سپریم کورٹ نے 16 اکتوبر کو ایودھیا معاملے کی شنوائی پوری کر لی ۔ کورٹ نے سیاسی طور پر حساس اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور یہ ایک مہینے کے اندر آنے کی امید ہے۔
نئی دہلی:رام جنم بھومی -بابری مسجد تنازعہ معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے سے پہلے ایودھیا ضلع انتظامیہ نے لاء اینڈ آرڈر بنائے رکھنے کے لیے پبلک پلیس پر بحث و مباحثہ کرانے سے ٹی وی چینلوں پر پابندی لگا دی ہے۔ضلع انتظامیہ نے ڈیبیٹ کے لیے ایودھیا معاملے کے فریقین کو بلانے سےبھی ٹی وی چینلوں کو بین کر دیا ہے۔
غور طلب ہے کہ سپریم کورٹ نے گزشتہ 16 اکتوبر کو ایودھیا معاملے کی شنوائی پوری کر لی ۔ کورٹ نے سیاسی طور پر حساس اس معاملے میں اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے اور یہ ایک مہینے کے اندر آنے کی امید ہے۔ایودھیا کے ڈی ایم انوج کمار جھا نے کہا،’ٹی وی چینلوں کو ایودھیا میں پبلک پلیس پر ڈیبیٹ کرانے پر پابندی لگائی گئی ہے کیونکہ اس سے امن و امان میں خلل پڑ سکتا ہے اور فرقہ وارانہ تشدد ہو سکتا ہے۔ ہم نے ایودھیا میں کرفیو لگایا ہے۔’
حالانکہ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ٹی وی چینلوں کو عوامی مقامات پر ڈیبیٹ کرانے سے روکنا کسی بھی طرح سے نیوز رپورٹنگ کو متاثر نہیں کرے گا۔ایودھیا میں پبلک ڈیبیٹ کرانے کے خواہش مند ٹی وی چینلوں کو ضلع انتظامیہ نے ایک اپلیکیشن فارم جاری کیاہے۔ اس میں تیسرے پوائنٹ میں کہا گیا ہے ،’تنازعہ کے مدعیان کو نہیں بلایا(ڈیبیٹ میں )جائے گا۔’
انفارمیشن ڈپٹی دائریکٹر مرلی دھر سنگھ نے کہا،’ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ اس طرح کی ڈیبیٹ کے دوران اگر مدعیان کے ساتھ کوئی نا پسندیدہ واقعہ ہوتا ہے تو بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔اس لیے ہم نے ٹی وی چینلوں سے ایودھیا معاملے کے کسی مدعی کو نہ بلانے کو کہا ہے۔’
اس سے پہلے نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈاتھارٹی (این بی ایس اے) نے سبھی نیوز چینلوں کو اس معاملے کی رپورٹنگ کرنے کے دوران احتیاط سے کام لینے اور تناؤ پیدا کرنے والی بھڑکاؤ بحث سے دور رہنے کو کہا ہے کیونکہ یہ کشیدگی پیدا کر سکتے ہیں ۔این بی ایس اے سیلف ریگولیٹری ادارہ ہے جو نیوز انڈسٹری میں نشریہ سے متعلق ضابطہ اخلاق اور ہدایات کو نافذ کرتا ہے ۔ اس نے یہ صلاح بھی دی ہے کہ ایودھیا معاملے پر کسی بھی خبر میں وہ بابری مسجد کے انہدام سے متعلق کوئی فوٹیج نہ دکھائیں ۔
این بی ایس اے نے اپنی صلاح میں کہا ہے کہ ، سپریم کورٹ میں جاری موجودہ شنوائی کے مدنظر قیاس آرائیوں پر مبنی کوئی مواد نشر نہ کیا جائے ، اس کے علاوہ فیصلے سے پہلے اس کے بارے میں اور ممکنہ نتایج کے بارے میں کوئی چیز نشر نہ کی جائے جو سنسنی خیز ، بھرکاؤ یا اکسانے والی ہو۔
اس میں نیوز چینلوں سے کہا گیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں زیر التوا شنوائی کے بارے میں تب تک کوئی خبر نشر نہ کریں، جب تک کہ ان کے رپورٹرس یا ایڈیٹر نے ٹھیک طرح سے اس کے حقیقی ہونے کی تصدیق بنیادی طور پر عدالت کے ریکارڈس سے یا شنوائی کے دوران خود موجود ہو کر نہیں کر لی ہو۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چینل ایودھیا معاملے میں لوگوں کے جشن یا مظاہرے دکھانے والے منظر نشر نہیں کریں۔
ایڈوائزری میں کہا گیا ہے ،’کسی بھی خبر/پروگرام کے نشر سے ایسا پیغام نہیں جانا چاہیے کہ کسی بھی کمیونٹی کے تئیں جانبداری کی گئی ہے یا کسی کسی کے تئیں تعصب رہا ہے۔این بی ایس اے نے صلاح دی ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ کسی بھی شخص کو شدت پسند رائے رکھنے کا موقع نہ مل سکے،بحث کے دوران بھی اور ناظرین متاثر نہ ہو سکیں۔ ایسی بحثوں سے بچنا چاہیے جو بھڑکاؤہوں اور عوام کے بیچ کشیدگی پیدا کر سکتی ہوں۔
غور طلب ہے کہ اس معاملے میں گزشتہ 16 اکتوبر کو چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت 5 رکنی آئینی بنچ 40 دن تک مسلسل ہندو اور مسلم فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد شنوائی پوری کر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)