بی ایچ یو کے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان میں مسلمان پروفیسر کی تقرری کا معاملہ : مظاہرے کی قیادت کر رہے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان کے ایک اسٹوڈنٹ کرشن کمار کا کہنا ہے کہ ، ‘اگر کوئی شخص ہمارے جذبات یا ثقافت سے وابستہ نہیں ہے تو ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟
نئی دہلی : بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان(ایس وی ڈی وی) میں 11 دن پہلے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پرتقرری پانے والے فیروزخان گزشتہ چند دنوں سے انڈرگراؤنڈ ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سنسکرت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے فیروز خان کا موبائل سوئچ آف بتا رہا ہے۔قابل ذکر ہے کہ اس سے پہلے، سوموار کو بی ایچ یو میں سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان کے 20 اسٹوڈنٹس نے فیروز کی تقرری کی مخالفت کرتے ہوئے وائس چانسلر کے دفتر کے باہرمظاہرہ کیا۔ یہاں ایک ‘ہون کنڈ’ بھی بنایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، خان اپنے خلاف ہو رہے مظاہرہ کو لے کر مایوس ہیں اور انہیں امید ہے کہ اسٹوڈنٹس واپس آئیں گے۔ فیروز خان نے انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں کہا، ‘میں نے پوری زندگی سنسکرت کی تعلیم حاصل کی ہے لیکن مجھے کبھی احساس نہیں دلایا گیا کہ میں مسلمان ہوں۔ اب میں پڑھانا چاہتا ہوں تو اچانک سے یہ مدعا بنا دیا گیا ہے۔’
غورطلب ہے کہ خان ،شاستری (گریجویشن)، شکشا شاستری (بی ایڈ)، آچاریہ (پوسٹ گریجویشن) کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں۔ انہوں نے 2018 میں جے پور واقع راشٹریہ سنسکرت سنستھان سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیٹ اور جے آر ایف بھی کوالیفائی کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے دوسری کلاس سے سنسکرت پڑھنی شروع کر دی تھی، لیکن کسی نے اعتراض نہیں کیا یہاں تک کہ باگرو (جے پور سے 30 کیلو میٹردور)واقع میرے محلے میں 30 فیصدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ نہ تو مقامی علماء نے کچھ کہا اور نہ ہی کسی اور نے مخالفت کیا۔ جتنا میں سنسکرت لٹریچرکے بارے میں جانتا ہوں، اتنا تو میں قرآن کے بارے میں بھی نہیں جانتا۔ میرے علاقے کے رہنے والے بااثر ہندو ؤں نے میرے مسلمان ہونے کے باوجود میرے سنسکرت کے علم کی تعریف کی۔’رپورٹ کے مطابق فیروز خان کے والدمضان خان بھی سنسکرت میں گریجویٹ ہیں۔
دریں اثنا، تین دوسرے طالبعلموں کے ساتھ مظاہرے کی قیادت کر رہے سنسکرت ودیالیہ دھرم وگیان سنستھان کے ایک ریسرچ اسٹوڈنٹ کرشن کمار نے کہا، ‘اگر کوئی شخص ہمارے جذبات یا ثقافت سے وابستہ نہیں ہے تو ہمیں اور ہمارے مذہب کو کیسے سمجھے گا؟’مظاہرہ کر رہے باقی طلبا کے نام ششی کانت مشرا، شبھم تیواری اور چکر پانی اوجھا ہیں۔
مشرانے اس بات سے انکار کیا ہے کہ مظاہرہ کے پیچھے کسی سیاسی تنظیم کا ہاتھ ہے۔ حالانکہ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اس سے پہلے آر ایس ایس کے ممبر رہ چکے ہیں۔ وہیں، اوجھا اے بی وی پی جبکہ تیواری اے بی وی پی اور کیندریہ براہمن مہاسبھا کے ممبر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ،بی ایچ یو انتظامیہ ایس وی ڈی وی طلبا کو یہ سمجھانے میں ناکام رہی ہے کہ سنسکرت لٹریچرکی تعلیم کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔خان کی اس کو بات کو بہت تکلیف سے بیان کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا،وہ طلبا جو اس دلیل کے ساتھ احتجاج کر رہے ہیں کہ میں مسلمان ہوں تو میں ہندو مذہب کی تعلیم کس طرح دے سکتا ہوں ، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شعبہ ادب میں ، ہمیں سنسکرت ادب کی فنی رموز اور ابھیگیان شکنتلام ، اتر رام چریتم جیسے معروف ڈراموں کے بارے میں مطالعہ کرنا ہوگا یا مہاکویہ جیسے کہ رگھوونش مہاکاویہ یا ہرش چریتم اور اس سب کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
وہیں خان کے سابق استاد ارک ناتھ چودھری ،( پرنسپل راشٹریہ سنسکرت سنستھان،جئے پور) نے کہا کہ فیروزنے میرے زمانے میں یونیورسٹی جوائن کیا۔وہ فیروز خان کو خوش مزاج ، مخلص اور ملنسار انسان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ چودھری ، جو گجرات کے ویروال ، شری سومناتھ سنسکرت یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں ،انہوں نے اپنے شاستری کورس کے آخری سال میں خان کو پڑھایا ہے۔
دریں اثنا نیوز 18 کی ایک خبر کے مطابق، بنارس ہندو یونیورسٹی کے سنسکرت ودیا دھرم وگیان میں گزشتہ 12 دنوں سے پڑھائی لکھائی پوری طرح سے بندہے اورطلبا دھرنےپر بیٹھے ہیں۔اسسٹنٹ پروفیسر فیروز خان کی تقرری کی مخالفت کر رہے طلبااوریونیورسٹی انتظامیہ کے بیچ کئی دور کی بات چیت ناکام ہو چکی ہے۔
اس سے پہلے بھی بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو)کے سنسکرت ودیا دھرم وگیان فیکلٹی میں مبینہ طور پر ایک مسلمان اسسٹنٹ پروفیسر کی تقرری کی مخالفت میں طلبا دھرنادیا تھا۔طلبا کی مانگ ہے کہ اس تقرری کو ردکیا جائے۔ اس معاملے پر وضاحت جاری کرتے ہوئے بی ایچ یو نے کہا تھاکہ ،انہوں نے وائس چانسلر کی صدارت میں ایک شفاف اسکریننگ پروسس کے ذریعے سب سے اہل امیدوار کی متفقہ طور پرتقرری کی ہے۔
یونیورسٹی نے کہا تھاکہ اس ادارےکا قیام مذہب،ذات، کمیونٹی اورجنس کی بنیاد پر بنا کسی تفریق کے نیشن بلڈنگ کے مقصد سے سبھی کو یکساں مواقع دیے جانے کی سوچ کے ساتھ کیا گیا تھا۔
مظاہرے میں شامل ایک اسٹوڈنٹ پنیت مشرا نے کہاتھا کہ بی ایچ یو کے بانی مدن موہن مالویہ کے قدروں کی حفاظت کرنے کے لیے دھرنا کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ سنسکرت فیکلٹی میں لگے سلیب پر لکھا ہے کہ جین، بودھ اور آریہ سماج سے جڑے لوگوں کو چھوڑکر کوئی بھی غیر ہندو اس شعبہ سے نہیں جڑ سکتا۔
مشرانے کہاتھا، ‘ہم ان کی(مسلم پروفیسر)مخالفت نہیں کر رہے ہیں بلکہ مہامنا (مالویہ)کے قدروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہم مہامنا کے قدروں کے لیے لڑ رہے ہیں۔’اس مظاہرے کی قیادت کر رہے پی ایچ ڈی اسکالر شبھم تیواری نے خان کی تقرری کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ رشوت لینے کے بعد سنسکرت فیکلٹی میں ایک نااہل شخص کی تقرری کی گئی۔
تیواری نے کہاتھا، ‘جب ایک شخص کی تقرری کی جاتی ہے تو وہ 65 کی عمر تک پڑھاتا ہے۔ اتنے سالوں میں بہت سارے بچہ پڑھنے آئیں گے۔ ان بچوں کا مستقبل برباد ہو جائےگا۔’شعبہ کے اسسٹنٹ پروفیسر رام نارائن دویدی نے مسلم شخص کی تقرری میں سلیکشن کی کارروائی کی پیروی نہیں کرنے کےطلبا کے الزاموں کو خارج کرتے ہوئے کہا، ‘ضابطے کے مطابق انتخاب ہوا۔ طلبا کی مخالفت غیر مناسب ہے۔’
بی ایچ یو نے کہا کہ طلبا نے اسکریننگ کمیٹی کی میٹنگ میں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ انتظامیہ نے قبول کیا کہ سنسکرت ودیا دھرم وگیان فیکلٹی کے شعبہ ادب میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر مسلمان امیدوار کی تقرری کو لے کرمظاہرہ کیا گیا۔