جے ڈی یو کو بی جے پی سے کم سیٹیں ملنے کے بعد نتیش کمار کے وزیر اعلیٰ بننے کو لےکر سوال اٹھ رہے تھے، لیکن ایسی رائے ہے کہ عوام، بالخصوص خواتین کے این ڈی اےکو چننے کا سہرا نتیش کمار کو ہی جاتا ہے، ایسے میں ان کی قیادت میں نئی سرکار کا بننا ناگزیر ہے۔
ایک عوامی اجلاس میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/جے ڈی یو)
حال ہی میں ختم ہوا بہار اسمبلی انتخاب کافی کانٹے کا رہا اور نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا، یہ سب لوگ پہلے سے جانتے تھے۔ایگزٹ پول کی پیشن گوئیاں گٹھ بندھن کےحق میں لگ بھگ ایک رائے سے آئی تھی پھر بھی سب نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ اس ایگزٹ پول میں کچھ بھی گڑبڑ ہو سکتا ہے اور ہوا بھی یہی۔
حتمی نتیجہ آنے کے بعد این ڈی اے کو معمولی بڑھت حاصل ہوئی اور وہ سرکار بنانے میں کامیاب ہو جا ئیں گے ایسا صاف لگ رہا ہے۔
اس انتخابی مہم کے شروع ہوتے ہی دو باتیں ایک دم صاف تھیں۔ ایک طرف جہاں این ڈی اےکی قیادت میں مہاگٹھ بندھن انتخاب سے بہت پہلے ہی متحدہو گیا تھا، ان میں سیٹوں کا بٹوارہ بھی رضامندی سے ہو گیا تھا اور ان کی انتخابی تشہیر اور انتخابی مہم بھی وقت سے اوراتحادی پارٹیوں کےاتحاد کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔
ٹھیک اس کے برعکس دوسری اور سیٹوں کےمختص کو لےکر اور ایل جے پی کو لےکربالخصوص ایل جے پی کے موجودہ رہنما اورسابق رہنما رام ولاس پاسوان کے بیٹے چراغ پاسوان کو لےکر تھا۔بی جے پی چاہتی تھی چراغ پاسوان سے خفیہ گٹھ بندھن کرنا اور وہ اس میں کامیاب ہو گئی۔ نتیش کمار کااندازہ تھا کہ ایل جے پی کے ساتھ گٹھ بندھن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
لوک سبھا میں ایل جے پی کی بھلے ہی 5 سیٹیں ہیں لیکن اسمبلی کے انتخاب میں ان کو چار پانچ سیٹوں سے زیادہ نہیں ملنا ہے۔ نتیش کا شاید یہ بھی ماننا تھا کہ رام ولاس پاسوان کے بعد اب اس پارٹی کا کوئی مطلب نہیں رہ گیا ہے۔
یہاں دونوں پارٹیوں کے بیچ بہت تیکھی داؤپیچ چلی ہے۔ چراغ پاسوان نے اعلان کر دیا کہ ان کے دشمن نمبر ایک نتیش کمار ہیں اور وہ نتیش کمار کو اس بار وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیں گے۔بی جے پی نے اس صورت حال کا پورا استعمال کیا۔ بی جے پی نے اپنا تال میل تو ایل جے پی سے کر لیا لیکن دوسری جانب ایل جے پی کو نتیش کمار کےخلاف کھڑا کر دیا۔
نتیش کمار کے لیے چراغ پاسوان بھاری ووٹ کٹوا ثابت ہوئے ہیں۔ انتخاب سے قبل بی جے پی کے کئی رہنماؤں، جن میں کئی سابق وزیر اور ایم ایل اے بھی ہیں، کو چراغ پاسوان نےایل جے پی کا ٹکٹ دیا۔ایسا صاف لگ رہا تھا کہ اس بار بی جے پی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بننا چاہتی ہے۔ اس سے پہلے بھی دونوں پارٹیوں کے بیچ نمبر ایک پارٹی بننے کی کھینچ تان چلتی رہی ہے،لیکن اس بار بی جے پی نے اچھا موقع تلاش کرلیا۔
پھر بھی نتیش کمار نے بے حد سنجیدگی کا تعارف دیا۔ نتیش کمار نے بی جے پی کی اس چال کی نہ مخالفت کی اور نہ اس کا پردہ فاش کیا، لیکن ان کی ناراضگی ہے یہ سچ ہے۔ یہ کس صورت میں سامنے آئے گی یہ مستقبل بتائےگا۔
یہ بات اس سیاق میں زیادہ اہم ہو جاتی ہے کہ نتیش کمار این ڈی اے گٹھ بندھن میں ہمیشہ اپنی شرطوں اور اپنی پہچان پر بنے رہے۔انہوں نے اپنی سوشلسٹ،ترقی پسند اور سیکولر امیج ہمیشہ بنائے رکھی ہے۔ بہار کے مسلمانوں کے ایک طبقے کی حمایت برابر ان کے ساتھ رہی ہے۔
مسلمان ان کو بڑے پیمانے پر ووٹ نہیں کرتا تھا لیکن وہ یہ سمجھتا ضرور تھا کہ نتیش کمار سیکولر ہے اور فرقہ واریت کے خلاف یہ بات بی جے پی قیادت کو برابر کھٹکتی رہی ہے۔
اس بار جو انتخابی نتائج آئے ہیں اس میں نتیش کمار کی سیٹیں کم ہوئی ہیں۔ جو جانکاری انتخابی تجزیے کے بعد آئی ہے اس میں ایل جے پی کی وجہ سےجے ڈی یو کو 28 سیٹوں کا سیدھا نقصان ہوا ہے یعنی چراغ پاسوان نے نتیش کمار کی 28 سیٹیں براہ راست یا بالواسطہ طور پردیگر پارٹیوں کی جھولی میں بالخصوص اپوزیشن پارٹی کے جھولی میں ڈالنے میں مدد کی ہے۔
مگر نتیش کمار کی سنجیدگی دیکھیے کہ انہوں نے اس سوال پر ابھی بھی کچھ نہیں کہا ہے۔ فی الحال تو نتیش کمار نے سرکار بنانے پر اپنی رضامندی دی ہے۔ان کی پارٹی کے ریاستی صدر وششٹھ نارائن سنگھ نے بھی کہا ہے کہ وہ سرکار بنائیں گے۔ اب کچھ نئے سوال اس میں کھڑے ہونے والے ہیں جس پر سب کی نظر ہے۔
بی جے پی قیادت چراغ پاسوان کو ابھی بھی چھوڑنا نہیں چاہتی۔ اس بات کی بھی چرچہ ہے کہ چراغ پاسوان کو اپنے والد رام ولاس پاسوان کی جگہ مرکزی کابینہ میں جگہ دی جائےگی۔اگر ایسا ہوتا ہے تو نتیش کمار اس کی کھل کر مخالفت کریں گے اور اس مخالفت میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس کا اشارہ شاید بی جے پی کو بھی ہے اور اپوزیشن پارٹی اس موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے پوری طرح تیار ہوں گے۔
یہ بات بھی پوری طرح صاف ہے کیونکہ وہ بھی اکثریت سے بہت کم ووٹوں سے پیچھے رہ گئے۔ اس لیے بہار میں کل کیا ہوگا، کون سی اتھل پتھل ہوگی، غیر یقینی حالات میں کیا ہوگا یہ کہنا مشکل ہے۔
گزشتہ15 سالوں سے نتیش کمار بہار کے اکیلےرہنما کےطورپر اور ایک امیج کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔ نتیش نے بہار کے وکاس کو ایک نئی راہ دی ہے۔ انہوں نے بہار میں مافیا سسٹم اور غنڈہ راج کو ختم کیا ہے۔ شراب بندی لاگو کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
آج بہار میں اگرعورتوں کازیادہ ووٹ پڑا ہے اور وہ ووٹ این ڈی اے کو گیا ہے تو اس کا ساراسہرا نتیش کمار کو ہے۔ اس لیے فی الحال نتیش کمار کا بہار کی سیاست میں کوئی متبادل نہیں ہے۔اس لیے کیا کہا جائےگا، کیا ہوگا جو بھی سرکار بنےگی، جو بھی نئی سرکار بنےگی کسی بھی الٹ پلٹ کے بعد بھی بنےگی تو وہ نتیش کمار کی ہی قیادت میں بنےگی۔