امریکی صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالتے ہی سابق صدر ٹرمپ کی متعدد پالیسیاں منسوخ کردی ہیں جن میں مسلم ممالک پر عائد سفری پابندیاں شامل ہیں۔
جوبائیڈن نے امریکہ کے چھیالیسویں صدر کے عہدے کا حلف لینے کے فوراً بعد سابق صدر ٹرمپ کی کئی متنازعہ پالیسیوں کو منسوخ کرتے ہوئے پندرہ ایگزیکٹیو آرڈر جاری کیے جن میں کئی مسلم اور افریقی ممالک پر عائد سفری پابندیوں کا خاتمہ اور پیرس ماحولیاتی معاہدے کی بحالی شامل ہے۔
ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ کے مطابق ،صدر جو بائیڈن نے کہا، ”میں جن صدارتی حکم ناموں پر دستخط کررہا ہوں ان میں سے کچھ کووڈ انیس بحران کو تبدیل کرنے میں مدد کرنے والے ہیں، ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کا اس طریقے سے مقابلہ کریں گے جیسے اب تک نہیں کیا گيا اور نسلی مساوات کو فروغ دینے کے ساتھ پسماندہ طبقات کی حمایت کریں گے، یہ سب ابتدائی نکات ہیں۔‘‘
صدر بائیڈن کا کہنا تھا، ’’کام شروع کرنے کے لیے آج سے بہتر کوئی وقت نہیں۔‘‘نئے امریکی صدر کے دستخط سے جاری کیے جانے والے ابتدائی ایگزیکٹیو آرڈرز میں سے ایک کے ذریعے ان ایک درجن سے زائد مسلم اکثریتی ممالک پر عائد سفری پابندیوں کو ختم کردیا گیا ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ نے عائد کی تھیں۔
سابق صدر ٹرمپ نے جنوری 2017 میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر ہی ان ملکوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ابتدائی طور پر سات مسلم اکثریتی ممالک کو نشانہ بنایا گیا تھا، جن میں ایران، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن شامل تھے۔ جو بائیڈن نے ان پابندیوں کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیا۔
We're back in the Paris Climate Agreement.
— President Biden (@POTUS) January 21, 2021
صدرجو بائیڈن نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں پیرس ماحولیاتی معاہدے میں واپسی کا بھی فیصلہ کیا۔یہ معاہدہ سن 2015 میں صدر اوباما کے دورمیں ہوا تھا۔ اس کا مقصد دنیا میں گرین ہاوس گیسوں کے اخراج میں کمی لانا اور گرین انرجی میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے سن 2017 میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کرلیا تھا۔
اب تک 189 ممالک پیرس معاہدے کی توثیق کرچکے ہیں۔ جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے اندر ماحولیات کے موضوع پر ایک عالمی سربراہی کانفرنس بھی منعقد کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ کہ وہ رواں برس کے دوران ہی ایسی قانون سازی بھی کروانا چاہتے ہیں جس کے تحت سنہ 2050 تک امریکہ میں ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کو مجموعی طور پر صفر پر لایا جا سکے۔
صدر بائیڈن نے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی کوشش کے تحت ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعہ تمام وفاقی عمارتوں میں اور ریاستوں کے درمیان سفر کے دوران ماسک پہننے کو لازمی قرار دیا۔انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”جیسے میں پہلے سے کہتا آیا ہوں، جہاں میرے اختیارات ہیں، وہاں وفاقی املاک پر ماسک پہننا اور سماجی دوری رکھنا لازمی ہوگا۔”
بائیڈن نے امریکی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ ان کی صدارت کے ابتدائی کم از کم 100دنوں تک عوامی مقامات میں ماسک ضرور پہنیں۔خیال رہے کہ امریکہ میں کورونا وائرس سے اب تک چار لاکھ سے زیادہ افراد موت کا شکار ہوچکے ہیں۔
امریکی صدر نے امریکا کو عالمی ادارہ صحت سے باہر نکلنے پر بھی روک لگا دی۔ سابق صدر ٹرمپ نے ڈبلیو ایچ او پر چین کے ساتھ قربت کا الزام لگاتے ہوئے اس عالمی ادارے کو چھوڑ دیا تھا۔بائیڈن انتظامیہ اگلے دس دن کے دوران مزید 53 ایگزیکٹیو آرڈرز جاری کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جن میں سے کئی کا مقصد سابق صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کو واپس لینا ہے۔
صدر بائیڈن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ‘ہمیں بہت سے چیزوں کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہو گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس حوالے سے کانگریس سے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔
بائیڈن کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بتایا کہ پہلے دن کے فیصلے جو بائیڈن کے انتظامی اقدامات کا صرف آغاز ہے۔ ”آئندہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ہم ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے اضافی ایگزیکٹیو اقدامات کریں گے جو امریکی عوام کے لیے منتخب ہونے والے صدر کے امریکی عوام سے کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہیں۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ، ہر آنے والا امریکی صدر اسی طرح شروع کے دنوں میں بہت سارے حکم نامے جاری کرتا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی ایسا ہی کیا تھا تاہم ان کے کئی حکم ناموں کو بعد میں عدالت میں چیلنج کر دیا گیا تھا تاہم رون کلائین کا خیال ہے کہ جو بائیڈن کے جاری کردہ حکم ناموں کا وہ انجام نہیں ہو گا جو ٹرمپ کے حکم ناموں کا ہوا تھا کیونکہ نئے صدر قانون کی روح کو سمجھتے ہیں۔
(ڈی ڈبلیو اردو کے ان پٹ کے ساتھ)