی متھ آف ہولی کاؤ’ میں اس کا ذکر کیا ہے کہ ہندو دیوی دیوتاؤں نے کس طرح سوم رس پیا تھا۔ سوم نامی دیوتا کا نام ویدک تخلیقات میں آتا ہے۔ اس کے ایک ریچا (اشلوک) میں اسی نام کا ایک درخت بھی ہے۔ ریچا یعنی اشلوک کے مطابق، اس درخت سے نشہ آور مشروب حاصل کیا جاتا تھا۔ دیوتاؤں نے اسے اتارنے کی ذمہ داری پاسی برادری کے لوگوں کو دی۔
کمار سریش سنگھ اور بی وی بھانو نے اپنی کتاب ’انتھروپولوجیکل سروے آف انڈیا‘ میں اس ذات کے لیے استعمال کیے جانے والے لفظ پاسی کے معنی بیان کیے ہیں۔ ان کے مطابق، لفظ پاسی سنسکرت لفظ پاشیکا سے ماخوذہے۔ لیکن یہ ‘پاشیکا’ سے ‘پاسی’ میں کیسے تبدیل ہوا، یہ نہ تو کمار سریش سنگھ نے بتایا اور نہ ہی کسی اور نے۔
اس سے قطع نظر پاسی ذات کی اپنی تاریخ ہے۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ کسی زمانے میں اودھ کے علاقے میں پاسی ذات کے لوگوں کی حکمرانی ہوا کرتی تھی۔ لکھنؤ، جسے نوابوں کا شہر کہا گیا، وہ دراصل لاکھن پاسی کی راجدھانی تھی۔ ان کے علاوہ گنگا بخش راوت، مہاراجہ بجلی پاسی، مہاراجہ سہیل دیو پاسی، چھیتا پاسی، ساتن پاسی، امن راجپیو جپلا، مداری پاسی اور اودا دیوی پاسی کی تفصیل بھی تاریخ میں آتی ہے۔
بہار میں ہی بات کریں، تو جگلال چودھری کی خدمات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ وہ بہار کے چھپرا ضلع کے رہنے والے تھے۔ ان کے والد کا نام مسن چودھری اور والدہ کا نام تیتری دیوی تھا۔ مسن چوہدری ان پڑھ تھے اور تاڑی بیچتے تھے۔ بھائی انگریز کے فوجی تھے، اس لیے جگلال چودھری پڑھ لکھ سکے اور اتنا پڑھے کہ 1914 میں کلکتہ کے میڈیکل کالج میں پڑھنے چلے گئے۔
سال1921 میں جب گاندھی نے اپیل کی تو وہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر سیاست میں کود پڑے۔ وہ 1937 میں بہار میں قائم عبوری حکومت میں وزیر تھے۔ تاہم انہیں محکمہ ایکسائز اور پبلک ہیلتھ کی ذمہ داری دی گئی۔ اس وقت وزیر اعلیٰ کرشن سنگھ تھے۔
شاید ہی آج کے لوگوں کو علم ہو کہ یہ جگلال چودھری ہی تھے، جنہوں نے وزیر بنتے ہی شرابندی کا اعلان کر دیا تھا۔ حالانکہ یہ پوری ریاست میں مؤثرنہیں تھا۔ لیکن چھپرا، مظفر پور، ہزاری باغ اور رانچی میں اسے 100 فیصد نافذ کیا گیا تھا۔
تاہم، بہار میں اس ذات کی آبادی 12 لاکھ 88 ہزار 31 ہے جو کہ کل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ظاہر ہے کہ عددی بنیاد پر جمہوریت میں اتنی چھوٹی آبادی والی ذات برادری کے لیے فیصلہ کن جگہ بنانا آسان نہیں ہے۔ موجودہ سیاسی سماجی ایکویشن اس سے الگ نہیں ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)