بی جے پی ترجمان نوین کمار کے ذریعےسینئر صحافی ونوددوا پر ‘فرضی خبر پھیلانے’ کا الزام لگایا گیا ہے۔ وہیں، بنگلور میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹرآکار پٹیل پرسوشل میڈیا پر ‘بھرکاؤ’پوسٹ کرنے کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی کرائم برانچ نےجمعہ کو بی جے پی ترجمان نوین کمار کی شکایت پر سینئر صحافی اور اینکر ونوددوا کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔کمار نے 4 جون کو درج اپنی شکایت میں دوا پرمبینہ طور پر ‘دہلی فسادات کو لےکر غلط رپورٹنگ اور جیوترادتیہ سندھیا کے بی جے پی میں شامل ہونے کے وقت ان کے بارے میں سیاق و سباق سے الگ رپورٹنگ’ کا الزام لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دوا یوٹیوب پر ایچ ڈبلیو نیوز چینل پر ‘ونوددوا شو’ کے ذریعے‘فرضی جانکاریاں پھیلا’ رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوا نے وزیر اعظم کے بارے میں ‘ڈر پھیلانے والا’جیسےتوہین آمیزلفظ استعمال کرکے ان کی بے عزتی کی ہے۔ کمار نے یہ بھی کہا کہ دوا نے وزیر اعظم کو ‘کاغذی شیر’ بتایا تھا۔
کمار نے پانچ صفحات کی اس شکایت کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیا تھا۔ زی نیوز میں کام کر چکے کمار کاایک اعتراض11 مارچ 2020 کو ونوددوا کے ذریعے مدھیہ پردیش کے سابق ایم پی جیوترادتیہ سندھیا کے بی جے پی میں شامل ہونے پر کیے گئے ایپی سوڈ پر بھی ہے۔ان کے مطابق دوا نے اس میں صحیح بات کا استعمال غلط سیاق وسباق کے ساتھ کیا۔ کمار کا الزام ہے کہ اس ایپی سوڈ میں دوا نے ‘غیر پارلیامانی’ زبان کا استعمال کیااور کہا کہ ویاپم گھوٹالا مدھیہ پردیش میں ویاپم گھوٹالا ‘بی جے پی کے دور’ میں ہوا تھا۔
مشرقی دہلی کے لکشمی نگر تھانے میں درج اپنی شکایت میں کمار نےدوا پر دہلی تشددکے بارے میں غلط رپورٹنگ کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ دوا نے اپنے پروگرام میں کہا تھا کہ ‘مرکزی حکومت نے تشدد کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا اور اس کے لیے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ ذمہ دار ہیں’ اور مبینہ طور پر اپنی بات بی جے پی رہنما کپل مشرا کے حوالے سے کہی۔
انہوں نے لکھا ہے، ‘دوا کی اخلاقیات اور ایمانداری شک کے گھیرے میں ہے کیونکہ وہ فرضی خبروں کے بزنس میں شامل ہیں۔’ پولیس نے کہا ہے کہ ان پر آئی پی سی کی دفعہ290، 505 اور 505 (2) کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔دوا نے اس بارے میں د ی وائر کو بتایا، ‘پولیس نے ابھی تک مجھ سے اس بارے میں رابطہ نہیں کیا ہے۔ جب وہ اس بارے میں مجھ سے رابطہ کریں گے تب میں اس بارے میں آگے کیا کرنا ہے، یہ فیصلہ کروں گا۔’ ان کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے اس بارے میں قانونی مدد لیں گے۔
حالانکہ انہوں نے یہ بتایا کہ انہوں نے اس بارے میں کمار کا ٹوئٹ دیکھا ہے۔ ونوددوااس وقت ایچ ڈبلیو نیوز اور سوراج ایکسپریس کے یو ٹیوب چینل پر پروگرام کرتے ہیں۔ اس سے پہلےدی وائر کے لیے ‘جن کی بات’ نام کا شو کیا کرتے تھے۔
آکار پٹیل۔ (فوٹوبہ شکریہ : ٹوئٹر)
دریں اثناحقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کےسابق ایگزیکٹو ڈائریکٹرآکار پٹیل کے خلاف سوشل میڈیا پر ‘مشتعل’ موادپوسٹ کرنے کے لیے ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔پولیس کا الزام ہے کہ اس پوسٹ کے ذریعے انہوں نے لوگوں کو سرکار کے خلاف بھڑ کانے کی مبینہ طور پر کوشش کی۔
جے سی نگر تھانے کے پولیس انسپکٹرکے ذریعے کی گئی شکایت کے بعد ایک معاملہ درج کیا گیا۔ اس میں الزام لگایا گیا کہ پٹیل کے ذریعے ٹوئٹر پر ڈالا گیا پوسٹ ‘بھڑکاؤ’ تھا۔پولیس حراست میں افریقی نژادایک امریکی شخص جارج کی موت کے بعد امریکہ کے کئی شہروں میں مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے پٹیل نے 31 مئی کو ایک ٹوئٹ میں کہا، ‘ہمارے یہاں بھی دلتوں، مسلمانوں، آدیواسیوں، غریبوں اور خواتین کو مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس پر دنیا کی نظر جائےگی۔’
اس ٹوئٹ پر ہی ان کے خلاف عوام کو بھڑ کانے اور تشددکروانے کے ارادے سے تبصرہ کرنے کے لیے معاملہ درج کیا گیا۔پٹیل کے خلاف پولیس کی کارروائی پر ردعمل دیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اویناش کمار نے کہا، ‘بنگلور پولیس کے ذریعے آکار پٹیل کے خلاف ایف آئی آر درج کرنا اس بات کی ایک اور مثال ہے کہ عدم اتفاق کا حق ملک میں کس طرح سے جرم بنتاجا رہا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘بنگلور پولیس کو اپنی طاقت کا استعمال کرنا بند کرنا چاہیے اورآئین کے ذریعے حاصل اظہار رائےکی آزادی کے حق کے استعمال کے لیے آکار پٹیل کو ڈرانا دھمکانا بند کرنا چاہیے۔’ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس ملک کے لوگوں کو اقتدارکے لوگوں سے اتفاق یا عدم اتفاق رکھنے اور بنا ڈرے ہوئے اور بنا کسی دخل اندازی کے پرامن مظاہرہ کے تحت اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار کے خلاف پرامن مظاہرہ کرناجرم نہیں ہے۔ اقتدارکی پالیسیوں سے متفق نہیں ہونے پر آپ غدار نہیں ہو جاتے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)