گراؤنڈ رپورٹ: ارریہ ضلع کے ہلہلیا پنچایت میں مسہر کمیونٹی سمیت پسماندہ طبقات کے کئی مزدور، جو روزگار کے لیے پنجاب گئے تھے، انہوں نے سکھ مذہب اپنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بہت متاثر ہوئے کہ اس مذہب میں اونچ نیچ نہیں ہے۔
ہلہلیا کے گرودوارے میں کشن سنگھ اور سکھ مذہب اپنانے والوں کے بچے۔ (فوٹو: ہیمنت کمار پانڈے)
بہار کے ارریہ ضلع میں اس سال اکتوبر کے پہلے ہفتے تک شدید بارش ہوئی تھی۔ بڑے بزرگ بتاتے ہیں کہ پتہ نہیں پہلے ایسا کب ہوا تھا۔ اس کی وجہ سے کئی علاقے سیلاب کی زدمیں آ گئے۔ اس کے نشان ایک مہینے بعد بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔
نچلے علاقوں کے کھیتوں اور گڈھوں میں اب بھی پانی ہے۔ ان علاقوں سے گزر نے پر کئی بچےآبی جماؤ والے حصہ میں مچھلی نکالتے ہوئے دکھ جاتے ہیں۔ ان میں سےاکثر دلت کمیونٹی سے ہیں۔ان راستوں سے آگے بڑھنے پر ہلہلیا پنچایت پہنچتے ہیں، جوفاربس گنج بلاک اور اسمبلی حلقہ میں ہے۔ یہاں تیسرے مرحلہ میں سات نومبر کوووٹنگ ہونی ہے۔
ابھی اس گاؤں کے جس حصہ میں ہم ہیں، وہاں مسہر کمیونٹی کے لوگ زیادہ رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے نام میں‘رشی دیو’ جوڑتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ اب نہ صرف ان کا نام بدلا ہے بلکہ حلیہ بھی بدل گیا ہے۔ اب ان کے سر پر پگڑی آ گئی ہے اور ان تبدیلیوں کی وجہ ان کا پنجاب جانا ہے۔
‘سال 1985 کے آس پاس کی بات ہے، اس وقت ہم لوگ کمانے کے لیے پنجاب جاتے تھے۔ وہاں ہم نے سکھ مذہب کو جانا سمجھا، تو یہ اچھا لگا۔ اس میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا تھا۔ وہاں گرودوارہ جاتے تھے، تو ہمارے ساتھ کوئی تفریق نہیں ہوتی۔یہاں(ہلہلیا) ہمیں کافی امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم نے سکھ مذہب اپنا لیا،’ ہلہلیا کے گرودوارہ شری اکال سر صاحب کے سربراہ کشن سنگھ رشی دیو کہتے ہیں۔
اس گرودوارے کو سال 1985 میں بنایا گیا تھا، لیکن موجودہ شکل سال 2001 میں بنی تھی۔
وہ آگے کہتے ہیں،‘ہم لوگ ہندو مذہب میں ہی تھے، لیکن اعلیٰ کمیونٹی کے لوگ مسہر ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ امتیاز کرتے تھے۔ ہندومذہب میں وید، شاستر سب صحیح ہے۔ لیکن جو اس میں علم ہے، وہ مسہر سے ہونے کی وجہ سے ہم سے چھپایا جاتا ہے۔’
کشن سنگھ رشی دیو کے ساتھ ان کے ماموں سنجے سنگھ رشی دیو بھی پنجاب مزدوری کرنے گئے تھے اور انہوں نے بھی وہاں ‘امرتپان’ (سکھ مذہب اپنانے کا طریقہ)کیا تھا۔
وہ کہتے ہیں،‘ہم لوگ ہندو ہوکر بھی ہندو نہیں تھے۔ اس میں تعلیم حاصل کرنے کی برابری نہیں ہے۔ 15 فیصد لوگ 85 فیصد کا استحصال کرتے ہیں، لیکن سکھ مذہب میں ایسا نہیں ہے۔ گرودوارے میں بنا کسی امتیاز کے سب ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ جب ہم نے امرتپان کیا تو سب کے ساتھ ایک ہی جل سے امرتپان کرایا گیا تھا۔’
سنجے مقامی گرودوارے کے سکریٹری رہ چکے ہیں اور ابھی سات رکنی کمیٹی کے ممبر ہیں۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ ہلہلیا میں سب سے پہلے نارائن سنگھ رشی دیو نے سکھ مذہب کو اپنایا تھا۔
‘1984 میں جس وقت گولی کانڈ(آپریشن بلیو اسٹار)ہوا تھا، اس کے بعد ہم مزدوری کرنے گھر سے بھاگ کر پنجاب (لدھیانہ) گئے تھے۔ اس کے بعد 10 سال تک وہیں رہ گئے تھے، گھر نہیں آئے۔ جس گھر میں ہم نوکر تھے، اسی نے ہماری پڑھائی شروع کروائی،ہمارے مطالبے پر پر رامائن خریدکر پڑھنے کو دی۔ اس کے بعد گرگرنتھ صاحب بھی دیا۔ اس کے تین سال بعد میں نے گرودوارے میں خدمت کی اور پھر سکھ مذہب اپنا لیا،’ نارائن سنگھ رشی دیو کہتے ہیں۔
سال 2011 میں انہیں ہلہلیا کے لوگوں نے اپنا مکھیا بھی چنا تھا۔
جب نارائن سنگھ رشی دیو سے پوچھا کہ کیا سکھ مذہب اپنانے کے لیے کسی طرح کا لالچ بھی دیا گیا تھا، انہوں نے جواب دیا، ‘جب امرت دیتے ہیں، وہاں (گرودوارے) سب سے پوچھا جاتا ہے کہ کسی نے تمہیں بھیجا ہے یا خود اپنے من سے سکھ مذہب اپنا رہے ہو۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تمہارے اندر ذات پات اور اونچ نیچ کااحساس ہے تو چلے جاؤ یہاں سے۔’
نارائن آگے کہتے ہیں،‘جب میں 12 سال کا تھا تو گاؤں میں جنم اشٹمی کے دن ہم مسہر کے بچوں کو مورتی کے پاس بیٹھنے نہیں دیا گیا تھا۔ یہ بات مجھے چبھ گئی تھی۔ لیکن گرودوارے میں دیکھا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی سب کے ساتھ بیٹھ کر لنگر کھا رہے ہیں۔’
نارائن سنگھ بتاتے ہیں کہ جب وہ10 سال بعد واپس گاؤں آئے تھے تو بڑے بھائی ویریندر سنگھ رشی دیو نے اس کی مخالفت کی تھی۔ لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی۔ یہاں تک کہ بڑی ماں کی موت ہونے پر اپنے بال بھی نہیں ہٹوائے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس واقعہ کے تین مہینے بعد ان کے بڑے بھائی نے بھی امرتسر جاکر ‘امرتپان’ کیا تھا۔ آج کی تاریخ میں ہلہلیا کے 3500 گھروں میں سے 1000 گھر سکھ دھرم اپنا چکے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ صرف ہلہلیا ہی نہیں، بلکہ آس پاس کے کئی علاقے میں مسہر کے ساتھ دیگر کمیونٹی کے لوگوں نے بھی سکھ مذہب اپنایا ہے۔ ان میں مدھے پورہ، پورنیہ، کٹیہار کے کئی گاؤں شامل ہیں۔
مدھے پورہ کے گنگاپور کے اشوک منڈل سنگھ سال 1998میں چنڈی گڑھ روزی روٹی کی تلاش میں گئے تھے۔ ملاح کمیونٹی سے آنے والے اشوک وہاں ہارمونیم بنانے کا کام کرتے تھے۔ چنڈی گڑھ میں جن سردار جی کے یہاں کام کرتے تھے، ان کے ساتھ انہوں نے ہراتوار کو گرودوارے جانا شروع کیا اور سال 2002 میں‘امرتپان’ کیا۔
اشوک منڈل سنگھ بتاتے ہیں،‘گرودوارہ جانے کے دوران گروانی سن کر متاثر ہوا تھا اور مجھے لگا گرو گووند سنگھ سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔ سکھ مذہب سے بہتر کوئی مذہب نہیں ہو سکتا۔’
وہ آگے کہتے ہیں،‘میں اکیلا اپنے پریوار میں سکھ ہوں۔ میری بیوی کبیرپنتھ کی ہے۔ بیٹے نے بھی اب تک اسے نہیں اپنایا ہے۔ لیکن میں کسی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتا ہوں۔ جب گرو صاحب کی مہربانی ہوگی، تب وہ بھی اسے اپنا لیں گے۔’
چھیالیس سال کے بیچن سنگھ وشواس ارریہ ضلعے کے رانی گنج واقع بسیٹھی گاؤں میں رہتے ہیں اور پورنیہ کی گلاب باغ منڈی میں مال (مکئی سہت دیگر چیزیں)پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔
انہوں نے پنجاب کے جالندھر سے واپس آنے کے بعد سال 2016 میں ہلہلیا واقع گردوارہ میں ہی سکھ مذہب کو اپنایا تھا۔پسماندہ طبقہ سے آنے والے بیچن سنگھ کہتے ہیں،‘اس مذہب میں بھائی چارہ اچھا ہے۔ لوگوں کے بیچ محبت ہے۔ سب کچھ اچھا ہے۔ گھر میں سکھ مذہب اپنانے والے اکیلے ہیں، لیکن کوئی مخالفت نہیں ہے۔
حالانکہ بہاری گنج کے 56سالہ نریش سنگھ بھگت کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اس وقت راجستھان کے ہنومان گڑھ میں مزدوری کر رہے نریش نے دو سال پہلے ہلہلیا واقع گرودوارہ میں ہی‘امرتپان’ کیا تھا۔ اس کے بعد ان کے بھائیوں اور دیگر رشتہ داروں نے ان کی مخالفت شروع کر دی۔
فون پر ہوئی بات چیت میں نریش سنگھ بھگت نے بتایا، ‘کبیر پنتھ والے میری مخالفت کرتے ہیں۔ وہ سب کہتے ہیں کہ کبیر ہندو ہیں، انہیں چھوڑکر سکھ مذہب میں کیوں گیا؟ ان کی نظر میں یہ غلط ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسے چھوڑنا پڑےگا، لیکن ہم نے انکار کر دیا۔’
ان کے سکھ مذہب اپنانے کی کہانی بھی مزدوری کی تلاش میں پنجاب جانے سے جڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1983 میں وہ کمانے کے لیے گھر سے فیروزپور، پنجاب گئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ وہاں کے گرودوارے جانے لگے اور پھر دھیرے دھیرےخدمت کے کاموں میں بھی لگ گئے تھے۔ ‘اب آخری سانس تک سکھ ہی رہیں گے،’ وہ کہتے ہیں۔
وہیں، ہلہلیا کے 60 سالہ جرمنی رشی دیو کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ان کے 36 سالہ بیٹے پرکاش سنگھ رشی دیو نے سکھ مذہب اپنا لیا ہے۔
وہ کہتے ہیں،‘وہ پنجاب گیا، وہاں علم حاصل کیا اور سکھ مذہب اپنا لیا۔ اس میں غلط کیا ہے؟ اب گاؤں کے بچے پڑھنے لگے ہیں۔ گرودوارہ میں پڑھائی ہوتا ہے۔ اچھا کام ہو رہا ہے۔ ان کو پہلے سے زیادہ عزت ملتی ہے۔’
جرمنی سنگھ کے علاوہ دوسرے مقامی لوگ بھی کہتے ہیں کہ انہیں اس بات سے کوئی دقت نہیں ہے۔ حالانکہ، سنجے سنگھ رشی دیو کہتے ہیں، ‘شروعات میں کئی لوگوں نے جن میں اکثر اعلیٰ کمیونٹی کے تھے، انہوں نے مخالفت کی تھی۔ ان کے علاوہ دوسری کمیونٹی کے لوگ بھی کہتے تھے کہ یہ سر پر کیا باندھ لیے ہو، یہ سب یہاں نہیں چلےگا۔ پنجاب میں چلتا ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے اب سب نارمل ہو گیا۔ اب توخاص مواقع(گرو پورنیما یا بیساکھی) پر لنگر کا انعقادہوتا ہے تو لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔’
وہیں، سنجے سنگھ رشی دیو کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکھ دھرم اپنانے کے بعد انہوں نے جرم پر لگام لگانے کے لیے بھی کام کیا ہے۔
وہ بتاتے ہیں، ‘پہلے پنجاب اور دوسری جگہوں سے سکھ بھائی بہن گاؤں آتے تھے تو نہر کے پاس بنے پل پر (گاؤں سے 500 میٹر دور) ان کے ساتھ لوٹ پاٹ ہوتی تھی۔ اس کو روکنے کے لیے ہم نے رات رات بھر پہرہ دیا ہے۔ اب گاؤں میں چوری نہیں ہوتی ہے۔ گاؤں کے لوگوں میں بھی ایمانداری بڑھی ہے۔ کوئی بھی دوسرے کو جھوٹ بول کر ٹھگنے کا بھی کام نہیں کرتا ہے۔’
حالانکہ اپنے سرنیم کو لےکر یہ ابھی بھی پریشانیوں سے جوجھ رہے ہیں۔ سنجے سنگھ کہتے ہیں، ‘ہم اپنے دستاویزوں میں نام بدلنے کے لیے کئی باراہلکاروں کو کہہ چکے ہیں، لیکن ابھی تک ہمارا پرانا نام ہی درج ہے۔ کچھ لوگوں کا ہی نام بدلا ہے۔ ابھی ہم لوگ پرانے سرنیم کے ساتھ سنگھ لگاتے ہیں۔’
(مضمون نگارآزادصحافی ہیں۔)