ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پانچواں حصہ چوپال ذات کے بارے میں ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: freepik/stockfoo)
بلاشبہ ذات پات پر مبنی معاشرے کا خیال ہی سماج کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا باعث ہے۔ ایک حصہ وہ ہے جو محنت کرتا ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو محنت سے پیدا ہونے والی اشیاء کا استعمال کرتاہے۔ لیکن ہر بار محنت کا نتیجہ مجسم صورت میں نظر نہیں آتا۔
اسے اس طرح دیکھیں، جب ایک نائی محنت کرتا ہے تو اس کی محنت واضح طور پرنظر آتی ہے۔نائی جس شخص کی حجامت بناتاہے ، اس کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے گندے ناخن کاٹے جانے کو بھی واضح طور پردیکھا جا سکتا ہے۔کوئی کمہار برتن بناتا ہے تو برتن اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔
لیکن ذرا سوچیے کہ وہ لوگ جوکسی کی پالکی اٹھاتے ہیں ان کی محنت کس شکل میں نظرآئے گی۔ یا یہ سوچیے کہ اگر کوئی کسی کے دروازے پر لاٹھی لے کر کھڑا رہے اور اس کی رکھوالی کرے تو اس کی محنت کس صورت میں نظر آئے گی؟
محنت کی اسی صورت کو خدمت کہا گیا ہے اور جدید معاشیات کے لحاظ سے کہیں تو سروس سیکٹر۔ لیکن جدید تصورات ذاتوں کے معاملے میں کام نہیں کرتے۔
بہار میں ایک ذات ہے – چوپال۔ لفظوں کی بنیاد پر وضاحت کی جائے تو چار طریقوں سےعمل کرنے والایا چاروں سمتوں سے عمل کرنے والا۔مطلب یہ کہ وہ محنت کر کے کھیتی باڑی بھی کرتا ہے، وہ کاریگر (معمار) بھی ہے، وہ رکھوالا بھی ہے اور صاف — صفائی کرنے والا بھی ہے۔ چوپال کی شکل میں یہی اس ذات کی پہچان رہی ہے۔
مجموعی طور پر، وہ ذات جس کا کام خدمت کرنا ہے۔ درحقیقت، ذات پات پر مبنی نظام یا یوں کہیے کہ پدرانہ نظام کے تصور میں ہی خدمت کرانا شامل ہے۔ تمام محنت کرنے والی ذاتوں، جن میں خواتین بھی شامل ہیں ، سب کو خدمت گار ہی بنا کر رکھا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ اگر کوئی ‘اعلیٰ’ ذات سے تعلق رکھتا ہے تو اس کا کام صرف وسائل کے بل بوتے پرحکمرانی کرنا ہے۔
حکومت کرنے کا مطلب صرف ایم پی اور ایم ایل اے بننا نہیں ہے۔ حکمرانی کا مطلب یہ بھی ہے کہ محنت کے بغیرعیش و عشرت کی زندگی گزارنا بھی ہوتا ہے۔ دیہاتوں میں اب بھی یہ نظارے دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ اگر برہمن —پروہت چاہیں ہاتھ میں تھالی لے کر پورے علاقے میں گھوم جائیں تو ان کے پاس دو وقت کی روٹی کا انتظام یوں ہی ہو جائے۔ لیکن دوسری ذاتوں کے لوگ ایسا نہیں کر سکتے۔
ایک وجہ یہ ہے کہ یہ معاشرہ انہیں کچھ دے گانہیں، گالیاں الگ سے دے گا۔ پھر، جو محنت کرنے والی ذاتیں رہی ہیں ، وہ ایسا کرتی بھی نہیں ہیں۔
چوپال ذات کے لوگوں کا اپنا کوئی مخصوص آبائی کام یا پیشہ نہیں ہے۔ وہ ہر طرح کے کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس بنیاد پر بھی انہیں وہ اجرت اور سماجی حقوق نہیں ملے جو ملنے چاہیے تھے۔ یہاں تک کہ کیوٹ ، ملاح، نشاد، بند، بیلدار اور نونیا جیسی ذاتوں کے لوگوں کے لیے بھی وہ چوپال ہی رہے۔
یقیناً یہ سب کچھ ذات پات کے نظام میں بالادستی کے نظریے کی اہمیت کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ کام کے سوال پر بہت سی ذاتوں میں برابری رہی، لیکن سماجی سطح پر سب یکساں نہیں تھے۔ آج بھی وہ یکساں نہیں ہیں۔
لیکن اب جبکہ جمہوریت ہے، کچھ حالات بدلے ہیں۔ انتخابات میں ان ذاتوں کا کردار بھی اہم ہو گیا ہے جو پہلے معمولی سمجھی جاتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس نے چوپال کا ‘ہندوکرن’کیا۔ تاہم، وہ نہ صرف چوپالوں کے معاملے میں بلکہ تمام محنت کرنے والی ذاتوں کے ساتھ یہی کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیوٹ اور ملاحوں کو ہندو مذہب کا پیروکارقرار دینے کے لیے رامائن کا استعمال کیا۔
وہیں آر ایس ایس نے چوپال ذات کو برہمنائز کرنے کا ایک نیا تجربہ کیا۔ بہار میں وہ ذات جو درج فہرست ذات کے زمرے میں شمار کی جاتی ہیں، سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کامیشور چوپال کے ہاتھوں پہلی اینٹ رکھواکر اسے رام مندر سے جوڑ دیا۔
ایک سوال یہ ہو سکتا ہے کہ چوپال ذات کو درج فہرست ذات کے زمرے میں کیسے شامل کیا گیا، جبکہ یہ ذات برہمنوں کے لیے سماجی طور پرکبھی اچھوت نہیں رہی ہے؟
ویسے ایسا ہی ایک قبیلہ ‘تھارو’ ہے جس کی بہار میں آبادی ایک لاکھ 92 ہزار 50 ہے۔ اب اس قبیلے کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ روایتی طور پر راجپوت کے برابر رہے ہیں۔ تھارو برادری کے لوگوں کی اپنی روایات بھی اس کے پیچھے کارفرما رہی ہیں۔
لیکن چوپال ذات کے لوگوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو راجپوتوں یا برہمنوں کی اولاد نہیں کہا۔ ویسے بھی اگر وہ راجپوت یا برہمن کی اولاد ہوتے تو پالکی کیوں اٹھاتے، لاٹھی لے کررکھوالی کیوں کرتے، کھیتوں میں جبری مشقت (بیگاری) کیوں کرتے؟
درحقیقت، چوپال ذات کو بغیر کسی وجہ کے ہندو نہیں بنایا گیا ہے اور غیر دلت سے دلت میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ ذات پر مبنی مردم شماری رپورٹ- 2022 کے مطابق بہار میں اس ذات کے لوگوں کی آبادی 7 لاکھ 48 ہزار 59 ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آبادی شمالی اور مشرقی بہار کے کچھ حصوں میں ہے۔
یہ جتناسوشیولوجیکل ارتھمیٹک ہے اتنا ہی سیاسی بھی۔ مثال کے طور پر بہار کی دلت ذاتوں میں ایک ذات دھوبی ہے، جس کی موجودگی بلاشبہ پوری ریاست میں ہے، لیکن آبادی 10 لاکھ 96 ہزار 158 ہے۔ وہیں نٹ ذات، جو شیڈول کاسٹ میں شمار کی جاتی ہے، اس کی آبادی 1 لاکھ 5 ہزار 63 ہے۔
یہ صرف وہ اعداد و شمار ہیں جو بتاتے ہیں کہ چوپال، جو پہلے دلت نہیں تھے، کیونکہ وہ اچھوت نہیں تھے، انہیں اب دلت کیوں بنایا گیا اور یہ بھی کہ کامیشور چوپال کے ہاتھوں رام مندر کی بنیادکیوں رکھوائی گئی۔
دراصل اس ذات کے لوگوں کو دلت بنا کر بہار میں کم از کم ایک درجن اسمبلی حلقوں میں ذات پات کے ایکویشن کو اس طرح بدل دیا گیا ہے کہ اس ذات کے لوگوں کے ووٹ حاصل کیے بغیر وہاں کوئی جیت نہیں سکتا۔ چاہے وہ کسی بھی پارٹی کا ہو۔ انہیں اس ذات کے لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہی ہو گا۔
چوپال ذات کے لوگوں کی کوئی باقاعدہ تاریخ نہیں ہے۔ ویسے بھی تاریخ حکمرانوں کی ہوتی ہے۔ جن پر حکمرانی کی جاتی ہے، ان کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی ،بس کہیں کہیں ذکرمحض ہوتا ہے۔
جس طرح برطانوی ماہر نسلیات رابرٹ وین رسل نے چوپال کو بہار اور متحدہ صوبہ (موجودہ اتر پردیش اور اتراکھنڈ) کی ایک بڑی غیر آریائی ذات کے طور پر بیان کیا ہے۔ وہیں ایک اور برطانوی ماہر نسلیات، سر ہربرٹ ہوپ رسلے نے ان کے کاموں کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ وہ روزی کمانے کے لیے کھیتی باڑی کے علاوہ مٹی کاٹنے، ماہی گیری، شکار کرنے اور دیسی جڑی بوٹیاں اور ادویات جمع کرنے کا کام کرتے تھے۔
تاہم، اب چوپال ذات ایک سیاسی ذات میں تبدیل ہو چکی ہے۔ یہ سب کچھ سیاسی سازش کے تحت کیا گیا ہے۔ ان کی بستیوں میں آر ایس ایس نے سازشیں کیں اور ہندو دیوتاؤں کو نصب کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ چوپال ذات کے لوگوں نے اپنے خاندانی دیوتاؤں کو گھر سے باہر پھینک دیا اور اب وہ ہندو مذہب کے ان ثقافتی غلاموں میں شامل ہو گئے ہیں، جو ان کے لیے سیاسی اور سماجی سرگرمیاں کرتے رہیں گے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)