تقریباً چالیس سال قبل ایودھیا میں رہنے والے ‘گمنامی بابا’ کو سبھاش چندر بوس بتائے جانے کی کہانی ایک مقامی اخبار کی سنسنی خیز سرخی کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد نیتا جی کےلیے جذبات کی رو نے لوگوں کو اس مقام پر پہنچا دیا جہاں دلیل اور منطق کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
‘نئے لوگ’ اور ‘جن مورچہ’ میں 1985 میں گمنامی بابا سے متعلق خبریں۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
اپنی حالیہ تاریخ میں مختلف وجوہات کی بناء پر طرح طرح کے سنسنی خیز واقعات سے ایودھیا کا واسطہ پڑتا رہا ہے، لیکن اگر کوئی اچانک اس کی تاریخ کے سب سے سنسنی خیز واقعہ کے بارے میں پوچھ لے تو کئی بار، اور تو اور ایودھیا کے باشندے اور اس کو بہت قریب جاننے کا دعویٰ کرنے والے بھی دنگ رہ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اودھ کے نواب شجاع الدولہ کے فیض آباد(جو حالیہ برسوں تک ایودھیا کا جڑواں شہر ہوا کرتا تھا) کو ریاست کی راجدھانی بنانےکی تاریخ کا حوالہ دینے لگتے ہیں، کچھ اس کے چند سالوں بعد ان کے بیٹے آصف الدولہ کےاچانک اسے لکھنؤ منتقل کر دینے کی تاریخ کا، تو کوئی 1857کی پہلی جنگ آزادی کے شعلوں کے یہاں اٹھنے کا، کوئی کچھ لوگوں کے ذریعے بابری مسجد میں مورتی رکھنے کاتو کوئی اسے گرانےیا’وہیں’ رام مندر کی سنگ بیناد رکھے جانے کا ،بھومی پوجن کایا رام مندر کی تعمیر سے متعلق کسی اور تاریخ کا۔
لیکن ماہرین کے مطابق درست جواب ہے؛ 28 اکتوبر 1985۔ دراصل یہ وہ تاریخ ہے جب فیض آباد سے شائع ہونے والے روزنامہ ‘نئے لوگ'(جو اب شائع نہیں ہوتا) نے شہر کے قدیم ترین روزنامہ ‘جن مورچہ’ پر سبقت لے جانے کے لیے صفحہ اول پر یہ سنسنی خیز بینرہیڈ لائن شائع کرکےتہلکہ مچا دیا تھا کہ؛ ‘فیض آباد کے اگیات واس (گمنامی)کر رہے نیتا سبھاش چندر بوس نہیں رہے؟’
پھر نیتا جی کے لیے جذبات کی رو نے لوگوں کو بہا کر ایک ایسی جگہ پر پہنچا دیا جہاں دلائل کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
مذکورہ بالا سرخی کی بنیادیہ تھی کہ 16 ستمبر 1985 کی رات فیض آباد کے سول لائنز محلہ میں واقع ‘رام بھون’ نامی عمارت میں رہ رہے ‘گمنامی’اورخود کو’گرودیو’، ‘سوامی جی’اور’بھگوان جی’ وغیرہ کہلوانے والے پراسرار بابا کی موت۔ اس بابا کی رہائش سے نیتا جی سے متعلق بہت سےسامان ملے تھے، جن کی بنیاد پر روزنامہ نے دعویٰ کیا تھاکہ وہ نیتا جی سبھاش چندر بوس تھے اور گزشتہ بارہ سال سے ایودھیا-فیض آباد کے مختلف مقامات پر چھپ چھپا کر رہ رہے تھے۔
گمنامی بابا اس قدر گوشہ نشیں تھے کہ جو ان کےنیتا جی ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے، ان میں سے اکثر انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھنے، ان سے روبرو ملاقات یا ان سے بات چیت کا دعویٰ نہیں کر پا رہے تھے اور یہ پوچھنے پر جھنجھلا جاتے تھے کہ ایسے میں بابا کے نیتا جی ہونے کے دعوے کو غیرمشکوک کیسےسمجھا جا سکتا ہے؟
تاہم، بابا کو پہلی بار 1972-73 کے درمیان ایودھیا کے قریب واقع درشن نگر بازار کے ‘شنکر نواس’ کے رہائشی کے طور پر دیکھا گیا تھا۔ وہاں انہیں پڑوسی ضلع بستی کی بانسی ریاست کے ایک سابق نریش(راجا) کی سرپرستی حاصل تھی جس کی وجہ سے اس علاقے میں ان کا بہت زیادہ ‘رعب اور دبدبہ’ تھا۔ اس کے باوجود ان کی پراسرار سرگرمیوں کی وجہ سے ‘شنکر نواس’ کے پڑوسیوں کے ساتھ ان کی نہیں بنی اور انہیں ایودھیا کے تاریخی ہنومان گڑھی کے قریب واقع ایک چھوٹے سے مکان میں جانا پڑا۔
وہاں کی پریشانیوں کے پیش نظر ان کی خدمت کرنے والوں نے جلد ہی برہم کنڈ گرودوارہ کے قریب نسبتاً بڑا مکان کرایہ پر لے لیا، تو وہاں کرایہ کو لے کر جھگڑا ہو گیا، جس کے بعد مکان مالک نے انہیں دو مرتبہ فیض آباد کے سول جج کی عدالت میں گھسیٹا ۔ ان کی ‘مشتبہ سرگرمیوں’ کی تحقیقات کی درخواست پر فیض آباد کے اس وقت کے پولیس چیف نے ان کی شناخت کی ذمہ داری سی آئی ڈی کے ایک انسپکٹر کو سونپی، تو انہوں نے پھر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے پہلے کوتوال کی معرفت مالک مکان کو دھمکیاں دلوائیں، پھر اچانک اس کامکان خالی کر دیا اور ایودھیا کی سبزی منڈی کے قلب میں واقع لکھنؤا مندر چلے گئے۔
لیکن وہاں بھی وہ تنازعات سے پیچھا نہیں چھوٹا۔ کچھ ہی دنوں بعد ایک صحافی نے پولیس سے شکایت کی کہ ان کی خوفناک اور پراسرار سرگرمیاں اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہیں۔ لیکن بابا کے اثر و رسوخ کی وجہ سے ابتدائی تفتیش کے بعد پولیس نے اس معاملے کوٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کی کہ دوسرا فریق صحافی ہے۔
بابا شروع سے ہی اپنے ساتھ ایک خادمہ رکھتے تھے،جن کا نام سرسوتی دیوی شکلا تھا، لیکن بابا انہیں جگدمبے کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بابا اپنے باقی تمام خادموں کو وقفے وقفے سے بدلتے رہتے تھے۔ چونکہ ایودھیا میں باباؤں کی کثرت ہے، اس لیے گمنامی بابا کے عجیب و غریب روزمرہ کے معمولات کے باوجود پڑوسیوں کے علاوہ دیگر لوگ ان کی سرگرمیوں میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے تھے۔ ایسے سوالوں میں بھی نہیں کہ بابا جان بوجھ کر کیوں اپنے ارد گرد طلسم قائم رکھتے ہیں اور کسی سے ملنا تو دور کی بات آمنے سامنے بات کرنابھی گوارہ نہیں کرتے؟
اپنی موت سے دو تین سال پہلے بابا نے لکھنؤا مندر چھوڑ دیا اور ‘رام بھون’ میں رہنے لگے تھے اور ان کے آخری لمحات میں سرسوتی دیوی شکلا عرف جگدمبے کے علاوہ مرد خدمتگار کرشن گوپال سریواستو بھی ان کے پاس تھے۔ ان کی موت کے فوراً بعد ہی ان کے خادم کے درمیان ان کی وراثت پر قبضے کے لیے لڑائی شروع ہوگئی اور سب نے ان کی رہائش گاہ پر اپنے الگ الگ تالے لگا دیے تھے۔
بابا کے قریبی لوگوں نے دعویٰ کیا تھاکہ جب وہ زندہ تھے تو ہر 23 جنوری کو کولکاتہ سے کچھ خاص لوگ نیتا جی کی سالگرہ منانے ان کے پاس آتے تھے۔ لیکن ان کی موت کے بعد بار بار اطلاع دینے کے باوجود کوئی بھی ‘خاص’ ان کے آخری درشن یا آخری رسومات میں حصہ لینے نہیں آیا۔ ان کے خادموں نے دو دن تک بے صبری سے انتظار کیا، پھر مایوس ہو کر خفیہ طور پر گپتار گھاٹ میں ان کی آخری رسومات ادا کر دی۔
کچھ دعووں کے مطابق آخری رسومات سے قبل ان پر کوئی کیمیکل ڈال کر ان کا چہرہ بگاڑ دیا گیا تھا اور کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت تک کسی مقامی اخبار نے ان کی موت اورآخری رسومات کو اتنی بھی اہمیت نہیں دی تھی کہ ایک کالم کی خبر بھی شائع کرتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس وقت تک وہ نیتا جی نہیں بنے تھے۔
انہیں نیتا جی بنانے کا عمل دراصل ان کی موت کے مہینوں بعد شروع ہوا، جب نئے لوگ کی سنسنی خیز بینر ہیڈ لائن سے بنائے گئےجذباتی ماحول کے درمیان اشرافیہ کہے جانےوالے لوگوں کے ایک گروہ کی جانب سے جان بوجھ کر اس بات کی تشہیر کی جانے لگی۔جس ‘رام بھون’ میں بابا کرایہ دار تھے، اس کےمالک، جو فیض آباد کے مشہور سابق سٹی مجسٹریٹ گرودت سنگھ کی اولادوں میں سے ہیں، اس مہم میں سب سے آگے تھے۔
اتفاق سے، یہ وہی گرودت سنگھ ہیں، جنہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ سے صرف چند دن پہلے ملک کی تقسیم کے بعد 22-23 دسمبر 1949 کو فیض آباد کے اس وقت کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے کے کے نیئر کے ساتھ مل کر،
بھگوان رام کو ‘پرکٹ’ کرانے میں ‘بڑا’ کردار ادا کر چکے تھے۔
تاہم، اس پروپیگنڈے نے اس لیے بھی زور پکڑا کہ گمنامی بابا کی لکھاوٹ، پہلی نظر میں، نیتا جی کی ہینڈ رائٹنگ سے ملتی جلتی نظر آتی تھی۔ علاوہ ازیں ان کی رہائش سے ملےنیتا جی سےمتعلق حیرت انگیز ذخیرے میں یہ چیزیں شامل تھیں: نیتا جی جیسے گول شیشے والےسنہری فریم کےمیڈان جرمنی چشمے، رولیکس پاکٹ واچ، فاؤنٹین پین، دوربین، 555 برانڈ کے سگریٹ، غیر ملکی شراب، آزاد ہند فوج کی یونیفارم۔ اس کے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ پوترا موہن رائے کے مبارکبادی کےپیغام، نیتا جی کے والدین اور خاندان کے افراد،کولکاتہ میں ان کی پیدائش کی تقریبات اور لیلا رائے کی موت پرہوئی تعزیتی تقریب کی کی نایاب ذاتی تصاویر، جرمن، جاپانی اور انگریزی ادب کی کئی اہم کتابیں، 1974 میں کولکاتہ کے روزنامہ ‘آنندبازار پتریکا’ میں 24 قسطوں میں شائع ہونے والی رپورٹ ‘تائیہوکو طیارہ حادثہ ایک بنی ہوئی کہانی’ کے تراشے، بھگوان جی کے نام کئی خطوط اور ٹیلی گرام، نیتا جی کی گمشدگی کے معمہ کو حل کرنے کے لیے بنائے گئے شاہنواز اور کھوسلہ کمیشن کی رپورٹس، ہاتھ سے تیار کردہ نقشے، جن میں اس جگہ کی نشاندہی کی گئی تھی جہاں مبینہ طیارے کے حادثے میں نیتا جی کی موت ہوئی۔ ان کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں نیتا جی کے بارے میں متعدد خبروں اور رپورٹس کے تراشے شائع ۔
گمنامی بابا کے پاس ملاسامان۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
یہ مشہور تھا کہ بابا جسے بھی دیتے ہیں نئے کرارے نوٹ ہی دیتے ہیں اور اپنے قریبی لوگوں سے کہا کرتے ہیں کہ،’ اس ملک کے رجسٹر سے میرا نام کاٹ دیا گیا ہے۔’ لیکن ان کو نیتا جی بتانے والوں کو اس وقت بہت زور کا جھٹکا لگا ، جب نیتا جی کی بنائی آزاد ہند فوج کے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے سربراہ رہ چکے پوترا موہن رائے نے انہیں نیتا جی ماننے سے صاف انکار کر دیا۔
‘جن مورچہ’ کےمدیر شیتلا سنگھ نے جب کولکاتہ جا کر ان سےگمنامی بابا کے نیتا جی ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بات چیت کی تو وہ جھنجھلا گئے اور ان سے جواب میں سوال کیا کہ ،’کیا آپ کو لگتا ہے کہ نیتا جی فیض آباد میں گمنامی میں مر جاتے اور میں ان کےآخری درشن یا آخری رسومات کے لیے وہاں جانے کے بجائے کولکاتہ میں بیٹھ کر ہنس ہنس کر آپ سے ان کے بارے میں بات کر رہاہوتا؟’
تاہم، انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ نیتا جی کے زندہ ہونے کی امید میں کئی جگہوں پر جا کر ان کو تلاش کرتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں وہ گمنامی بابا کے پاس بھی گئے تھے،لیکن بابا ایک لمحے کے لیے بھی انہیں نیتا جی نہیں لگے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ بابا کے پاس نیتا جی سے متعلق اشیاء کا اتنابڑا ذخیرہ کہاں سے آیا؟ رائے نے کہا بہت ممکن ہے کہ بابا کو ایسی چیزیں جمع کرنے کا شوق ہو، لیکن ‘وہ اور جو کوئی بھی ہوں ، نتیا جی تو قطعی نہیں ہیں۔’
ویسے بھی عام لوگوں کو نیتا جی کی بہت سی چیزوں کے بابا کے پاس سےملنے کی اطلاع ان کی موت کے 45 دن بعد ملی تھی۔
لیکن ابھی تک کسی کے پاس اس سوال کا واضح جواب نہیں ہے کہ انہیں نیتا جی ثابت کرنے کی کوششوں کے پس پردہ منشا کیا تھی؟ جو بھی رہی ہو، 1999 میں اتر پردیش حکومت کی طرف سے بنائے گئے مکھرجی انکوائری کمیشن کی رپورٹ سے اس کو سخت دھچکا لگا کیونکہ کمیشن نے گمنامی بابا کو نیتا جی ماننے سے انکار کر دیا۔