بہار میں گزشتہ 17 دنوں میں 12 پل گر چکے ہیں۔ ان میں پرانے اور زیر تعمیر دونوں پل شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں دائر ایک پی آئی ایل میں بہار حکومت سے زیر تعمیرسمیت ریاست کے تمام پلوں کا اعلیٰ سطحی ڈھانچہ جاتی آڈٹ کرانے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
سیوان میں گرا پل۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: ایکس)
نئی دہلی: بہار میں مسلسل گرتے پلوں کا معاملہ اب سپریم کورٹ پہنچ گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایڈوکیٹ برجیش سنگھ نے جمعرات (4 جولائی) کو سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے، جس میں حکومت بہار کو ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ریاست کے تمام پلوں بشمول زیر تعمیر پلوں کا اعلیٰ سطحی ڈھانچہ جاتی آڈٹ کرے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق،برجیش سنگھ نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ بار بار پل ٹوٹنے کی وجہ سےہونے والے حادثات میں بڑے پیمانے پر عوامی جان و مال کے نقصان کے ساتھ لوگوں کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی تشویشناک بات ہے کہ بہار جیسا صوبہ جو سیلاب کی زد میں سب سے زیادہ رہاہے، جہاں سیلاب سے متاثرہ رقبہ 68800 مربع کلومیٹر ہے جو کہ ریاست کے کل جغرافیائی رقبہ کا 73.06 فیصد ہے۔ وہاں پل گرنے کے ایسے مستقل واقعات رونما ہو رہے ہیں، جو انتہائی تباہ کن ہیں۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں اس لیے عدالت کی فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔
معلوم ہو کہ بدھ (3 جولائی) کو بہار کے دو اضلاع میں چار پل گر گئے ۔ سیوان ضلع کے مختلف علاقوں میں تین پل گر گئے۔ اسی دوران سارن ضلع میں بھی ایک پل گر گیا تھا۔
اس سلسلے میں بنیا پور کے رمیش سنگھ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ‘اگرچہ یہ پل چھوٹا تھا، لیکن اس کے آس پاس کی پنچایتوں کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔ طلباء اس سے اسکول اور کالج جاتے تھے، کسان اسے اپنی پیداوار بیچنے یا بازار سے زرعی سامان خریدنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ دیگر سرگرمیوں کے علاوہ لوگ اس پل کو کام کے لیے بھی استعمال کرتے تھے۔ لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے گر گیا۔’
جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کے دوران بہار کے ترقیاتی کمشنر اور آبی وسائل کے محکمے کے ایڈیشنل چیف سکریٹری چیتنیہ پرساد نے کہا، ‘ریاست کے تمام پلوں کا سروے کیا جائے گا۔ تین دہائیوں سے پرانے تمام پلوں کی مضبوطی اور حفاظت کا اندازہ لگایا جائے گا۔ یہ پوری مشق 15 دنوں میں مکمل ہو جائے گی۔ حال ہی میں گاد سے پاک کیے گئے تمام نہروں، ندیوں کی شاخوں اور نالوں کا دوبارہ معائنہ کیا جائے گا۔
اس معاملے پر حکومت پر حملہ کرتے ہوئے راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے صدر لالو پرساد یادو نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا، ‘نریندر مودی اور نتیش کمار اس کے لیے مغلوں، انگریزوں اور اپوزیشن کو مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ بدھ کو پانچ پل گر گئے۔ ہفتہ عشرہ میں 12 پل گر چکے ہیں۔ ریاست میں پلوں کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ تازہ ترین معاملات سمیت بہار میں گزشتہ 17 دنوں میں 12 پل گرے ہیں۔ ان میں پرانے اور زیر تعمیر دونوں پل شامل ہیں۔
واضح ہو کہ 18 جون کو ریاست میں سب سے پہلے ارریہ ضلع کے سکتی بلاک میں زیر تعمیر پل کے گرنے کی خبر سامنے آئی تھی ۔ یہ پل ارریہ کے ہی دو بلاک سکتی اور کرسا کانٹا کو جوڑنے کے لیے بنایا جا رہا تھا۔
اس کے بعد 22 جون کی رات کو ہی مشرقی چمپارن کے گھوراسہن بلاک کے اموا میں ایک زیر تعمیر پل گر گیا تھا۔ یہ پل اموا سے چین پور اسٹیشن جانے والی سڑک پر بنایا جا رہا تھا۔ شام کو اس پل کے بالائی حصے کی ڈھلائی ہوئی تھی اور رات ہوتے ہوتے یہ گر پڑا تھا۔
اس سے کچھ دن پہلے 22 جون کو مشرقی چمپارن کے سیوان میں گنڈک نہر پر بنایا گیا ایک پل گر گیا تھا۔ مہاراج گنج اور دروندا بلاک کو جوڑنے والا یہ پل 34 سال پرانا تھا۔
اسی طرح 28 جون کو مدھوبنی ضلع میں بھوتہی بلان ندی پر ایک زیر تعمیر پل گر گیا تھا۔ وہیں، 27 جون کو کشن گنج ضلع میں مدیا ندی پر 70 میٹر طویل پل کے گرنے کی خبر سامنے آئی تھی۔
کشن گنج ضلع میں اتوار (30 جون) کو پل گرنے کا ایک اور معاملہ سامنے آیا، جس کی وجہ سے قرب و جوار کے تقریباً 60000 لوگوں کا رابطہ متاثر ہوگیا ہے۔
اس معاملے کے طول پکڑنے کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے پل گرنے کی وجوہات کا پتہ لگانے کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی تھیں۔