بابری مسجد انہدام کے وقت مرکزی داخلہ سکریٹری رہے مادھو گوڈبولے نے کہا ہے کہ مسجد گرانے کی سازش کی گئی تھی اور اسی بنیاد پر انہوں نے اس وقت کی اتر پردیش سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کی تھی۔
نئی دہلی: سابق داخلہ سکریٹری مادھو گوڈبولے اور سپریم کورٹ کے سابق جج پی بی ساونت نےخصوصی سی بی آئی کورٹ کے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا ہے، جس میں اس نے بابری انہدام کے 32 ملزمین کو بری کر دیا اور کہا کہ مسجد گرانے سازش کا الزام ثابت نہیں ہوتا ہے۔
گوڈبولے نے انڈین ایکسپریس کو بتایا،‘جب میں نے سنا کہ تمام 32 ملزمین کو بری کر دیا گیا ہے تویقین نہیں ہوا۔ ایسا اس لیے کیونکہ ہم نے سپریم کورٹ کے سامنے تمام حقائق رکھے تھے، جو کہ بابری مسجد گرائے جانے سے پہلے سے شنوائی کر رہا تھا۔ روزانہ شنوائی ہو رہی تھی اور ہم انہیں ہر دن کے بارے میں بتا رہے تھے کہ گراؤنڈ پر کیا چل رہا ہے۔’
انہوں نے آگے بتایا، ‘سپریم کورٹ میں خفیہ بیورو کی وہ رپورٹ پیش کی گئی تھی، جس میں بابری مسجد کو گرانے کی سازش کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ پھر بھی عدالت نے کہا کہ کوئی سازش نہیں تھی۔’گوڈبولے نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس شرط پر کارسیوا کی اجازت دی تھی کہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائےگا۔
مادھو گوڈبولے نے کہا کہ انہوں نے اس وقت وزیر داخلہ شنکرراؤ چوہان سے اتر پردیش سرکار کو برخاست کرنے کی سفارش کرنے کے لیے کہا تھا، کیونکہ بابری مسجد کو منہدم کرنے کی سازش کی جا رہی تھی۔انہوں نے کہا کہ مرکزمیں اس وقت کی پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی سرکار کی جانب سے ان کی سفارشات کو قبول نہیں کیا گیا تھا، جس کے تین مہینے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔
سابق داخلہ سکریٹری نے کہا، ‘میری نوکری ختم ہونے کے 18 مہینے پہلے میں نے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔وجہ بے حد صاف تھی، اس وقت کلیان سنگھ کی قیادت والی یوپی سرکار کو برخاست کرنے کی میری سفارش کو قبول نہیں کیا گیا تھا۔’گوڈبولے نے کہا کہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جانی چاہیے اور سی بی آئی کے رول کی بھی کی جانچ ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ بےحد حیران کن ہے کہ تمام شواہد ریکارڈ پر ہونے اور گواہوں کے بیان دینے کے باوجود فیصلہ ملزمین کےحق میں گیا ہے۔ اس بات کی جانچ ہونی چاہیے کہ ایجنسیوں کی جانب سے سازش ہونے کے شواہد کو کورٹ میں پیش کیا گیا تھا یا نہیں۔ اگرانہیں پیش نہیں کیا گیا ہے توقصوروار سی بی آئی افسروں کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔’
گوڈبولے نے کہا کہ انہوں نے بابری مسجد گرانے کے پورے عمل کو تفصیل سے اپنی کتاب ‘ان فنشڈ اننگز’ میں لکھا ہے، جو کہ 1996 میں شائع ہوئی تھی۔معلوم ہو کہ اس فیصلے پر کافی اعتراضات سامنےآرہے ہیں۔ جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے بھی کہا ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں شہری سازش کا معاملہ پایا تھا۔
معلوم ہو کہ بابری مسجد انہدام کی جانچ کے لیے 1992 میں لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا۔کمیشن نے سال 2009 میں اپنی رپورٹ سونپی تھی۔رپورٹ میں لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی جیسےآر ایس ایس اوربی جے پی کے سینئررہنماؤں کے شامل ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اس وقت کی اتر پردیش سرکار کی بھی ملی بھگت کی بات کہی گئی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا، ‘انہوں نے یا توفعال ہو کریاغیر متحرک طور پرانہدام کی حمایت کی۔’حالانکہ خصوصی سی بی آئی کورٹ نے ملزمین کو بری کرتے ہوئے کہا کہ کچھ شرپسند کارسیوکوں کے گروپ نے مسجد کو منہدم کیا تھا اور ایسے لوگوں کو رام بھکت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مسجد گرانا منصوبہ بند سازش نہیں تھی۔