ذات کا تعارف: بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے میں مذکور ذاتوں سے واقفیت حاصل کرنے کے مقصد سے دی وائر نے ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔ چھٹا حصہ نائی کے بارے میں ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Flickr/Brooxi)
ذاتیں محض محنت کی درجہ بندی نہیں ہیں۔ جیسا کہ مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں ایک ہی خاندان کے لوگ اپنے پیشے کے لحاظ سے مویشی چرانے والے بھی ہوسکتے ہیں اور لکڑی کا فرنیچر بنانے والے بڑھئی بھی۔ وہاں ایک ہی خاندان کا کوئی فرد موچی بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں پیشہ کو ذات تصور کیا گیا ہے اور اسی کی بنیاد پر سماجی اصول و ضوابط بنائے گئے ہیں۔
آج ہم جس ذات کے بارے میں بات کر رہے ہیں، اس کے لوگ ہر جگہ مل جائیں گے۔ شہر ہو یا گاؤں۔ وہ ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ مسلمانوں میں انہیں حجام کہا جاتا ہے اور ان کے کام کو حجامت بنانا۔ ہندو مذہب میں ان کے بہت سے نام ہیں۔ جیسے ناؤ، نوا، کشورک، ناپت، منڈک،بھانڈک، نائیس، سین، سینا، سویتا —سماج، منگلا وغیرہ۔
وہ بہت صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں اور پوری لگن کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو خوبصورت بناتے ہیں۔ ان کے بے ترتیب بالوں کو سجاتے اور سنوارتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ ان ہاتھ لگانے محض سے لوگوں کے چہرےکی چمک بڑھ جاتی ہے۔
مختلف ریاستوں میں ان کے مختلف نام ہیں۔ پنجاب ان میں ذرا سا الگ ہے۔ وہاں لوگ انہیں پیار سے راجہ تک کہتے ہیں۔ ہماچل پردیش میں کُلین، راجستھان میں خواص، ہریانہ میں سین سماج یا ناپت، اور دہلی میں نائی ٹھاکر یا پھرسویتا سماج۔
بہار میں اس ذات کے لوگوں کو انتہائی پسماندہ مانا گیا ہے۔ یہ پسماندہ طبقے کا ہی حصہ ہے۔ جہاں تک آبادی کا تعلق ہے، حال ہی میں بہار حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق، بہار میں ان کی آبادی 20 لاکھ 82 ہزار 48 ہے، جو کہ حصہ داری کے لحاظ سے بلاشبہ صرف 1.5927 فیصد ہے، لیکن اس ذات کو معاشرے اور سیاست میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔
معاشرے میں مقام کی بات یہ ہے کہ برہمن ذات کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اس ذات کے لوگ بھی پیدائش سے لے کر موت تک کی رسومات میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن برہمنوں کی طرح ان کی عزت نہیں کی جاتی۔ شمالی ہندوستان میں تو ایک طنزیہ کہاوت بھی ہے، جس کے ذریعے ان کی سرعام توہین تک کی جاتی ہے – پنچھی میں کوا، ذات میں نوا۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوا سب سے ذہین پرندہ اور ہمہ خور ہوتاہے، اسی طرح ہندو ذات میں نوا ہوتے ہیں۔
لیکن وہ اچھوت نہیں ہیں، کیونکہ انہیں اچھوت قرار دینے سے اس معاشرے کے ان لوگوں کو نقصان پہنچے گا جو ان سے خدمات حاصل کرتے ہیں۔ ویسے بھی اگر کسی کو اپنی حجامت بنوانی ہے تو اسے اپنے چہرے کو چھونے کی اجازت دینی ہی ہوگی۔ اتھرو وید میں بھی ان کو اچھوت بنانے کے بارے میں ایک بحث موجود ہے—
اس اشلوک میں بتایا گیا ہے کہ شادی کی تقریب میں مرکزی شخص نائی ہوتا ہے، جو کنیا (دلہن) کے لیے ور (دولہا ) تلاش کرتا ہے اور اس کی اہلیت کی جانچ کرتا ہے۔ وہ وگدان سنسکار(منگنی) انجام دیتے ہیں اور ہر کام ان کی رضامندی سے ہوتا ہے اور اسی وجہ سے وہ سب سے پہلے پنچ وستر پہنائے جانے کے حقدار ہیں۔
ہندوستانی معاشرے میں سب سے بڑا تضاد یہ رہا ہے کہ محنت کو غیر اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اگر ہم انسانی تہذیب کی ترقی کی تاریخ کو سائنسی نقطہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نائی ہی پہلا شخص رہا ہوگا جس نے سوچا ہو گا کہ انسان کو حجامت بناکر رکھنی چاہیے تاکہ وہ خوبصورت نظر آئے۔ اور یہ خیال آتے ہی اس نے حجامت بنانے کے فن کا ایجاد کیا ہوگا۔
اگر کوئی انسانی تہذیب کی تاریخ کا اس بنیاد پر جائزہ لے کہ اگر یہ ایجاد نہ ہوئی ہوتی تو کیا انسان اور حیوان میں کوئی فرق ہوتا؟ اگر ہم تاریخ کو بنیاد سمجھیں تو حجاموں کے ظہور کا زمانہ نوولیتھک دور (سنگی دور)کے بعدکا رہا ہو گا جب لوہا ایجاد ہوا ہو گا۔ قینچی اور دوسرے اوزارتو لوہے کے بغیر ممکن ہی نہیں تھے۔
تہذیب کی ترقی میں نائی ذات کے لوگوں کا کردار اتنا ہے کہ کوئی چاہ کر بھی اسے رد نہیں کر سکتا۔ وہ اس دھرتی کا پہلا سرجن تھا جس نے اپنے اوزاروں سے لاتعداد لوگوں کے پاؤں سے کانٹے نکالے۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔پھر چاہے کوئی بادشاہ ہو یا عام آدمی۔ حجام نے ہمیشہ سب کی خدمت کی ہے۔ وہ سب کی حجامت بناتے ہیں کسی کواچھوت نہیں سمجھتے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس کام میں وہ اکیلے نہیں ہوتے۔ ان کے گھر کی خواتین بھی معاشرے میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ آج بھی بہار اور اتر پردیش کے دیہاتوں میں نائی سماج کی خواتین تمام ذاتوں کی خواتین کی خدمت کرتی ہیں۔ ان کے ناخن کاٹتی ہیں اور ان کے پاؤں میں آلتا (نیل پالش) لگاتی ہیں۔
تو اس طرح نائی اپنے اہل خانہ کے ساتھ مل کر محنت کرتے ہیں۔ پہلے ان کی مزدوری کو ججمنکا کہا جاتا تھا۔ ہر زمیندار کے یہاں ان کا حصہ طے ہوتا تھا۔ کوئی انہیں ایک کٹھے میں ایک بوجھا دیتاتو کوئی بہت خوش ہوکر دو بوجھا اناج دے دیتا۔ اور اس طرح بے زمین ہونے کے باوجود نائی برادری کے لوگوں کے کھلیہان میں فصل ہوتی تھی۔
لیکن اب ججمنکا دور نہیں رہا۔ گلوبلائزیشن نے ان کی دنیا بدل دی ہے۔ اب ان لوگوں نے بھی ججمنکا چھوڑ دیا ہے۔ وہ نقد کاروبار کرتے ہیں۔
سیاست کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو، کرپوری ٹھاکر یقینی طور پر بہار کے ایک معروف سیاست دان تھے جو دو بار وزیر اعلیٰ بنے۔ ان کے ذریعے نافذ کردہ منگیری لال کمیشن کی سفارشات نے اس ملک میں پسماندہ طبقات کی سیاست کو ایک اہم سمت دی۔ لیکن اس وقت یہ معاشرہ اپنے لیے ایک ہیرو کی تلاش میں ہے۔ فی الحال یہی اس کا مقدر ہے۔
(نول کشور کمار فارورڈ پریس، نئی دہلی کے ہندی ایڈیٹر ہیں۔)