مہاراشٹر کی شیوسینا-این سی پی-کانگریس حکومت کے ذریعے بھیماکورےگاؤں تشدد معاملے کے ملزمین کے خلاف فردجرم کے تجزیہ کے لئےکئے گئے اجلاس کے ایک دن بعد جمعہ کو مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کو این آئی اے کو سونپ دیا۔
نئی دہلی: مہاراشٹر کی شیوسینا-این سی پی-کانگریس حکومت کے ذریعے بھیما-کورےگاؤں تشدد معاملے کے ملزمین کے خلاف فردجرم کےتجزیہ کےلئے کئے گئے اجلاس کے ایک دن بعد جمعہ کو مرکزی وزارت داخلہ نے معاملے کی جانچ این آئی اے کو سونپ دیا۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، مرکزی وزارت داخلہ کےاس فیصلے کے بعد مہاراشٹر کی شیوسینا-این سی پی-کانگریس حکومت اور مرکزی حکومت میں تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔
31 دسمبر، 2017 کو پونےمیں ایلگار ریشد کے اجلاس میں لوگوں کو مبینہ طور پر اکسانے کے لئے نو ہیومن رائٹس کارکنوں اور وکیلوں کو مہاراشٹر پولیس نے 2018 میں گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کارکنان اور وکیلوں نے لوگوں کو اکسایا اور اگلے دن بھیماکورےگاؤں میں تشدد ہوا۔
ریاستی حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ اگر پونےپولیس الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی تو معاملہایس آئی ٹی کو سونپا جا سکتا ہے۔ این سی پی صدر شرد پوار نے بھی مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو ایک خط لکھا تھا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ پچھلی بی جے پی حکومت نے ملزمین کو پھنسانے کی سازش رچی تھی اس لئے ریاست اور پولیس کے ذریعےاقتدار کے غلط استعمال کی وجہ سے معاملے کا تجزیہ ضروری ہے۔
اس کے بعد مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکرے نےاین سی پی کے ایک وفد کو مطمئن کرتے ہوئے کہا کہ بھیما کورےگاؤں تشدد معاملے میں دلت کارکنان کے خلاف دائر مجرمانہ معاملوں کو جلد سے جلد واپس لیا جائےگا۔اس معاملے میں گرفتار کئے گئے نو لوگوں میں رونا ولسن، شوما سین، سریندر گاڈلنگ، مہیش راوت، سدھیر دھولے، سدھا بھاردواج،ورورا راؤ، ورنان گونسالویس اور ارون فریرا ہیں۔
Without consulting Maharashtra government, the decision of Central Government, abruptly handing over #BhimaKoregaon case to #NIA is unconstitutional and against the federal structure of Union of India We strongly condemn it.
— Balasaheb Thorat (@bb_thorat) January 24, 2020
ایڈیشنل چیف سکریٹری سنجے کمار نے تصدیق کی کہ مرکزی وزارت داخلہ سے جانچکی منتقلی کے بارے میں ایک خط موصول ہوا ہے۔مرکزی حکومت کے اس فیصلے سے وفاقی نظام اور این آئی اے قانون پر بحث بڑھنے کا امکان ہے کہ یہ قانون آئین کے وفاقی ڈھانچے کی خلاف ورزی کرتا ہے یا نہیں کیونکہ این آئی اے ایکٹ ایجنسی کو کسی بھی ریاست میں درج جرم کےمعاملے میں ریاستی سرکار کی اجازت کے بغیر مقدمہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
بتا دیں کہ، کانگریس قیادت والی چھتیس گڑھ حکومت نے اس مہینے کی شروعات میں این آئی اے قانون کی آئین سازی کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج دیا ہے۔
I strongly condemn the decision to transfer the investigation of "Koregaon-Bhima" case to NIA, by the Central Government without any consent of Maharashtra State Government..@PMOIndia@HMOIndia@PawarSpeaks@supriya_sule pic.twitter.com/Ov8PZlSknG
— ANIL DESHMUKH (@AnilDeshmukhNCP) January 24, 2020
وہیں، اس پورے واقعہ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئےمہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیش مکھ نے جمعہ کی شام کو ٹوئٹ کیا کہ مہاراشٹر میں شیوسینا-این سی پی-کانگریس کی نئی حکومت نے ‘معاملے کی تہہ تک ‘جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد مرکز نے یہ فیصلہ کیا۔ این سی پی سے جڑے وزیر نے کہا، ‘ میں اس فیصلے کی مذمت کرتا ہوں۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔ ‘واضح ہو کہ، ایلگار پریشد کے معاملے سے ہی پونےپولیس نے ‘ اربن نکسل ‘ لفظ کا استعمال کیا تھا۔ پولیس نے کہا تھا کہ ان گرفتارملزمین میں سے ایک، دہلی واقع کارکن رونا ولسن کا ایک خط ملا ہے، جس میں مبینہ طورپر وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کی سازش کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)