بھیماکورے گاؤں تشدد معاملے میں پونے پولیس نے منگل کو ڈی یو کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہینی بابو کے نوئیڈا واقع گھر پر چھاپے ماری کی ۔ بابو کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس چھاپہ مارنے کا وارنٹ نہیں تھا۔
ڈی یو پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی، فوٹو: Special Arrangement
پونے پولیس نے منگل کو دہلی یونیورسٹی(ڈی یو)کے پروفیسر ہینی بابو ایم ٹی کے اتر پردیش میں نوئیڈاواقع گھر پر 2017 کے ایلگار پریشد معاملے میں چھاپے ماری کی۔ 45 سالہ بابو ڈی یو میں انگریزی پڑھاتے ہیں۔منگل صبح 6 بجے پونے پولیس کے 12 سے زیادہ افسر نوئیڈا میں ان کے گھر پہنچے اور تقریباً6 گھنٹے تک ان کے گھر کی تلاشی لی۔
اس وقت بابو کے ساتھ گھر پر ان کی اہلیہ جینی رووینا، جو ڈی یو کے مرانڈا ہاؤس کالج میں پڑھاتی ہیں، اور ان کی بچی بھی موجود تھے۔بابو نے دی وائر کو بتایا کہ اس تلاشی کے دوران انہیں گھر سے باہر نہیں نکلنے دیا گیا نہ ہی کسی سے رابطہ کرنے دیا گیا۔ بابو کا کہنا ہے کہ پولیس کے پاس چھاپے ماری کا وارنٹ نہیں تھا۔
انہوں نے کہا، ‘انہوں نے صبح تقریباً8 بجے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھیما کورےگاؤں معاملے کے بارے میں کچھ پوچھ تاچھ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے میرا لیپ ٹاپ، موبائل فون، جی این سائی بابا ڈیفنس کمیٹی کی جانب سے شائع دو کتابچہ اور دو کتابیں ضبط کی ہیں۔’ان کتابوں میں سے ایک یالورتی نوین بابو کی‘فارم ورن ٹو ذاتی: پالیٹکل اکانومی آف کاسٹ ان انڈین سوشل فارمیشن اور این وینوگوپال کی انڈراسٹینڈنگ ماؤئسٹس: نوٹس آف پارٹی سپینٹس آبزرور ی فارم آندھر پردیش شامل ہیں۔
بابو کو ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ اور ای میل استعمال کرنے سے بھی روکا گیا ہے۔ جینی کا کہنا ہے، ‘اور یہ سب سرچ وارنٹ کے بغیر کیا گیا۔’
دی وائر نے اس جانچ ٹیم کے چیف شیوجی پوار سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔حالانکہ خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق پولیس کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ بابو کے مبینہ ماؤوادی رابطے کو لے کر یہ چھاپے ماری کی گئی۔اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے شیواجی پوار نے کہا کہ ان کےذریعے کوئی گرفتاری نہیں کی گئی ہے۔پوار نے کہا، ‘ہم نے پونے کے وشرام باغ پولیس تھانے میں درج ایلگار پریشد سے متعلق معاملے کے سلسلے میں نوئیڈواقع بابو کے گھر پر چھاپہ مارا۔’انہوں نے بتایا کہ پولیس نے کچھ الکٹرانک وسائل برآمد کیے ہیں۔ ابھی تفصیل کا انتظار ہے۔
بابو ذات پات کی مخالفت میں بولڈ ہوکراپنی رائے رکھنے کے لئے جانے جاتے ہیں اور جی این سائی بابا ڈیفنس کمیٹی کے فعال رکن بھی ہیں۔ واضح ہوکہ ڈی یو کے پروفیسر جی سین سائی بابا کو ماؤوادی تحریک سے مبینہ طور پر جڑے ہونے کا قصور وار پایا گیا تھا۔ جسمانی طور پر90 فیصدی معذور سائی بابا اس وقت ناگپور سینٹرل جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
بابو کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں چل رہے ہیومن رائٹس موومنٹ کے فعال ممبر رہے ہیں، اس لئے کئی بار ان کا رابطہ قیدیوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے سماجی کارکن رونا ولسن اور یواے پی اے کے ماہر وکیل سریندر گاڈلنگ سے ہوا ہے۔غور طلب ہے کہ ان دونوں کو پچھلے سال بھیما کورے گاؤں معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس کا دعویٰ تھا کہ یہ ماؤوادی تحریک سے جڑے ہیں۔بابو نے آگے بتایا، ‘میں نے کئی بار پوچھا کہ یہ سب (تلاشی)کس بارے میں ہے۔
پولیس نے کہا کہ وہ بھیما کورے گاؤں معاملے کی جانچ کے سلسلے میں ہے اور کیونکہ میرا نام اب تک ملزموں میں نہیں ہے، تو میں مشکوک ہوں۔ وہ اس سے زیادہ کچھ بتانے کو تیار نہیں تھے۔’بابو کا کہنا ہے کہ پولیس کا ان کے یہاں چھاپہ مارنا عجیب ہے، لیکن چونکانے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ‘جس طرح ملک میں پولیس کے ذریعے سماجی کارکنوں اوردانشوروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، مجھے اس پر حیرت نہیں ہے۔ اگر میں نہیں ہوتا، تو وہ کسی اور کے پیچھے جاتے۔’
قابل ذکر ہے کہ پونے کی تاریخی شنیوار واڑا میں31 دسمبر 2017 کو کورےگاؤں بھیما لڑائی کی 200ویں سالگرہ سے پہلے ایلگار سمیلن منعقد کیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق اس تقریب کے دوران دیے گئے خطابات کی وجہ سے ضلع کے کورےگاؤں بھیما گاؤں کے آس پاس ایک جنوری 2018 کو تشدد بھڑکی جس میں ایک شخص کی موت ہو گئی اور کئی دوسرے زخمی ہو گئے۔پولیس نے اس معاملے میں اب تک 9 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔گزشتہ سال 6 جون کو پونے پولیس نے ماؤوادیوں سے جڑاؤ کا الزام لگاتے ہوئے تین الگ الگ شہروں سے پانچ سماجی کارکنوں کو حراست میں لیا تھا۔
پولیس کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نکسلی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ یہ گرفتاریاں ممبئی، ناگپور اور دہلی میں ہوئی تھیں۔گرفتار کئے جانے والوں میں سماجی کارکنوں اور پالیٹیکل میگزین ‘ ودروہی’کے مدیرسدھیر دھاولے، حقوق انسانی کے وکیل سریندر گاڈلنگ، سماجی کارکن مہیش راؤت، ناگپور یونیورسٹی کی پروفیسر شوما سین اور دہلی کے سماجی کارکن رونا ولسن تھے۔اس کے بعد اگست میں دوسرے پانچ سماجی کارکنوں کو
حراست میں لیا گیا تھا۔ ان میں حقوق انسانی کی وکیل سدھا بھاردواج، سماجی کارکن ویرنان گونجالوس، پی ورورا راؤ، ارن پھریرا اورصحافی گوتم نولکھا شامل تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں پولیس نے 5000 صفحات کی
چارج شیٹ دائر کی تھی، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کے ممنوعہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ماؤوادی)سے ‘فعال رشتے’ہیں اور اس کی مدد سے 31 دسمبر 2017 کو پونے میں بھیما کورے گاؤں شوریہ دوس پریرنا ابھیان کے بینر تلے ‘ایلگار پریشد’ کا انعقاد کیا تھا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ پونے کے شنیوارواڑا علاقے، جو عام طور پر برہمن اکثریتی مانا جاتا ہے، میں ہوئی اس ثقافتی مجلس نے مہاراشٹر بھر کے دلت نوجوانوں کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور ‘برہمن پر مبنی آر ایس ایس’ کے خلاف بھڑکایا، جس کانتیجہ پوری ریاست میں ہوئے تشدد کے طور پر نکلا۔ ان کے مطابق ایلگار پریشد میں کی گئی تقاریر مبینہ طور پر بھڑکاؤ تھیں اور ان کا مقصد ‘ملک کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان’ پہنچانا تھا۔اس کے بعد اس سال کی شروعات میں پولیس کے ذریعے ایک
اضافی چارج شیٹ دائر کی گئی، جس میں بعد میں گرفتار کئے گئے کارکنوں اور وکیلوں کے جرم میں شامل ہونے کی بات کہی گئی، ساتھ ہی ماؤوادی رہنما گنپتی کو ایلگار پریشد کا ماسٹرمائنڈ بتایا گیا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)