مرکزی حکومت کی جانب سے لائے گئےقوانین کے خلاف 26 نومبر سے دہلی کی سرحدوں پرمظاہرہ کر رہے کسانوں کے بھارت بند کا ملک میں ملا جلا اثر رہا۔ کچھ ریاستوں میں عام زندگی متاثر ہوئی، وہیں کچھ ریاستوں میں صورتحال نارمل بنی رہی۔
کولکاتہ میں سوشلسٹ یونیٹی سینٹر آف انڈیا کے کارکنوں نے بھارت بند کی حمایت میں منگل کو ریلی نکالی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: مرکز کے نئے متنازعہ قوانین کو واپس لینے کی مانگ کو لےکر کسان تنظیموں کی اپیل پر بلائے گئے ‘بھارت بند’کی حمایت میں منگل کوملک کے کئی حصوں میں دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے اورگاڑیوں کی آمدورفت پر اس کااثر پڑا۔
مظاہرین سڑک پر اترے اور ٹرین سمیت آمدورفت کو بندکیا۔بند سے ایمرجنسی خدمات اور بینکوں کو دور رکھا گیا تھا۔ کل ہند بند کو اکثر اپوزیشن پارٹیوں اور کئی ٹریڈ یونین کی حمایت ملی ہے۔ پنجاب، ہریانہ جیسی ریاستوں اور کسانوں کےمظاہرہ کا مرکز بنی دہلی میں بند کا اثر دکھا۔
بند کو دیکھتے ہوئے ملک بھر میں سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔ کئی جگہوں پرمظاہرہ کا اثر دکھا۔ دہلی کی سرحدوں پر بہت بڑی تعداد میں کسان پچھلے 13دن سےمظاہرہ کر رہے ہیں۔مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ میں مظاہرین نے کئی جگہوں پر ٹرینیں روکیں۔
زرعی قوانین کے خلاف مظاہرہ کا مرکز بنے دہلی کے ٹکری بارڈر پر منگل کو ‘بھارت بند’کے دوران زوردارخطابات اور نعرےبازی دیکھنے کو ملی۔کسانوں نےمظاہرہ کے دوران ‘جئے کسان’، ‘ہمارا بھائی چارہ زندہ باد، کسان ایکتا زندہ باد، تاناشاہی نہیں چلےگی’ جیسے نعرے لگائے۔
بی کےیو کے ایک رہنما نے کسانوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا، ‘یہ ہمارے ‘آندولن’ کا آخری مرحلہ ہے اور یہ ضروری ہے کہ اپنے آندولن کو کامیاب بنانے کے لیے ہم مہذب بنے رہیں۔’ایک رہنما نے کہا، ‘یہ بدقسمتی ہے کہ آج ہمارے ملک میں اگر کوئی اپنی آواز اٹھاتا ہے اور ملک کی بھلائی کے بارے میں بات کرتا ہے تو اسے غدار قرار دیا جاتا ہے۔’
حالانکہ، کسانوں نے بھارت بند کی حمایت میں دکانیں بند رکھنے کی اپیل کی تھی لیکن مظاہرہ کی جگہ کے آس پاس لگ بھگ تمام دکانیں کھلی تھیں۔ بہرحال، تشدد کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔دہلی میں ٹیکری ان سرحدوں میں شامل ہے جہاں پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش سمیت الگ الگ ریاستوں کے ہزاروں کسان پچھلے 13 دنوں سے جمع ہیں۔
ملک کے اکثرحصوں میں مظاہرہ پرامن رہا۔ راجدھانی دہلی میں اکثر مین بازار کھلے رہے، لیکن ایپ والی کیب سروس سڑکوں پر نہیں دکھی۔ حالانکہ مقتدرہ عام آدمی پارٹی کے ذریعے دہلی پولیس پروزیراعلیٰ اروند کیجریوال کو نظربند کرنے کا الزام لگائے جانے کے بعد تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
پنجاب کے بتھنڈہ شہر میں بھارتیہ کسان یونین کے ممبروں نے قومی شاہراہ15 پر جام لگاکر بند کی حمایت کی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
عآپ کے ترجمان سوربھ بھاردواج نے الزام لگایا، ‘وزارت داخلہ کی ہدایت پر، دہلی پولس نے وزیراعلیٰ کیجریوال کو سنگھو بارڈر پر کسانوں سے ملنے کے بعد سے ہی نظربند کر دیا ہے۔ کسی کو بھی ان کی رہائش پر جانے یا وہاں سے کسی کو باہر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے ایم ایل اے کی پٹائی کی گئی۔ وہاں کئی بیریکیڈلگائے گئے ہیں اور گھریلواسٹاف کو بھی گھر کے اندر نہیں جانے دیا جا رہا۔’
حالانکہ، دہلی پولیس نے پارٹی کے دعووں کو خارج کیا ہے۔‘بھارت بند’کی حمایت میں شہر میں کچھ آٹو اور ٹیکسی یونین نے بھی حصہ لیا اور سڑکوں پر گاڑیوں کو نہیں اتارنے کا فیصلہ کیا، وہیں کچھ نے ہڑتال سے دوری بنائی۔
‘بند’کے تحت کسان یونین نے منگل صبح 11 بجے سے دن میں تین بجے تک چکہ جام کرنے کے دوران ملک بھر میں شاہراہوں کو بند کرنے اور ٹول پلازہ کو گھیرنے کی وارننگ دی تھی۔ نئے قانون کو لےکر جاری تصادم پر بدھ کو مرکزی حکومت کی کسان تنظیموں کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت ہونے والی ہے۔
اکھل بھارتیہ کسان سبھا (اےآئی کےایس)کے جنرل سکریٹری حنان ملا نے کہا کہ ‘بھارت بند’کسانوں کی طاقت دکھانے کا ایک ذریعہ ہے اور ان کی جائز مانگوں کو ملک بھر کے لوگوں کی حمایت ملی ہے۔ملا نے کہا، ‘ہم تینوں قوانین کی پوری طرح واپسی کی اپنی مانگ پر قائم ہیں اور کسی طرح کی ترمیم پر راضی نہیں ہوں گے۔ یہ ایسے قانون ہیں، جس میں ترمیم سے کوئی فرق نہیں پڑےگا۔’
بند کے مدنظر پنجاب میں کئی مقامات پر دکانیں اور کاروباری ادارے بند رہے۔ ریاست میں پٹرول ڈیلروں نے بھی بند کی حمایت میں پٹرول پمپ بند رکھے۔ ریاست میں ایندھن بھرنے والے پمپ کی تعداد 3400 سے زیادہ ہے۔
پڑوسی ریاست ہریانہ میں اپوزیشن پارٹی کانگریس اور انڈین نیشنل لوک دل نے بھارت بند کو حمایت دی۔ دونوں ہی ریاستوں میں صبح سے ہی کسان شاہراہوں اوردیگر اہم شاہراہوں پر جمع ہونے لگے تھے۔ہریانہ پولیس نے سفر کے سلسلے میں ایڈوائزری جاری کی، جس میں کہاگیا کہ لوگوں کو کئی شاہراہوں اور راستوں پر دوپہر 12 بجے سے تین بجے تک پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
مہاراشٹر کے ناگپور شہر میں سکھ کمیونٹی کے لوگوں نے بند کی حمایت میں ریلی نکالی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
کسان تنظیموں کے‘بھارت بند’کا منگل کو راجستھان کے کئی علاقوں میں شروعاتی اثر ملا جلا رہا۔ ریاست کی راجدھانی جے پور میں منڈیاں بند تھیں، لیکن دکان کھلی تھیں۔ ریاست میں مقتدرہ کانگریس اور بی جے پی کے کارکنوں کے بیچ جھڑپ کی خبریں ہیں۔
بھارت بند کا اتر پردیش میں ملا جلا اثر دکھا۔ مختلف اپوزیشن پارٹی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ریاست کی راجدھانی لکھنؤ میں بند کا کوئی خاص اثر نہیں دکھ رہا ہے۔ وہیں ریاست کے مختلف ضلعوں میں بند کا کہیں کم، تو کہیں زیادہ اثر دکھائی دے رہا ہے۔
ریاست کے بستی، بہرائچ، گورکھپور، چندولی، سون بھدر، اٹاوہ اور کچھ دیگر ضلعوں سے ایس پی کارکنوں اور پولیس کے بیچ جھڑپ اور نوک جھونک کی خبریں ملی ہیں۔
بھارت بند کی حمایت کر رہی کانگریس کے ریاستی میڈیا کنوینر للن کمار نے بتایا کہ سرکار اس بند کو دبانے پر پوری طرح اتارو ہے۔ پولیس نے گورکھپور،اعظم گڑھ، غازی پور، چترکوٹ، سہارنپور اور کانپور نگر میں بڑی تعداد میں کانگریس رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتاراور نظربند کیا ہے۔
راشٹریہ کسان منچ کے قومی صدرشیکھر دکشت نے کہا کہ ان کی تنظیم کے عہدیداروں کو اناو، سیتاپور، ہردوئی ،اوریا، کنوج، الہ آباد، غازی آباد اور دیگر شہروں میں پولیس نے نظربند کیا ہے، جو جمہوریت کو قتل کرنے جیسا ہے۔
بند کا بندیل کھنڈ کے تمام سات ضلعوں میں جزوی اثر دکھا۔
بھارت بند کا اتراکھنڈ میں ملا جلا اثر رہا، جہاں چمولی، پوڑی، اترکاشی اور ردرپریاگ ضلعوں میں اس کا بہت کم اثر دیکھنے کو ملا، جبکہ پتھوراگڑھ ضلع میں مکمل ہڑتال رہی۔
راجدھانی دہرادون میں ریاستی کانگریس کمیٹی کے صدرپریتم سنگھ کی قیادت میں کارکنوں نے پارٹی ہیڈکوارٹرسے پلٹن بازار تک جلوس نکالا اور بند لاگو کرانےکی کوشش کی۔ اسے لےکر ان کی دکانداروں سے جھڑپ ہو گئی اور انہوں نے دکانیں بند کرنے سے منع کر دیا۔ شہر میں زیادہ تر بازار اور دکانیں کھلی رہیں۔
ادھم سنگھ نگر ضلع میں حالانکہ کسان تنظیم بند لاگو کرانے کے لیے سڑکوں پر اتری لیکن کوئی ناخوشگوارصورتحال پیدا نہیں ہوئی۔
بھارت بند کے دوران نئی دہلی کے سنگھو بارڈر پر تعینات سیکورٹی اہلکار۔ سنگھو بارڈر کسان آندولن کا مرکز بنا ہوا ہے۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کے ساتھ ‘بھارت بند’کی حمایت کی ہے۔مظاہرین نے ریاست میں کئی مقامات پر ریل پٹریوں کو جام کیا اور سڑکوں پر دھرنا دیا۔بند کا اثر ریاست میں دیکھنے کو ملا، جہاں نجی گاڑیاں سڑکوں سے ندارد رہی اور بس، ٹیکسی جیسی گاڑیوں کی آمد ورفت عام دنوں سے کم ہے۔
اس کے علاوہ کسانوں کے ‘بھارت بند’کی اپیل کا جھارکھنڈ میں منگل کو ملا جلا اثر دکھا۔ ریاست میں لگ بھگ سبھی سرکاری دفتر کھلے رہے، لیکن نجی اداروں اور دکانیں جزوی طور پر بند رہیں۔ ریاست میں مقامی آمدورفت زیادہ تر نارمل ہے، لیکن بین ریاستی آمد ورفت ٹھپ ہے۔
چھتیس گڑھ میں مقتدرہ کانگریس نے بھارت بند کی حمایت کی ہے۔مقتدرہ پارٹی کے رہنما اور کارکن بند کو کامیاب بنانے کے لیے سڑک پر نکلے اور لوگوں سے حمایت کی گزارش کی۔
مدھیہ پردیش میں‘بھارت بند’کی حمایت میں مظاہرین نے ریاست کے ہوشنگ آباد ضلع کے سونی مالوہ علاقے میں مظاہرہ کیا۔ کرانتی کاری کسان مزدور سنگٹھن کی قیادت میں مظاہرین نے نعرےبازی کی اور نئےقوانین کو رد کرنے کی مانگ کی۔
مہاراشٹر میں ممبئی اور اکثر حصوں میں سٹی ٹرینوں اور بسوں سمیت سرکاری گاڑیوں کی آمدورفت منگل کو کسانوں کے’بھارت بند’ کے باوجود لگ بھگ نارمل رہیں۔مہاراشٹر کے کئی حصوں میں اےپی ایم سی بند رہیں۔بی جے پی مقتدرہ گوا میں منگل صبح بازار کھلے رہے اور آمدرفت بھی عام دنوں کی طرح رہی۔
تعلیمی اداروں کا کام کاج بھی عام دنوں کی طرح رہا۔ بازار کھلے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی اور دنوں کی طرح ہے۔گوا میں منگل صبح بازار کھلے رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی عام دنوں کی طرح رہا۔مختلف پارٹیوں نے مرکز کے نئے قوانین کے خلاف کسانوں کے بلائے گئے ‘بھارت بند’کو حمایت دی ہے۔
سنگھو بارڈر پر گزشتہ13 دنوں سے کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
تعلیمی اداروں کا کام کاج بھی عام دنوں کی طرح ہے۔ بازار کھلے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی اور دنوں کی طرح ہے۔ کانگریس، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، گوا فارورڈ پارٹی، عام آدمی پارٹی اور شیوسینا نے بند کی حمایت کی ہے۔
آسام میں ہزاروں مظاہرین نے ‘بھارت بند’میں حصہ لیا۔ کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں سمیت 14اپوزیشن پارٹیوں اور کئی سماجی تنظیموں نے بندکو حمایت دی ہے۔ حالانکہ، ریاست میں اکثر دفتروں میں کام کاج عام دنوں کی طرح رہا۔ کئی مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔ ریاست میں پٹرول پمپ کی تنظیموں کے ذریعے بند کو حمایت دینے کی وجہ سے تیل ٹینکروں کی آمدورفت متاثر رہی۔
میگھالیہ میں منگل کو عام زندگی نارمل رہی۔ یہاں ‘بھارت بند’ کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا۔ ریاست میں دکانیں اور بازار کھلے رہے اور نجی اور پبلک ٹرانسپورٹ چلتے رہے۔کسان تنظیموں کی جانب سے منگل کو بلائے گئے بند کا تریپورہ میں کوئی اثر نہیں دکھا۔ سڑکوں پر روز کی طرح گاڑیاں چلتی رہیں اور ریاست میں بازار و دکانیں کھلی رہیں۔
سرکاری دفتر، بینک اور مالی اداروں میں ملازمین کی موجودگی دیکھی گئی۔اروناچل پردیش میں بھی اس کا اثر کم دکھا اور عام زندگی نارمل رہی۔ نجی کاروں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سڑکوں پر آمدرفت عام دنوں کی طرح رہی۔تمام بازار اور کاروباری ادارے کھلے رہے اور بینک سمیت سرکاری اور نجی دفاترمیں کام کاج عام دنوں کی طرح رہا۔
وہیں، ہماچل پردیش میں بند کا زیادہ اثر نہیں دکھا۔ ریاست میں اکثر دکانیں، کاروباری ادارے کھلے رہے۔ حالانکہ، کانگریس اور سینٹر آف انڈین ٹریڈ یونین(سی آئی ٹی یو)نے ریاست کی راجدھانی شملہ اوردیگر ضلعوں میں الگ الگ دھرنا دیا۔
ملک گیر بند کے دوران کانگریس اور لیفٹ پارٹیوں کے حامیوں کے ذریعے سڑکوں اور ریل پٹریوں کو بند کئے جانے سے منگل کو اڑیسہ میں عام زندگی متاثر ہوئی۔‘بھارت بند’کے حامیوں نےقومی شاہراہوں اور بڑی سڑکوں پر جام لگایا اورمظاہرہ کیا۔ بند کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑیاں بھی کم نکلیں۔
جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی میں سیاسی کارکنوں نے بند کے دوران ریلی نکالی۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
کسان تنظیموں، ٹریڈ یونین اور سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں نے بھونیشور، کٹک، بھدرک اور بالاسور میں ریل پٹریوں پر دھرنا دیا جس سے ٹرین خدمات بھی متاثر ہوئیں۔تلنگانہ میں مقتدرہ ٹی آرایس، اپوزیشن پارٹی کانگریس سمیت کئی سیاسی پارٹیوں اور یونینوں نے کسانوں کے‘بھارت بند’کی حمایت میں این ڈی اے سرکار کے قوانین کے خلاف مظاہرہ کیا۔
کسان پچھلے کئی دنوں سے ان نئے قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور آج انہوں نے ‘بھارت بند’ کی اپیل کی ہے۔ٹی آرایس نے اس بند کی حمایت کرتے ہوئے ریاست میں فعال ہوکرمظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ کامیاب ہو سکے۔
آندھرا پردیش میں بھارت بندپرامن طریقے سے ختم ہو گیا۔ ریاستی سرکار نے پبلک بس سروسز پر روک لگاکر بند کی حمایت کی۔بند حامیوں نے اپنامظاہرہ زیادہ تر بس اسٹیشنوں اورقومی شاہراہوں تک ہی محدود رکھا۔ ایسے میں عام زندگی پر خاص اثر نہیں پڑا۔ حالانکہ، قومی شاہراہوں پرآمدورفت متاثر رہی۔
ریاستی سرکار کے مشورے پرتعلیمی ادارے بند رہے جبکہ بینک اور مرکزی حکومت کے دیگردفاتر میں کام کاج عام دنوں کی طرح ہوئے۔تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور کانگریس سمیت اس کی اتحادی پارٹیوں نے منگل کو بھارت بند میں حصہ لیا۔ پدوچیری میں بھی ڈی ایم کے اور کانگریس نےمظاہرہ کیا۔
کانگریس مقتدرہ یونین ٹریٹری پدوچیری میں بند کا اثر دکھا۔ بسیں، ٹیکسیاں اور آٹو سڑکوں پر نہیں دکھے۔ بند کی حمایت میں دکانیں اور کاروباری ادارےبند رہے اور ریاستی سرکار کے دفاتر میں بھی ملازمین کی حاضری کم رہی۔
تمل ناڈو میں پبلک اورپرائیویٹ ٹرانسپورٹ پر اثر کم دکھا اور عام زندگی بھی نارمل رہی۔ حالانکہ مظاہرہ کی جگہوں کے آس پاس ٹریفک جام دکھا۔
چنئی، ترچراپلی، تنجاور، کڈالور سمیت کئی جگہوں پرمظاہرہ ہوئے۔ پڈوچیری میں بھی مظاہرہ کا اثر دکھا۔ کسان تنظیموں،ڈی ایم کے، کانگریس، لیفٹ پارٹی نےمظاہرہ میں حصہ لیا۔منگل کو کرناٹک میں کسانوں اورمزدوروں کےمظاہرہ کے لیے سڑکوں پر اترنے سے عام زندگی متاثر ہوئی ۔
کرناٹک ریاست رییتا سنگھ اور ہسرو سینا (گرین بریگیڈ)کے بند کا کئی تنظیموں اورپارٹیوں نے حمایت کی ہےگجرات میں بھی اپوزیشن کانگریس نے بند کی حمایت کی۔ اس کی حمایت میں منگل کومظاہرین نے کچھ جگہوں پر قومی شاہراہوں کو بند کرنے کی کوشش کی اور جلتے ہوئے ٹائر رکھ دیے۔
حالانکہ دوپہر تک ریاست میں بند کا زیادہ اثر نہیں دکھا۔ ریاست میں کچھ جگہوں کو چھوڑکر سبھی بازار، دکانیں، سرکاری اور نجی دفاتر سمیت کاروباری ادارے کھلے رہے۔
پنجاب کے امرتسر شہر میں کسانوں کامظاہرہ۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
ریاست کے اہم شہروں میں عام زندگی پر بند کا اثر نہیں دکھا اور سڑکوں پر بسوں کی آمدورفت نارمل رہی۔ احمدآباد، راج کوٹ اور سورت سمیت ریاست کے اہم شہروں میں بی آرٹی ایس (بس ریپڈ ٹانزٹ سسٹم) کا کام کاج طے وقت کے مطابق چلا۔
ریاست میں تقریباً 5000 پٹرول پمپ بھی کھلے رہے کیونکہ ان کی تنظیموں نے بند کو حمایت نہیں دی تھی۔
ریاستی پولیس کنٹرول روم کے ایک اہلکار نے بتایا، ‘ریاست میں بند کا زیادہ اثر نہیں دکھا۔ کسی بھی طرح کے تشدد یا کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ہے۔ بند سے عام زندگی متاثر نہیں ہوئی ہے۔’اہم شاہراہوں اور قومی شاہراہوں پر پولیس کی تعیناتی ہونے کے باوجود گجرات کے دیہی علاقوں میں مظاہرین نے صبح تین شاہراہوں کوبند کیا اور جلتے ہوئے ٹائر رکھ دیے۔ اس سےآمدورفت متاثر ہوئی۔
بھارت بند: کچھ آٹو، ٹیکسی یونین بند میں شامل ہوئے
مرکزی حکومت کے نئے قوانین کو رد کرنے کی مانگ کو لےکر آندولن کر رہے کسانوں کے ‘بھارت بند’ میں منگل کو کچھ آٹو اور ٹیکسی یونین نے بھی حصہ لیا اور سڑکوں پر گاڑیوں کو نہیں اتارنے کا فیصلہ کیا، وہیں کچھ نے ہڑتال سے دوری بنائی۔
دہلی سروودیہ چالک سنگھ کے صدرکمل جیت گل نے دعویٰ کیا کہ ان کے اکثر ممبر ہڑتال پر ہیں۔ یہ یونین اولا اور ابر جیسی ایپ والی ٹیکسی کے ڈرائیوروں کی نمائندگی کرتی ہے۔گل نے کہا، ‘دہلی میں تقریباً چار لاکھ ایپ والے کیب ہیں۔ ہمارے اکثرممبر ہڑتال پر ہیں۔’
سنگھو بارڈر پرمظاہرہ کے دوران آپس میں بات چیت کرتے کسان۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
دہلی ٹیکسی ٹورسٹ ٹرانسپورٹرس ایسوسی ایشن کے صدرسنجے سمراٹ نے کہا کہ دہلی اسٹیٹ ٹیکسی کارپوریٹ اور راشٹریہ ایکتا کلیان سنگھ سمیت کئی یونین سے جڑے ڈرائیور ہڑتال پر ہیں۔حالانکہ کچھ دیگر آٹو اور ٹیکسی یونین نے دعویٰ کیا کہ ہڑتال سے دہلی میں خدمات پر اثر نہیں پڑےگا۔
دہلی آٹو رکشہ یونین اور دہلی اسٹیٹ ٹیکسی یونین کے جنرل سکریٹری راجیندر سونی نے کہا، ‘ہمارے سبھی آٹو اور ٹیکسیاں عام دنوں کی طرح چل رہے ہیں اور ہڑتال کا بالکل بھی اثر نہیں پڑا ہے۔ ہم کسانوں اور ان کی مانگوں کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہڑتال سے عام آدمی کوپریشانی ہوگی۔’
آئی جی آئی ہوائی اڈہ ٹیکسی یونین کے صدر کشن جی نے بھی کہا کہ کالی پیلی ٹیکسیوں کی سروس جاری ہے اور یہ ہڑتال میں شامل نہیں ہیں۔
امریکہ کے کئی رکن پارلیامان نے بھارت میں مظاہرہ کرنے والے کسانوں کی حمایت کی
امریکہ کے کئی رکن پارلیامان نے بھارت میں نئے قوانین کے خلاف مظاہرہ کر رہے کسانوں کی حمایت کی ہے اور انہیں پرامن طریقے سےمظاہرہ کرنے کی اجازت دینے کی اپیل کی ہے۔کسانوں کےمظاہرہ پرغیرملکی رہنماؤں کے بیانات کو ہندوستان نے ‘گمراہ کن ’اور ‘غیرمناسب’بتایا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک جمہوری ملک کاداخلی معاملہ ہے۔
امریکی کانگریس کے رکن پارلیامان ڈگ لامالپھا نے سوموار کو کہا تھا، ‘ہندوستان میں اپنےروزگارکو بچانے کی خاطر اور سرکار کے گمراہ کن ، غیرواضح ضابطوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے پنجابی کسانوں کی میں حمایت کرتا ہوں۔’
کیلی فورنیا سے ری پبلکن ایم پی نے کہا، ‘پنجابی کسانوں کو اپنی سرکار کے خلاف تشدد کےخوف کے بغیر پرامن مظاہرہ کی اجازت ہونی چاہیے۔’
ڈیموکریٹ ایم پی جوش ہارڈر نے کہا، ‘ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ اسے اپنےشہریوں کو پرامن طریقے سےمظاہرہ کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ میں ان کسانوں اوروزیراعظم نریندر مودی سے مثبت بات چیت کی اپیل کرتا ہوں۔’
ٹی جے کا کس نے کہا کہ ہندوستان کو پرامن مظاہرہ کے حق کو برقرار رکھنا چاہیے اور اپنے شہریوں کی حفاظت لو یقینی بنانا چاہیئے۔
‘نیویارک ٹائمس’نے لکھا ہے، ‘مظاہرہ دہلی کے باہر تک پھیل گیا ہے۔ کسانوں نے جنوبی ریاستوں کیرل اور کرناٹک اور نارتھ ایسٹ کی ریاست آسام میں بھی مارچ نکالا اور بینروں کے ساتھ مظاہرہ کیا۔ اتر پردیش کے گنا کسانوں نے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی سے لگی ریاست کی سرحدپراحتجاج کیا۔’
‘سی این این’ کی ایک خبر کے مطابق ہزاروں کسان نئے قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر ڈٹے ہیں۔ ان کسانوں کو خدشہ ہے کہ نئے قوانین سے ان کی روزی روٹی پر اثر پڑےگا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)