امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کی انتخابی مہم کے لیے ان کی ٹیم نے ایک پالیسی پیپر جاری کیا ہے۔ اس میں بائیڈن نے آسام میں این آرسی نافذ کرنے اورسی اے اے کو لےکر بھی ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
نئی دہلی: امریکی صدارتی عہدےکے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ امیدوار اور سابق نائب صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان تمام کشمیریوں کے حقوق کو بحال کرنے کےلیے ضروری قدم اٹھائے جائیں۔انہوں نے آسام میں این آر سی نافذ کرنے کے ساتھ ہی شہریت قانون (سی اے اے) کو لےکر ناراضگی کا اظہار کیا۔
جوبائیڈن کی انتخابی مہم سے متعلق ویب سائٹ پر حال ہی میں ان کے پالیسی پیپر‘جوبائیڈن ایجنڈہ فار مسلم امریکن کمیونٹی’میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں کثیر نسلی اورکثیر مذہبی جمہوریت بنائے رکھنے اور سیکولرازم کی پرانی روایت کو دیکھتے ہوئے یہ قدم بےتکا ہے۔ہندو امریکیوں کے ایک گروپ نے اس پالیسی پیپر کی زبان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی زبان ہندوستان مخالف ہے۔
اس گروپ نےبائیڈن کے انتخابی مہم کی ٹیم سےرابطہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پر دوبارہ غور کیا جانا چاہیے۔ گروپ نے ہندو امریکی شہریوں کے لیے بھی اسی طرح کا پالیسی پیپر لانے کا مطالبہ کیا۔حالانکہ، اس سلسلے میں بائیڈن کی انتخابی مہم کی ٹیم نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔بائیڈن کے پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلم اکثریتی ممالک اور اچھی خاصی مسلم آبادی والے ممالک میں جو ہو رہا ہے اس کو لےکر امریکی مسلمانوں کا درد سمجھتے ہیں۔
اس پالیسی پیپر میں ہندوستان میں کشمیر اور آسام سے لےکرمغربی چین میں لاکھوں مسلمانوں کو جبراً حراست میں رکھنے اور میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف زیادتی کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔پالیسی پیپر میں کہا گیا، ‘حکومت ہندکو کشمیر کے تمام شہریوں کے حقوق کو بحال کرنے کے لیے ضروری قدم اٹھانے چاہیے۔ پرامن مظاہروں کودبانا یا انٹرنیٹ بند کرنا جمہوریت کو کمزور کرتا ہے۔’
جوبائیڈن نےحکومت ہندکے ذریعے آسام میں این آر سی لانے اورسی اے اے کو لےکرمایوسی کا اظہار کیا ہے۔پالیسی پیپر میں کہا گیا ہے کہ کئی دہائیوں سے امریکہ کے رکن پارلیامان اور آٹھ سالوں تک براک ابامہ کی مدت کار میں نائب صدر کے عہدے پر رہنے والےبائیڈن کو ہندوستان اورہندنژاد امریکیوں کے اچھے دوستوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
انہوں نے ہندوستان امریکہ سول جوہری معاہدے میں اہم رول ادا کیا تھا اور نائب صدرکے طور پر ہر سال 500 ارب ڈالر تک دوطرفہ تجارت کی پیروی کی تھی۔ان کے حامی اجئے جین بھٹوریا نے کہا، ‘جوبائیڈن ہندوستان پر اثر انداز معاملوں، سرحد پاردہشت گردی، کشمیر میں سرحد پار سے دہشت گردی، کشمیر میں مظلوم ہندو اقلیت،انسانی حقوق کی لڑائی، موسمیاتی تبدیلی اور عالمی سلامتی سمیت سبھی شعبوں میں امریکہ کے مضبوط معاون کے طور پر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے رول کو سمجھتے ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے حال ہی میں اپنے ملازمین کے تحفظ کے لیے ایچ 1بی اور دوسرے ویزا پر عارضی پابندی لگا دی تھی۔ہندوستان کو بھی اپنی آبادی اور معیشت کی حمایت میں امیگریشن پالیسی کی وضاحت کرنے کا حق حاصل ہے۔انہوں نے کہا، ‘میں آسام کے گوہاٹی میں پلا بڑھا ہوں اور میں نے سرحد پار سے بڑی تعداد میں لوگوں کو آتے دیکھا ہے اور نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں مقامی لوگوں سے اہم نوکریاں، وسائل چھنتے ہوئےدیکھا ہے۔’
واضح ہو کہ ہندوستان نے پانچ اگست 2019 کو جموں وکشمیر کا خصوصی ریاست کا درجہ ختم کر کے اس کو دو یونین ٹریٹری لداخ اور جموں وکشمیر میں منقسم کر دیا تھا۔ہندوستان نے یہ کہتے ہوئے اپنے قدم کا بچاؤ کیا تھا کہ یہ اس کاداخلی معاملہ ہے اور اس خصوصی درجے کے اہتمام سے ہی جموں وکشمیر میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا ہے۔
حکومت ہند نے پارلیامنٹ کے ذریعےپاس سی اے اے کو بھی داخلی معاملہ بتاتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد پڑوسی ممالک کی مظلوم اقلیتوں کوتحفظ دینا ہے۔اس کے تحت 31 دسمبر 2014 تک پاکستان، افغانستان اور بنگلادیش میں استحصال کا شکار ہو رہے ہندو، عیسائی، سکھ، بودھ، پارسی اور یہودی اقلیتوں کو ہندوستان کی شہریت دینے کااہتمام ہے۔
وہیں، آسام میں این آر سی لانے کو لےکر ہندوستان کا کہنا ہے کہ یہ پوری طرح سے داخلی معاملہ ہے، جس کو سپریم کورٹ کی دیکھ ریکھ میں کیا گیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)