جب راہل گاندھی نے یہ یاترا شروع کی تو ان کے ناقدین نے اسے ایک اور غیر سنجیدہ پیش قدمی قرار دینے کی کوشش کی۔ اور جب اس کو عوامی حمایت حاصل ہونے لگی تو کہا جانے لگا کہ ابھی 2024 کے انتخابات دور ہیں، تب تک اس کا اثر زائل ہو جائے گا۔
استادوں کا کہنا ہے کہ سفر میں برکت ہو تی ہے۔ اس سے وہ علم و حکمت اور تجربات حاصل ہوتے ہیں، جو کئی ہزار کتابیں پڑھنے یا کسی مدرسہ یا یونیورسٹی کے کلاس روم میں حاصل کرنا محال ہے۔ اسی لیے شایدپرانے زمانے میں پیغمبر، صوفی بزرگ اور علم و روحانیت کے متلاشی افراد دوردراز ممالک کی سیاحت کرنے کے لیے سفر پر نکلتے تھے۔ سکھ مذہب کے بانی گورو بابا نانک نے تو اپنی زندگی کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔
کالج میں سیاسیات کے میرے ایک پروفیسر صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ اگر آپ واقعی کثیرجہتی ہندوستان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفر کریں۔ آپ کو ملک اور اس کے لوگو ں کی نبض کا پتہ چل جائے گا۔ سفر اور سیر و سیاحت کی اس روایت کو زندہ کرتے ہوئے، آج کل ہندوستان میں اپوزیشن کانگریس پارٹی کے لیڈر راہل گاندھی ملک کے طول و عرض کا پیدل سفر کر رہے ہیں۔
بحر ہند کے ساحل پر انتہائی جنوبی پوائنٹ کنیا کماری سے یہ سفر شروع کرکے وہ ابھی حال ہی میں سودن میں تین ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے
نئی دہلی پہنچے اور اگلے مرحلے میں اب اس ماہ کے آخر تک جموں و کشمیر کے دارالحکومت سرینگر میں اس سفر کا اختتام کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ 2014 سے دو پارلیامانی انتخابات اور 40کے قریب مختلف ریاستی انتخابات میں کراری شکست کے بعد ان کو لگا ہے کہ ہندوستان کو ایک بار اور دریافت کرنا چاہیے۔ آخر ملک میں ایسی کیا تبدیلی آئی ہے کہ ان کی کانگریس پارٹی کے انتخابی نشان ہاتھ کا کوئی ہاتھ پکڑے والا نہیں ہے؟
ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے آزادی سے قبل احمد نگر کے قلعہ کی جیل میں تاریخی کتاب ڈسکوری آف انڈیایعنی ہندوستان کی دریافت یا کھوج ایک کتاب لکھی تھی۔ ان کے پڑ پوتے یعنی راہل گاندھی اس سے کئی قدم آگے بڑھاتے ہوئے عملی طور پر ہندوستان کو کھوجنے کے لیے قریہ قریہ گلی گلی ملک کے جنوبی سرے سے شمالی سرے تک پیدل مارچ کر رہے ہیں۔
کسے معلوم تھا کہ ستر سالوں کے بعد ملک میں حکومت کر چکی اور اس خطے کی پہلی سیاسی جماعت کانگریس کی حالت ایسی ہو جائےگی کہ اس کے لیڈران کوہندوستان کو ایک بار پھر دریافت کرنا پڑے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ راہل گاندھی کے اس سفر جس کو ‘بھارت جوڑو یاترا’ کا نام دیا گیا ہے، پارٹی کو از سر نو منظم کرنے کے علاوہ سول سوسائٹی کے افراد کے ساتھ مل بیٹھنے کی ایک کاوش ہے۔ اس کے علاوہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے سخت گیر ہندو توا نظریہ کے مخالفین کو منظم کرکے اس کے خلاف ایک نظریاتی محاذ بنانے کی تگ و دو ہے۔
اپنے اس سفر میں راہل ہر روز نہ صرف عام لوگو ں سے بلکہ کانگریس پارٹی کے ان سابق کارکنان اور خیرخواہ سے بھی مل رہے ہیں جو پارٹی سے امید کھو چکے تھے۔پارٹی کی پے درے پے ہار سے یہ سبھی ناامید ہو چکے تھے۔۔ خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ ایند اینالیسز ونگ یعنی راء کے سابق سربراہ امر جیت سنگھ دلت کے علاوہ جنوبی ہندوستان کے فلم اداکار کمل ہاسن سے لےکر شہری حقوق کے کارکن یوگیندر یادو تک نے ان کے مارچ میں شرکت کی۔
جب راہل نے یہ یاترا شروع کی تو ان کے ناقدین نے اسے ایک اور غیر سنجیدہ پیش قدمی قرار دینے کی کوشش کی۔ اور جب اس کو عوامی حمایت حاصل ہونے لگی تو کہا جانے لگا کہ ابھی 2024 کے انتخابات دور ہیں، تب تک اس کا اثر زائل ہو جائےگا۔
اس دوران راہل گاندھی کی بدلی ہوئی شکل و صورت پر بھی آوازیں کسی گئیں۔ ان کی بڑی ہوئی داڑھی مونچھیں کی وجہ سے ان کو عراق کے ڈکٹیٹر صدام حسین سے تشبیہ دی گئی۔ اس یاترا کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ ایک طویل مدت کے بعد کانگریس نے نظریاتی طور پر بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کیا۔
اس سے قبل خاص طور پر راہل گاندھی بی جے پی کے سخت گیر ہندو توا کے مقابلے نرم ہندو توا کے علمبردار بن گئے تھے۔ اس لیے ان کو بی جے پی کی ‘بی’ ٹیم سے بھی تشبہہ دی جاتی تھی۔ سوال کیے جاتے تھے، اگر عوام کے پاس بغیر ملاوٹ کے ہندو توا موجود ہے، اور اگر ان کو اسی پر ووٹ کرنا ہے، تو وہ کیوں ملاوٹ والے ہندو توا کی طرف جائیں گے۔
خیر لگتا ہے کہ کانگریس کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ نظریاتی طور پر بی جے پی اور اس کے لیڈر نریندر مودی کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
راہل پولرائزیشن کی سیاست پر سیدھا حملہ کرتے ہیں اور یہ نعرہ دیتے ہیں کہ وہ اس کثیر جہتی، اور رنگا رنگ تہذیب اور مختلف مذاہب والے ملک کو متحد کرنے کے لیے نکلے ہیں۔ بی جے پی کے لیڈران کا کہنا ہے کہ راہل تو ہندوستان کو متحد کرنے نکلے ہیں، مگر مودی تو پوری دنیا کوہندوستان کی لیڈرشپ کے تحت متحدکرنے نکلے ہیں۔
ان کا کہنا ہے اس سال ہندوستان گروپ 20ممالک یعنی جی 20کی صدارت کر رہا ہے اور اسی سال ستمبر میں نئی دہلی میں اس کے رہنماؤں کے چوٹی کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے۔ اس پر اتنا طوفان بدتمیزی کھڑا کیا گیا ہے کہ جیسے اقوام عالم میں مودی نے ہندوستان کو کوئی بڑی سیٹ دلوائی ہے۔
اب ان سے کون کہے کی جی 20کی سربراہی ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے اور اس گروپ کا کوئی سکریٹریٹ بھی کہیں نہیں ہے۔ اس سال یہ صدارت برازیل اور پھر اگلے سال جنوبی افریقہ کے پاس جائے گی۔ اس سے قبل اس گروپ میں شامل ہر کسی ملک کے پاس یہ صدارت رہی ہے۔
نہ صرف جی20کی سربراہی بلکہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر اور اس کو درشن کے لیے اگلے سال جنوری میں کھولنا، مودی کی ذاتی حصولیابیاں بتائی جا رہی ہیں۔ راہل گاندھی کے لیے سب سے بڑا چیلنج اس بیانیہ کا توڑ کرنا ہوگا۔ اس دوران سب سے اہم بات یہ ہو گئی ہے کہ رام مندر کےمہنت اور اس کے دیگر ذمہ داروں نے بھی راہل گاندھی کی یاترا کی حمایت کی ہے، جس سے لگتا ہے کہ اس پیدل مارچ نے کہیں نہ کہیں یا تو ہندو توا کے نظریہ میں سوراخ کردیا ہے، یا بی جے پی کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچایا ہے۔
اب کیا یہ یاترا انتخابی طور پر کانگریس کو فائدہ پہنچائے گی، یہ وقت ہی بتائے گا۔تب تک ساحر لدھیانوی کی یہ مشہور نظم گنگناتے رہیے؛
وقت کی ٹھوکر میں ہے
کیا حکومت کا سماج
وقت ہے پھولوں کی سیج
وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے
وقت سے ڈر کر رہے
کون جانے کس گھڑی
وقت کا بدلے مزاج
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)