بابری مسجد انہدام معاملے میں بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی سی بی آئی عدالت نے کہا کہ مسجد انہدام منصوبہ بند نہیں حادثاتی تھا،غیرسماجی عناصرگنبد پر چڑھے اور اس کوگرا دیا۔ عدالت کے فیصلے پر اس معاملے کےگواہوں میں سے ایک رہے سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
خصوصی سی بی آئی عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے
تمام 32ملزمین کو بری کر دیا۔فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو نے کہا بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند نہیں تھا، یہ ایک حادثاتی واقعہ تھا۔ غیرسماجی عناصر گنبد پر چڑھے اور اس کوگرا دیا۔
حالانکہ، بابری مسجد انہدام کے گواہوں میں سے ایک اور سیاسی مبصرشرت پردھان نےدی وائر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو بابری مسجد گرانے کا واقعہ بھلے ہی منصوبہ بند سازش نہ لگتا ہو، لیکن ان کا یہ فیصلہ ضرور منصوبہ بند سازش لگتا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہمارے قانون کا اس سے زیادہ مذاق نہیں اڑایا جا سکتا ۔ یہ تو سب کو پتہ تھا کہ کسی بڑے رہنما کو سزا نہیں ہوگی لیکن سب کو بری کر دینا صرف اور صرف یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ ہم جو چاہیں گے وہ کریں گے۔ یہ ایک نئی تحریک کو بڑھاوا دےگا، جس کی شروعات متھرا سے ہو چکی ہے۔’
غورطلب ہے کہ گزشتہ25 ستمبر کو اتر پردیش کے متھرا میں شری کرشن جنم استھان احاطہ کے پاس واقع شاہی عیدگاہ مسجد کو وہاں سے ہٹانے کے لیے عدالت میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔بابری انہدام معاملے میں کئی سالوں سے شنوائی چل رہی تھی، جس کو2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مکمل ہونے سےایک سمت ملی تھی۔
پردھان کہتے ہیں،‘اپریل2017 میں جب سپریم کورٹ نے روزانہ شنوائی کرنے اور رائےبریلی اور لکھنؤ کی عدالتوں میں چل رہے معاملوں کو ایک کرکےشنوائی کرنے کا آرڈر دیا تھا تب ہی عدالت نے صاف طور پر یہ کہا تھا کہ یہ سازش ہے اور سب کے خلاف سازش کا معاملہ چلایا جائے۔’
بابری مسجد انہدام کو سازش نہ ماننے کے خصوصی سی بی آئی جج کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے پردھان کہتے ہیں کہ یہ تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کے ہی برعکس ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اس سے پہلے ہائی کورٹ نے سب کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سازش نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ نے دوبارہ سازش کا معاملہ شروع کرایا تھا۔ اس سازش سےخصوصی عدالت نے انکارکر دیا ہے۔ وہیں دوسری طرف جب سپریم کورٹ نے مندر بنانے کا فیصلہ دیا تھا، تب اس نے ایک جملہ استعمال کیا تھا کہ انہدام ایک کیلکلیٹیڈ ایکٹ تھا۔ کیلکلیٹیڈ ایکٹ کا مطلب ہوتا ہے سازش۔ یہ پوری طرح سے اس کے الٹ ہے۔’
خصوصی سی بی آئی جج کی غیرجانبداری پر سوال اٹھاتے ہوئے شرت پردھان نے کہا، ‘فیصلہ سنانے والے خصوصی سی بی آئی جج ایس کے یادو کی مدت کار پچھلے سال ختم ہونے والی تھی، جس کو سپریم کورٹ نے ایک سال کے لیے بڑھا دیا تھا اور وہ آج ہی ختم ہو رہا ہے۔ یہ کچھ کچھ بالکل ویسا ہی جیسے جب ہمارے چیف جسٹس آف انڈیا ریٹائر ہو رہے تھے تب انہوں نے رام مندر کا فیصلہ دیا۔ اب دیکھنا ہے ان کو کوئی عہدہ دیا جاتا ہے یا کیا دیا جاتا ہے۔’
خصوصی سی بی آئی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں ثبوت کے طور پر جو ویڈیوفوٹیج کی کیسٹ پیش کیں، ان کے مناظر صاف نہیں تھے اور نہ ہی ان کیسیٹس کو سیل کیا گیا۔ واقعہ کی تصویروں کے نگیٹو بھی عدالت میں پیش نہیں کیے گئے۔
عدالت کی ان دلیلوں پر پردھان کہتے ہیں،‘یہ بڑا صاف ہے کہ جس طرح کا فیصلہ دیا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ مان لینا کہ سارے ثبوت بکواس ہیں، سی بی آئی کا مذاق اڑانا ہے۔ اب یہی دکھا رہے ہیں کہ دیکھیے سی بی آئی نے تو کیس بنایا لیکن جو ہے، سب بکواس ہے۔’
عدالتوں میں پیش ویڈیو فوٹیج کے مسئلے پر انہوں نے آگے کہا کہ اس ملک میں جب جب رہنما کسی معاملے میں شامل رہے ہیں تب تب ویڈیو ریکارڈنگ کی تردید کی گئی ہے،چاہے وہ ویڈیو ابھیشیک منو سنگھوی کا ہو، ملائم سنگھ یادو کا، ورون گاندھی کا، یا چاہے امر سنگھ کا۔ یہ سب بری ہو گئے۔ جو بھی غلط کام یا غلط بات کرتے ہوئے پکڑے گئے ان سب کا فیصلہ یہی آیا کہ ویڈیو سے چھیڑ چھاڑ ہوئی یا اسے بنایا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘یہ ایک اسٹینڈرڈ پریکٹس ہو گئی ہے کیونکہ یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ رہنما کوئی غلط کام نہیں کرتا ہے۔ عام آدمی تو جیل میں بند بھی ہو جائےگا اور سزا بھی ہو جائےگی۔ اس معاملے میں تو اور بھی بڑے بڑے رہنما شامل ہیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ کس طرح سے ہمارے عدالتی نظام کو توڑا مروڑا جاتا ہے۔ قانون کےاقتدار کی جگہ اب جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہو گیا ہے۔’
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ سی بی آئی کافی ثبوت نہیں دے سکی۔ملزمین کے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ملے، بلکہ ملزمین کے ذریعےبھیڑ کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
عدالت نے کہا کہ چھ دسمبر 1992 کو دوپہر 12 بجے تک سب ٹھیک تھا۔ مگر اس کے بعد ‘متنازعہ ڈھانچے’کے پیچھے سے پتھراؤ شروع ہوا۔ وشو ہندو پریشدرہنما اشوک سنگھل ‘متنازعہ ڈھانچے’ کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ ڈھانچے میں رام للا کی مورتیاں رکھی تھیں۔ انہوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی تھی اور کارسیوکوں کے دونوں ہاتھ مصروف رکھنے کے لیے جل اور پھول لانے کو کہا تھا۔
پردھان کہتے ہیں،‘اس معاملے میں میں چشم دید گواہ ہوں اور بے حداہم گواہ ہوں، جس میں میرا17واں یا 19واں نمبر تھا۔ میری 14 دن تک گواہی چلی تھی جس میں 10 دن رائےبریلی اور چار دن لکھنؤ میں گواہی ہوئی تھی۔’وہ کہتے ہیں،‘میں نے جو بیان درج کرایا ہے وہ خود ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی۔ یہ جو آج کہہ رہے ہیں کہ غیرسماجی عناصر گھس گئے تھے اور انہوں نے گرا دیا، میں صاف طور پر اسی عدالت کے دوہرے رویے کو دکھا سکتا ہے۔’
پردھان نے بتایا،‘میرے ساتھ لاکھوں لوگوں نے وہاں کان سے سنا ہے، جہاں منچ پر لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اشوک سنگھل جیسے بڑے بڑے رہنما تھے وہاں لاؤڈاسپیکر سے ایک اعلان ہوا تھا۔اعلان شروع ہواتھا،‘یہ ڈھانچہ اب گرنے والا ہے، آپ سب جو اس ڈھانچے پر چڑھے ہوئے ہیں، برائے مہربانی اپنی حفاظت کے لیے نیچے اتر آئیے۔’
مرلی منوہر جوشی، کلیان سنگھ، لال کرشن اڈوانی، اوما بھارتی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
وہ آگے کہتے ہیں،‘اب عدالت نے یہ تو سن لیا کہ نیچے اتر آئیے، لیکن یہ نہیں سناکہ ڈھانچہ گرنے والا ہے۔ ڈھانچہ گرنے والا ہے تو وہی بولےگا جس کو پتہ ہوگا کہ ڈھانچہ گرنے والا ہے۔ وہاں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے لوگ تھے، یہ بات ان سب کو سمجھ آ جائے یہ یقینی بنانے کے لیے اس اعلان کو کئی ہندوستانی زبانوں میں دوہرایا گیا اور اس کے کچھ دیر بعد ہی اصل انہدام کا کام پورا ہوا۔’
وہ کہتے ہیں،‘اس کے ساتھ ہی جس طرح سے بابری مسجد کو گرایا گیا تھا، وہ طریقہ بھی یہ صاف کرتا ہے کہ یہ کام منصوبہ بندطریقے سے ہوا تھا۔ میں بغل کی بلڈنگ کی چھت سے اس کو دیکھ رہا تھا۔’
واقعہ کو یاد کرتے ہوئے پردھان بتاتے ہیں،‘بیلچے جیسے اوزاروں نے مسجد کی ڈھائی فٹ موٹی دیواریں گرانے میں خاصی مدد کی۔ جب بیلچوں وغیرہ کی لگاتار چوٹ سے چنگاری نکل رہی تھی اور اس طرح عمارت کے چبوترے کی موٹائی کم ہو گئی تب انہوں نے دیوار میں بڑے بڑے چھید کئے اور رسی کی گانٹھے بناکر ان میں پھندا سا بنا کے ڈال دیا۔ اس کے بعد وہاں موجود ہزاروں کارسیوکوں سے رسی کے سروں کو کھینچنے کو کہا گیا جس سے دیوار کو کمزور کیا جا سکے اور گنبد گر جائے۔ تین گھنٹوں میں تینوں گنبد کو گرانے کے لیے اسی طریقے کا استعمال کیا گیا۔’
پردھان سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں،‘کیا یہ بنا سازش کے ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی مشتعل بھیڑ آکر اسے گرا سکتی ہے؟ ناممکن ہے۔ اگر مشتعل بھیڑ اس کو اوپر اوپر سے مارکر گرانے کی کوشش کرتی تو اس کو توڑنے میں 10-15 دن لگتے۔ ایسا لگتا ہے کہ کورٹ نے یہ سب چیزیں دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور منصوبہ بندڈھنگ سے اپنا فیصلہ لکھ دیا۔’
حالانکہ، پردھان سی بی آئی کے رول پر سیدھے سیدھے کوئی سوال نہیں اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘میں سی بی آئی کو قصوروار نہیں مانتا ہوں کیونکہ اس کا کام کیس تیار کرنے کا تھا اور اس نے کیا۔ یہ ضرور ہے کہ جانچ ایجنسیاں اپنے حساب سے کیس کو کمزور یا مضبوط بناتی ہیں لیکن سی بی آئی پولیس کی طرح سب کچھ ادھرادھر نہیں کر دیتی ہے۔’
خصوصی سی بی آئی عدالت کے فیصلے کومنصوبہ بند بتانے کے اپنے الزامات کو ایک بار پھر دوہراتے ہوئے وہ کہتے ہیں،‘پہلے سے طے شدہ یہی ہے کہ ہر آدمی سی بی آئی کو قصور دے دےگا اور کمزور کیس بنانے یا ثبوت نہ لانے کے لیے کسی افسر پر کارروائی ہو جائےگی۔ تھوڑے دن سی بی آئی کو گالیاں پڑیں گی، پھر سب بھول جا ئیں گے لیکن اصل میں ایسا کرنے والے کوئی اور ہی لوگ ہیں۔’
وہ آگے کہتے ہیں،‘ہمارے جیسے جتنے لوگوں نے گواہی دی وہ سب تو کوڑے میں چلا گیا، اس کو مانا ہی نہیں گیا۔ شروع میں 1400-1500 گواہوں کی فہرست بنی تھی۔ 2017 میں جب سپریم کورٹ نے جلد سے جلد شنوائی پوری کرنے کے لیے کہا تب انہوں نے گواہوں کو گھٹانا شروع کیا اور آخر تک آتےآتے یہ فہرست 350 ہو گئی۔ تب تک صرف 253 لوگوں کی گواہی ہوئی تھی۔ اگر 1000 لوگوں کی گواہی ہوتی تو پورے 100 سال لگ جاتے!’
پردھان کہتے ہیں کہ یہ طے ہو گیا ہے کہ متھرا اور کاشی جیسے معاملے اگر اٹھائے جا ئیں گے تو مذہبی پولرائزیشن کو خوب بڑھاوا ملےگا۔ اب ہندو مسلمان کے نام پر ہی سیاست زیادہ چلےگی۔