بابری مسجد انہدام کی جانچ کے لیے1992 میں جسٹس ایم ایس لبراہن کی قیادت میں لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیاتھا، جس نے سال 2009 میں اپنی رپورٹ سونپی تھی۔ کمیشن نے کہا تھا کہ کارسیوکوں کا اجتماع اچانک یا رضاکارانہ نہیں تھا، بلکہ منصوبہ بند تھا۔
نئی دہلی: خصوصی سی بی آئی عدالت نے 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد گرائے جانے کے معاملے میں بدھ کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی منصوبہ بند سازش نہیں تھی لیکن جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے کہا کہ میں نے اس معاملے میں شہری سازش کا معاملہ پایا تھا۔
معلوم ہو کہ بابری مسجد انہدام کی جانچ کے لیے1992میں لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔ کمیشن نے سال 2009 میں اپنی رپورٹ سونپی تھی۔رپورٹ میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی جیسےآر ایس ایس اور بی جے پی کےسینئر رہنماؤں کے شامل ہونے کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اس وقت کے اتر پردیش سرکار کی بھی ملی بھگت کی بات کہی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘انہوں نے یا توفعال ہو کرغیرمتحرک طریقے سے انہدام کی حمایت کی۔’
انڈین ایکسپریس کے مطابق، جسٹس لبراہن نے بدھ کو کہا، میں نے پایا کہ یہ ایک سازش تھی، مجھے اب بھی اس پر یقین ہے۔ میرے سامنے پیش کئے گئے تمام شواہد سےیہ واضح تھا کہ بابری مسجد انہدام کامنصوبہ باریکی سے بنایا گیا تھا، مجھے یاد ہے کہ اوما بھارتی نے صاف طور پراس کی ذمہ داری لی تھی۔ یہ ایک ان دیکھی طاقت نہیں تھی، جس نے مسجد کو منہدم کر دیا، انسانوں نے کیا تھا۔’
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ کارسیوکوں کااجتماع اچانک یارضاکارانہ نہیں، بلکہ طے شدہ اور منصوبہ بند تھا۔
رپورٹ میں سینئر بی جے پی رہنماؤں اڈوانی، جوشی، بھارتی اور اٹل بہاری واجپائی جیسےسینئر بی جے پی رہنماؤں، آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشدکےرہنماؤں اورنوکرشاہوں سمیت 60 لوگوں کے نام ملک کو فرقہ وارانہ کشیدگی کے دہانے پر لے جانے کے لیے قصورواروں کےطور پر شامل کیے گئے تھے۔
جسٹس لبراہن نے کہا، ‘میرے نتائج صحیح تھے، ایماندارانہ تھے اور خوف یا کسی اور طرح کے تعصب سے پاک تھے۔ یہ ایک ایسی رپورٹ ہے جوآنے والی نسل کو ایمانداری سے بتائےگی کہ کیا اور کیسے ہوا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہوگی۔’
حالانکہ، انہوں نے عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں جج یا کورٹ یا سی بی آئی جانچ پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ میرا ماننا ہے کہ ہر کوئی اپنا کام ایمانداری سے کرتا ہے۔ عدالت کو الگ رائےرکھنے کاحق ہے، اس کے اختیاریا کام کرنے کے بارے میں کوئی تنازعہ نہیں ہو سکتا ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘اڈوانی، واجپائی وہ سب میرے سامنے حاضر ہوئے اور جو میں نے پایا میں نے اپنی رپورٹ میں پیش کیا، لیکن وہ خود کے خلاف گواہ نہیں ہو سکتے۔ ان میں سے کچھ نے انہدام کی ذمہ داری لی۔ اوما بھارتی نے واضح طورپر ذمہ داری کا دعویٰ کیا۔ اب، اگر جج کہتے ہیں کہ وہ ذمہ دار نہیں ہیں، تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے سامنے پیش کیے گئے شواہد سے اور گواہوں کے بیانات سے صرف میں ہی نہیں کوئی بھی مناسب طریقےسے نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند کارروائی تھی۔’
انہوں نے کہا، ‘یہ پتہ لگانا تھا کہ مسجد کو کس نے گرایا، کن حالات میں ایسا کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ انہدام کے حقائق کا بھی پتہ کرنا تھا۔’بی جے پی کے لیے اس کو تاریخی لمحہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘کچھ کے لیےیہ ایک پاک ارادہ ہو سکتا تھا، لیکن سیاسی رہنماؤں کے لیے یہ ان کے حق میں ووٹ کے لیے سب سے اہم وسائل میں سے ایک تھا۔
آندھر پردیش اور مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس رہے 82سالہ لبراہن نے کہا کہ ایڈمنسٹریشن اور کارروائی کے ذریعےانہدام کو روکا جا سکتا تھا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں یہ کہا تھا کہ انہدام یافرقہ وارانہ نفرت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے گئے۔
لبراہن رپورٹ نے کہا، ‘آر ایس ایس، بجرنگ دل، وی ایچ پی ، بی جے پی اور شیوسینا کے کیڈر اپنے رہنماؤں کے ساتھ انہدام کے وقت جائے وقوع پر موجود تھے۔’
رپورٹ میں کہا گیا، ‘انہوں نے یا توفعال ہوکریا غیر متحرک طریقے سے انہدام کی حمایت کی ۔ رام مندر کی تحریک کےکلیدی کرداروں کے ساتھ پرچارک، سادھو سنت، نوکرشاہ اور پولیس افسر، میڈیا اور کارسیوک بھی موجود تھے۔ اس کارروائی میں تمام قوانین کو سیاسی اختیار حاصل کرنے کے لیے ہدایت دی گئی تھی اور اس طرح سیاسی طور پرمطلوبہ نتیجے حاصل کیے گئے تھے۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں اس وقت کی کلیان سنگھ سرکار نے جان بوجھ کر تحریک کےہیرو اور کارسیوکوں کو ایڈمنسٹریشن چلانے اور ایودھیا اور فیض آبادپرحکومت کرنے کی اجازت دی تھی۔
اس میں کہا گیا،‘کلیان سنگھ نے انہدام کے پورا ہونے تک باربار فورسزکی خدمات کا استعمال کرنے سے انکار کیا۔ جب یہ سب ہو رہا تھا، تب انہیں واقعات اور ان کے نتائج کی پوری جانکاری تھی اور کسی بھی ٹھوس کارروائی کے لیے ان کی خواہش نہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔’
کمیشن نے کہا کہ یہ ایک ایسا معاملہ نہیں تھا جہاں سرکار ‘بھیڑ کے غصہ کے خلاف بے بس تھی’ بلکہ اس کے برعکس یہ ایک قابل رحم اور شرمناک معاملہ تھا، جہاں وزیر اعلیٰ اور سرکار، ان کی پارٹی اور ‘پریوار’ کے اندر اور باہر بیٹھے ان کے معاونین نے فعال ہوکر اس تھوڑی بہت سمجھداری اور کامن سینس کو ختم کر دیا، جس سے ‘متنازعہ ڈھانچوں’ کو منہدم کرنے یا آئندہ دنگوں کو روکا جا سکتا تھا۔
اس معاملے میں نوکر شاہی کے رول پر کمیشن نے کہا تھا، ‘یہ بہت صاف ہے کہ سرکار کی پھٹکار کی ڈر سے انتظامیہ کارسیوکوں یا کارسیوا پر کوئی پپابندی نہیں لگا سکتی تھی اور نہ ہی اسے کنٹرول کر سکتی تھی۔’رپورٹ کہتی ہے کہ دسمبر 1992 سے پہلے اڈوانی کی رام جانکی رتھ یاترا‘متنازعہ مقام پر مندر بنانے کے مقصد سے لوگوں کوجمع کرنے کے’مقصد سے کی گئی تھی۔
اس میں کہا گیا،‘یہ ایک قومی سیاسی پارٹی بی جے پی کی قیادت تھی، جو متھرا اور کاشی کے ساتھ ساتھ ایودھیا مندر مدعے پر لوگوں کو جمع کرنے کے لیے آگے آئی تھی۔ اس نے آئین سیکولرازم کو ‘سوڈوسیکولرازم’کہہ کر چیلنج دیا تھا۔’کمیشن نے کہا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو اڈوانی، جوشی اور دیگر جگہ پر موجود تھے اور انہوں نے کارسیوکوں سے نیچے اتر آنے کے ‘کمزور سی اپیل ’ کی۔
رپورٹ میں لکھا ہے، ‘یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا تھا کہ متنازعہ ڈھانچے کو گنبدوں کے اوپر سے منہدم کرنا ممکن نہیں تھا۔ کارسیوکوں سے گربھ گرہ میں نہ جانے اور گنبد کو اندر سے نقصان نہ پہنچانے کے لیے کوئی اپیل نہیں کی گئی۔ رہنماؤں کا اس طرح چنندہ طرح سے کام کرنا ان کے متنازعہ ڈھانچے کو منہدم کرنے کے چھپے ہوئے ارادوں کو دکھاتا ہے۔’
رہنماؤں کا یہ چنندہ کام خود ایک کے چھپے ارادوں کی بات کرتا ہے اور سب کو متنازعہ ڈھانچے کے انہدام کو پورا کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔کمیشن نے اس وقت کی کانگریس کی قیادت والی پی وی نرسمہا راؤ سرکارکی بھی تنقید کی تھی۔کمیشن نے کہا تھا، ‘مرکزی حکومت کو ایسا لگ رہا تھا کہ ریاستی حکومت اپنے انتخابی منشور کے خلاف جائےگی۔
کمیشن نے کہا تھا کہ چنپت رائے (اب رام جنم بھومی نیاس کے جنرل سکریٹری)نے اعلان کیا تھا کہ 6 دسمبر 1992 کو گوریلا طریقہ اپنایا جائےگا۔ یہ اعلان شائع ہوا تھا اور تحریک یاسیاسی پارٹی کے کسی رہنما کی جانب سے اس کے خلاف کچھ کہا یا کیا نہیں گیا۔
اس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا، ‘شواہدکے ااندازے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کارسیوکوں کا جمع ہونا نہ تو آسان تھا اور نہ ہی رضاکارانہ ۔ یہ طے شدہ اورمنصوبہ بند تھا۔’