یہ درست ہے کہ وقت پرانتخاب کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مگر جس ریاست میں وبا کا عالم یہ ہو کہ وزیر اعلیٰ ہی تین مہینے باہر نہ نکلیں، وہاں سات کروڑ رائے دہندگان کے ساتھ ایک ماہ تک انتخابی کارروائی کو جاری رکھنابیماری کے خطرے میں اور اضافہ کا باعث ہوسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے کووڈ -19کے دور میں بہار انتخاب کے مدنظر ایک گائیڈلائن بھی جاری کر دی ہے۔ اس کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ کمیشن نے اس کو جاری کرنے سے پہلے تما پہلوؤں پر گہرائی سے غوروخوض کیا ہے۔ یا کچھ غور کیا بھی ہے۔کمیشن کے حالیہ گائیڈ لائن نمائشی لگتے ہے۔جس ریاست میں وبا اور طبی سہولیات کا عالم یہ ہو کہ وہاں کےوزیر اعلی ٰتین ماہ سے گھر سے باہر نہ نکلے ہوں، اس ریاست کے 7 کروڑ رائے دہندگان کے ساتھ ایک ماہ چلنے والی انتخابی کارروائی کی تیاری الیکشن کمیشن کر رہی ہے!
معلوم نہیں ان گائیڈلائن کے ساتھ افسر اور سکیورٹی فورسز کے لوگ اپنے آپ کو کورونا سے بچائیں گے یا رائے دہندگان کی دبنگوں سےحفاظت کریں گے!گائیڈلائن کے مطابق، کمیشن نے بوتھ پر آنے والے رائے دہندگان کو ووٹنگ کے پہلے دستانے دینے، اگر ماسک نہیں ہے تو ماسک دینے کی بات کی ہے۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ پولنگ افسران کو پی پی ای کٹ، ماسک، فیس شیلڈ دیے، جائیں گے۔
اس سے ملک کی غریب عوام پر 125 کروڑ روپے سے زیادہ کا بوجھ پڑےگا، مگر اس سے فائدہ کچھ نہیں ہوگا۔بہار میں لگ بھگ 7 کروڑ 20 لاکھ رائے دہندگان ہیں۔ اگر ووٹنگ کافیصد 70فیصدی رہا، تو لگ بھگ 5 کروڑ جوڑی دستانے تو اکیلے پولنگ بوتھ پر رائے دہندگان کے لیے لگیں گے۔
اس کے بعد انتخابی کاموں میں لگے 6 لاکھ افسروں اور لاکھوں سیکورٹی فورسزکو انتخاب کے دور میں کئی بار ان کی ضرورت ہوگی، یعنی لگ بھگ ایک کروڑ جوڑی اور دستانے لگیں گے۔اتنا ہی نہیں، پولنگ بوتھ کے اندر اسٹاف کو پی پی ای کٹ دیا جائےگا۔ اس کے علاوہ پولنگ بوتھ میں ہر امیدوار کا ایک پولنگ ایجنٹ ہوتا ہے۔ یعنی لگ بھگ ہر بوتھ میں کم سے کم 10 لوگ ہوں گے۔
بہار میں 75 ہزار پولنگ بوتھ ہے، جہاں کل ملاکر 7-8 لاکھ پی پی ای کٹ کی ضرورت ہوگی۔ماحولیات کی وجہ سےکمیشن نے انتخابی تشہیر میں پلاسٹک مواد کے استعمال پر روک لگائی تھی اور اب وہی کمیشن ان سب مواد سے پلاسٹک کا ایک پہاڑ کھڑا کرنے جا رہا ہے۔
معلوم ہو کہ انہیں پھینکنے کے لیے ایک خاص پروسس اپنانا ضروری ہے ورنہ یہ صحت کی لیے بڑی پریشانی بن جائےگا۔ دہلی سمیت ملک کے کئی شہر پہلے ہی اس سے جوجھ رہے ہیں۔یہ پلاسٹک سمندری جانوروں کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بن گیا ہے۔ ان سب ماحولیاتی خطرے کے علاوہ، دستانے اور پی پی ای کٹ کا استعمال فائدے کے بجائے گھاٹے کا سودا ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسے پہننے اور اتارنے کا ایک خاص طریقہ ہے، اگر وہ نہیں اپنایا تو یہ الٹا نقصان کر سکتے ہیں۔
ہندوستان کے وزارت صحت سے لےکر سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول (امریکی ادارہ) اوریورپین سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول پریونشن اینڈ کنٹرول کے ماہرین کی یہ رائے ہے کہ عام شہریوں کو دستانے کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ان کا استعمال صرف طبی مراکزمیں اور ماہر میڈیکل پیشہ وروں کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ ان کے استعمال کے بعد کس طرح سے اور کہاں اسے ٹھکانے لگانا ہے اس کے لیے بھی ضابطےبنے ہیں۔
اب ہر مرکز پر عام لوگوں سے یہ امید کرنا کہ وہ دستانے کو پہننے اور پھر محفوظ طریقے سےٹھکانے لگانے کا کام کر پائیں گے، یہ کچھ زیادہ ہی ہوگا۔کمیشن نے ہر ووٹر کے بدن کا درجہ حرارت ناپنے کی بات کہی ہے اور جن کا درجہ حرارت طے حد سے زیادہ ہوگا اسے آخر میں اپنا ووٹ دینے دیا جائےگا۔
کمیشن کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پہلا تو 40فیصد سے زیادہ کورونا کے مریضوں کو اس بیماری کی کوئی علامت نہیں ہوتی ہیں۔ دوسرا، کئی لوگوں کو ڈائریا، بھوک نہ لگناوغیرہ کئی دوسری علامات ہوتی ہیں، بخار نہیں۔اور ویسے بھی دوائی کھاکر تھوڑی دیر کے لیے بخار نارمل بھی ہو سکتا ہے۔
کمیشن کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ انتخاب میں میں بڑے پیمانے پر فورسز کی تعیناتی کرنی ہوتی ہے۔ یہ فورس جہاں جاتی ہے، وہا بیرکوں میں رہتی ہے۔
مان لیجیے، اس میں سے اگر ایک کو بھی کورونا ہوا، تو وہ سب کو یہ انفیکشن دے سکتا ہے۔ ان لوگوں سے مقامی پولیس فورس میں بھی کورونا پھیلنے کا ڈر ہوگا۔ اگر فورسزمیں کورونا پھیلا، تو انہیں طبی سہولیات کیسے مہیا کرائی جائیں گی؟کمیشن نے یہ بھی صاف نہیں کیا کہ انتخابی کارروائی کے دوران اگر کسی امیدوار کو کوروناانفیکشن ہو گیا تو اسے تشہیر کرنے دیا جائےگا یا نہیں؟
یا اگر کسی علاقے کو کنٹینمنٹ زون قرار دیاگیاتو وہا ں انتخابی تشہیرکیسے ہوگی اور وہاں کے لوگ اپنے ووٹ دینے کے حق کا استعمال کیسے کریں گے؟اگر کسی گاؤں یا محلے میں کورونا کا قہر ہے، تو وہاں پولنگ بوتھ بنےگا یا نہیں؟ اگر ووٹنگ کے ایک دو دن پہلے پولنگ بوتھ کنٹینمنٹ زون میں آ گیا، تو؟
کمیشن کو یہ بھی سمجھنا ہوگا بھلے ہی الکٹرانک ذرائع سے ورچوئل تشہیر ہوگی، مگر انتخاب کی حکمت عملی کے لیے کارکن سے بیٹھک کرنا، الیکشن آفس کو چلانا، کارکن کو ملنے کا کام، امیدواروں کو جسمانی طور پر ہی کرنا ہوگا۔اسی طرح افسروں کو بھی لگاتار بیٹھک کرنی ہوگی۔ اس طرح ایک ماہ تک دن رات پوری ریاست میں ان بیٹھکوں کا دور چلنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
اور سب سے بڑا کام ہوتا ہے ووٹر کو بوتھ پر لانا۔ اس میں جب بڑے پیمانے پر ایک دوسرے سے رابطہ ہوگا، تو وبا نہیں پھیلے گی؟ پھر نتائج آنے کے بعد جیتنے والے امیدوار کا جلوس!ضلع سطح کے ریونیو اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے لےکر نچلی سطح تک کے اسٹاف اس وبا کی ڈیوٹی میں لگے ہیں، اب اگر ایک ماہ تک وہ انتخاب میں لگ جا ئیں گے، تو پھر کورونا کی وبا سے نپٹنے کی ڈیوٹی میں کسے لگایا جائےگا؟
اگر انتخاب کے بعد بہار میں کورونا کاقہر بڑھ گیا تو کیا اسے سنبھالنے کے لیے وہاں خاطرخواہ طبی سہولیات مہیاکرانے کا کام کمیشن کرےگا؟ ایسے ڈھیروں سوال ہیں جن پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔یہ درست ہے کہ وقت پر انتخاب کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مگر جس ریاست میں وبا اورطبی سہولیات ا عالم یہ ہو کہ وہاں کےوزیر اعلیٰ ہی مہینوں گھر سے باہر نہ آئے ہوں، وہاں 7 کروڑ لوگوں کو مہینے بھر چلنے والی انتخابی کارروائی میں ڈالنا خطرناک ہو سکتا ہے۔
اس وبا میں افسر اورفورسز کے لوگ اپنے آپ کو کورونا سے بچائیں گے یا ووٹرکی حفاظت کریں گے یہ ایک بڑا سوال ہے۔ اور اگر افسر نے کورونا کے نام پر اپوزیشن پارٹیوں کے لوگوں کو کورونا سینٹر میں ڈالنا شروع کر دیا تو؟
اس وبا میں بہار جیسی ریاست میں آزادانہ،غیرجانبدارانہ اور محفوظ انتخاب کرانا ممکن ہی نہیں ہے، اس لیے مقتدرہ بی جےپی اور جے ڈی یو کے گٹھ بندھن کو چھوڑکر بہار کی لگ بھگ تمام سیاسی پارٹیاں آگاہ کر رہی تھیں کہ ریاست کی پہلی ترجیح کورونا وبا سے جوجھنا ہے۔
تمام مخالفت کے باوجود اگر کمیشن آدھے ادھورے طریقے سے انتخابی کارروائی کو مکمل کرےگا، تو وہ غیرجانبدارانہ انتخاب تو نہیں ہی کروا پائےگا بلکہ بہار کو کورونا وبا کے گہرے بھنور میں ڈھکیل دےگا۔سو سال بعد آئی اس وبا کے دور میں، وہ جب اپوزیشن پارٹی بھی ابھی انتخاب کے خلاف ہے، تب کمیشن کو ایک پوری ریاست کو انتخاب میں جھونک دینے کے جرم سے بچنا چاہیے۔
(مضمون نگار سماجوادی جن پریشد کے کارکن ہیں۔ )