زیر تعمیر رام مندر کمپلیکس کے قریب واقع ‘مسجد بدر’ کی اراضی کے مبینہ متولی کی جانب سے اسے 30 لاکھ روپے میں شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کے ‘خفیہ’ معاہدے اور آدھی رقم پیشگی کے طور پرلینے پر مسلم نمائندوں نے سوال اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سودا کرنے والے نہ ہی متولی ہیں، اور نہ ہی وقف بورڈ کی ملکیت ہونے کے باعث ان کے پاس اس کو فروخت کرنے کا اختیار ہے۔
ایودھیا: زیر تعمیر رام مندرسے ملحق انگد ٹیلے کی 1.6 ایکڑ اراضی پر قبضہ کرنے کی مبینہ کوششوں کے درمیان انتظامیہ کی جانب سے اسے نزول قرار دینے کے تنازعہ میں ہنومان گڑھی کے ناگا سادھوؤں کی طرف سے شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ پر کئی سنگین الزامات لگانے اور احتجاج کی دھمکی دینے کا معاملہ ابھی سرد بھی نہیں پڑا تھا کہ ایک مسجد کے مبینہ متولی کے ذریعے 30 لاکھ روپے میں اس کی زمین شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کا ‘خفیہ’ معاہدہ کرنے اور 15 لاکھ روپے پیشگی لے لینے کے انکشاف نے شہر میں ایک نیا ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک برادری کے مذہبی مقام کے لیے دوسری برادری کے مذہبی مقام کی زمین کی خرید و فروخت کی یہ کوشش اپنے آپ میں ایک نادر مثال ہے۔ ایسی مثال قائم کر رہا شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ 2021 میں بھی زمین کے کئی سودوں میں مبینہ بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آیا تھا، جبکہ یہاں متولی کے متولی ہونے پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
‘مسجد بدر’ کے نام سے معروف پانجی ٹولہ میں رام پتھ پر واقع اور مذکورہ انکشافات کے بعد اچانک سرخیوں میں آنے والی یہ مسجد انگد ٹیلے کی طرح زیر تعمیر رام مندر کے احاطے کے قریب ہی واقع ہے اور سنی سنٹرل وقف بورڈ میں وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ ہے۔ اس کا کچھ حصہ حال ہی میں رام پتھ کو چوڑا کرنے کے منصوبے پر عمل آوری کے دوران ‘ہٹایا’ (مسمار کر دیا گیا) تھا، جس کے لیے تقریباً پونے چھ لاکھ روپے کا معاوضہ دیا گیا تھا۔
اس معاوضے سے مسجد کے باقی ماندہ حصے کی مرمت کرائی گئی تھی، تاکہ وہ نماز پڑھنے کے قابل بنی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرحلے پر اس کی مرمت میں رکاوٹ بھی پیدا کی گئی تھی، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور مرمت کے بعد ایک بسوا دو بسوانسی زمین پر کھڑی اس مسجد میں نہ صرف جمعہ کو بلکہ ہر روز نماز پڑھی جاتی ہے۔
اس لیے حال ہی میں اچانک سامنے آنے والی اس حقیقت نے مقامی مسلمانوں کو حیران کر دیا کہ مسجد کے مبینہ متولی محمد رئیس احمد اور نور عالم عرف چاند نے مل کر 30 لاکھ روپے میں اس کی زمین شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کو فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے اور 15 لاکھ روپے کا ایڈوانس بھی لے لیا ہے۔ یہی نہیں، وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ٹرسٹ باقی آدھی رقم ڈیل طے ہونے اور زمین کا قبضہ ملنے کے بعد دے گا۔ مبینہ طور پر اس معاہدے پر ٹرسٹ کی جانب سے اس کے جنرل سکریٹری چمپت رائے نے دستخط کیے ہیں۔
مسلمانوں کے مطابق ایک ستمبر کو ہونے والے اس معاہدے کے بارے میں ایک ماہ تک نہ تو مبینہ متولی اور نہ ہی ٹرسٹ کی جانب سےکوئی بھنک لگنے دی گئی۔ لیکن جیسے ہی یہ خبر پھیلی، ایودھیا کی انجمن محافظ مسجد اور مقابر کمیٹی کے جنرل سکریٹری محمد اعظم قادری کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک وفد رام جنم بھومی تھانے گیا اور پولیس کو عرضی دی کہ معاہدہ پر دستخط کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے اور تحقیقات کر کے معاہدے کو منسوخ کرنے کی کارروائی کی جائے۔
وفد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ معاہدہ کرنے والے محمد رئیس احمد اور نور عالم عرف چاند نہ تو مسجد کے متولی ہیں اور نہ ہی انہیں ایسا معاہدہ کرنے کا اختیار ہے۔
گزشتہ جمعرات کی دوپہر محمد اعظم قادری کی قیادت میں ہی ایک وفد ضلع مجسٹریٹ نتیش کمار سے ملنے گیا اور جب وہ نہیں ملے تو ان کے نام ایک میمورنڈم سب ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رام کمار شکلا کو دیا گیا۔ اس میمورنڈم میں بھی خود کو مسجد کا فرضی متولی بتانے اور اس کی زمین کی فروخت کا معاہدہ کرنے والے رئیس احمد اور نور عالم عرف چاند کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے اور معاہدہ منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اسسٹنٹ سروے وقف کمشنر اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے چیئرمین کو بھی اس معاملے کی جانکاری دی گئی ہے۔ ضلع مجسٹریٹ کے مطابق ،انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امت سنگھ سے معاملے کی تحقیقات کرنے کو کہا ہے، جبکہ شری رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن نے بھی وفد کی طرف سے دی گئی درخواست پر تحقیقات شروع کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
محمد اعظم قادری بتاتے ہیں کہ وقف املاک، جن میں مسجد اور اس کی زمین شامل ہے، کو قانونی طور پر خود وقف بورڈ بھی فروخت نہیں کرسکتا۔ پھر مبینہ متولی وقف کی مسجد کی زمین کی فروخت کا معاہدہ کیسے کرسکتے ہیں؟
دوسری جانب خود کو متولی کہنے والے رئیس احمد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے لوگوں کی رضامندی کے بعد دوسری جگہ مسجد کی تعمیر کے لیے شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کے ساتھ زمین کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس سودے کے لیے وقف بورڈ کی اجازت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی اور اس میں وقت لگے گا۔ اس لیے اس نے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے چھ ماہ کا وقت لیا ہے۔
جہاں تک شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کا تعلق ہے، وہ اس معاملے پر ردعمل سے گریز کر رہا ہے۔
وہیں، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے مقامی سینئر لیڈر سوریہ کانت پانڈے نے سوال اٹھایا ہے کہ اب جب رام مندر کی تعمیر تکمیل کی طرف بڑھ رہی ہے تب بھی ٹرسٹ کی زمین کی پیاس اتنی شدید کیوں ہے کہ یہ کبھی ہنومان گڑھی سے انگد ٹیلے کی زمین ہتھیانے کے پھیر میں پڑ جاتا ہے اور کبھی کسی دوسری برادری کے مذہبی مقام کی زمین خریدنے کے پھیر میں۔
وہ پوچھتے ہیں کہ ٹرسٹ اہلِ وطن سے عطیات کے طور پر ملنے والی رقم سے رام مندر کے احاطے کی کتنی توسیع چاہتا ہے اور دیگر مذہبی مقامات کی قیمت پر یہ توسیع کس حد تک جائز ہے؟
اس طرح ایودھیا میں مذہبی مقامات کی مہنتی حاصل کرنے یا ان کی زمینوں اور جائیدادوں کی خرید و فروخت اور قبضے کے تنازعات کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ مذہبی رہنماؤں اور بیوروکریٹس کی طرف سے کبھی خون ان تنازعات سے فائدہ اٹھانے اور کبھی ان میں مداخلت کرکے اپنے خیرخواہوں کو فائدہ پہنچانے کی سازشوں کی تاریخ بھی پرانی ہی ہے۔
جانکاروں کے مطابق ایسی زمین اور جائیداد کے تنازعات کا ایک بہت طویل سلسلہ ہے، جس میں مذہبی رہنماؤں نے کوئی نہ کوئی کردار ادا کیا، جبکہ بیوروکریٹس کے درمیان ایسے کردار کی سب سے بڑی مثال 22-23 دسمبر، 1949 کو بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے وقت ایودھیا (اس وقت فیض آباد) کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ رہے کے کے کے نیئرنے ادا کیا تھا۔ انہوں نے اس طرح کے تنازعات کے حوالے سے کافی سرخیاں حاصل کی تھیں- حالانکہ وہ صرف نو ماہ اور چودہ دن کےہی اپنے عہدے پررہے تھے۔
دو سینئر صحافیوں کرشنا جھا اور دھریندر کمار جھا نے اپنی مشہور کتاب ‘ایودھیا کی وہ سیاہ رات’ میں لکھا ہے کہ اس مختصر عرصے میں ہی نیئر نے سازش کی اور فیض آباد اور اس کے آس پاس کی بہت بڑی اراضی اور جائیداد پر قبضہ کرکے اپنی بھوک مٹائی۔ کتاب کے مطابق اس کی لالچ کی کوئی حد نہیں تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایشورکے نام پر دی گئی زمین کو بھی نہیں بخشا تھا۔