بنگلہ دیش میں سیاسی افراتفری کے درمیان منگل کی رات کو اعلان کیا گیا کہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہندوستانی سفارت کار اور ان کے اہل خانہ ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس لوٹ آئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ: ہندوستان کو درپیش چیلنجز
ڈیلی ا سٹار کی رپورٹ کے مطابق، 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں 17 سال قید کی سزا سنائے جانے کے بعد اب 78 سال کی ضیاء صحت کی خرابی کے باعث ہسپتال میں داخل ہیں۔ حسینہ کی سخت حریف سمجھی جانے والی ضیاء پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک یتیم خانے کے ٹرسٹ کو دیے گئے 250000 ڈالر کے غبن کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔ بی این پی نے کہا ہے کہ یہ مقدمات من گھڑت ہیں اور ان کا مقصد دو بار کی سابق وزیراعظم کو سیاست سے دور رکھنا ہے۔ ضیاء 1991-1996 اور بعد میں 2001-2006 تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہی ہیں۔ جبکہ وہ 1996 کے عام انتخابات میں بھی کامیاب ہوئیں، تب حسینہ کی عوامی لیگ سمیت بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اسے غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ نتیجتاً ان کی حکومت نگران حکومت کے قیام سے صرف 12 دن تک چل سکی۔ ڈیلی اسٹار کی رپورٹ کے مطابق، 79 سالہ سابق وزیراعظم طویل عرصے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں جن میں لیور سروسس، آرتھرائٹس، ذیابیطس اور گردے، پھیپھڑوں، دل اور آنکھوں سے متعلق مسائل شامل ہیں۔ دوسری جانب منگل (6 اگست) کو جاری کردہ ایک بیان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ اگر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت بنتی ہے تو اسے لوگوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا ہو گا اورحسینہ کی معزولی سے پہلے ہوئے تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ ایمنسٹی نے کہا، ‘کسی بھی عبوری حکومت کے لیے کام کرتے ہوئے پہلا حکم یہ ہونا چاہیے کہ لوگوں کے حق زندگی، آزادی اظہار اور پرامن اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، اور مزید تشدد کے امکانات کو کم کرنے کے طریقے تلاش کیے جائیں۔’ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘گزشتہ تین ہفتوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے 300 سے زائد افراد ہلاک، ہزاروں زخمی اور من مانی طور پر گرفتار ہوئے، اس کی شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات ہونی چاہیے۔ ذمہ دار پائے جانے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے اور تشدد کا نشانہ بننے والوں کو حکومت سے مکمل معاوضہ ملنا چاہیے۔ ہندوستانی سفارت کاروں کی وطن واپسی دریں اثنا، بنگلہ دیش میں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ہندوستانی سفارت خانے کے کچھ ملازمین اور ان کے اہل خانہ رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ کر ہندوستان واپس آگئے ہیں۔ وہیں، ڈھاکہ میں ہندوستانی ہائی کمیشن اب بھی فعال ہے اور لوگ ہنگامی صورت حال میں مدد کے لیے اس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ‘ڈھاکہ میں ہندوستانی ہائی کمیشن سے غیر ضروری ملازمین اور ان کے اہل خانہ کی واپسی رضاکارانہ بنیادوں پر کمرشیل پروازوں کے ذریعے ہوئی ہے۔’ بتایا جا رہا ہے کہ وہ منگل کی رات سے واپس آنا شروع ہو گئے تھے۔ ہجوم کے خلل کی وجہ سے کئی پروازیں منسوخ یا تاخیر کا شکار ہونے کے بعد ڈھاکہ کے بین الاقوامی ہوائی اڈے نے منگل کو دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر افراتفری دیکھنے کو مل رہی ہے، جہاں عبوری حکومت نے ابھی تک انتظامیہ کا کنٹرول نہیں سنبھالا ہے۔ عوامی لیگ سے وابستہ اداروں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ شیخ حسینہ کو اپنے 15 سالہ دور حکومت میں ہندوستانی حکومت کی ایک مضبوط اتحادی تصور کیا جاتا تھا، دونوں فریقوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ ان کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ منگل کی رات دیر گئے اعلان کیا گیا کہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب سرکاری ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ تمام ہندوستانی سفارت کار ہندوستانی ہائی کمیشن میں موجود ہیں جو مکمل طور پر کام کر رہا ہے۔ ڈھاکہ میں مرکزی مشن کے علاوہ، چٹ گانگ، راج شاہی، کھلنا اور سلہٹ میں چار ذیلی ہائی کمیشن ہیں۔ ان مقامات پر بھی موجودہ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے عملے کے ارکان کے اہل خانہ بنگلہ دیش چھوڑ رہے ہیں۔ ایک روز قبل ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے پارلیامنٹ میں کہا تھا کہ ہندوستان توقع کرتا ہے کہ بنگلہ دیشی حکام اپنے سفارتی مشنوں کے لیے مناسب سیکورٹی کو یقینی بنائیں گے۔ سرکاری ذرائع نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ڈھاکہ میں سفارت خانہ مکمل طور پر کام کر رہا ہے اور ہندوستانی برادری سے رابطہ کرنے کے لیے قائم کی گئی تینوں ہیلپ لائنیں معمول کے مطابق کام کر رہی ہیں۔ بتادیں کہ بنگلہ دیش میں تقریباً 19000 ہندوستانی شہری ہیں جن میں 9000 طلباء شامل ہیں۔ تاہم جولائی میں ریزرویشن کوٹہ کے حوالے سے تحریک شروع ہونے کے بعد زیادہ تر طلباء ہندوستان واپس لوٹ گئے تھے۔