رام مندر کی تعمیر کے آغاز سے ہی زمین کے سودوں میں بدعنوانی کے باعث ایودھیا سرخیوں میں رہی ہے، حالانکہ اس شہر میں مذہب کے نام پر زمین کے سودوں میں بدعنوانی یا لوٹ کی جڑیں بہت گہری ہیں۔
ایودھیا شہر۔ (تصویر بہ شکریہ: آشش بھٹناگر/CC BY-SA 3.0)
پرانا محاورہ ‘کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے’ آج کی ایودھیا میں’زمین کی دلالی میں ہاتھ کالے ‘ میں بدل کر ‘نئے ‘ محاورے میں ڈھل گیا ہے، تو کئی لوگوں کے نزدیک اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فرقہ پرست طبقہ عام طور اپنے مذہب کی عظمت، اقدار اور اخلاقیات سے صرف اسی وقت تک بندھے رہتے ہیں ، جب تک کہ ان کے مفاد پورے ہوتے رہتے ہیں۔ بصورت دیگر وہ اپنے مفاد کو مذہب سے بڑا بنانے اور اس کی ریاضت کے لیےدھرم ادھر م کا فرق مٹا نے لگ جاتے ہیں۔
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ایودھیا میں ‘زمین کی دلالی’ کے تقریباً سارے کھلاڑی کی بنیادی پہچان فرقہ پرستوں کی ہی ہے۔ کہنا چاہیے – ہندوتوا کے حامی فرقہ پرستوں کی، کیونکہ اس وقت کوئی اور فرقہ پرستی اس کام میں مدد کرنے کی حالت میں نہیں ہے۔
یوں، لوگوں سے پوچھیے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ اس دلالی میں موقع پرست اورفرقہ پرست حکمرانوں، سیاستدانوں، نوکر شاہوں، دھنا سیٹھوں، دھرما دھیشوں، دھندے بازوں اور مافیاؤں میں کس کے ہاتھ زیادہ کالے ہیں۔ تاریخ کے اوراق میں دفن ہو چکے بھودان تحریک کے بانی آچاریہ ونابا بھاوے نے دیا ہوگا کبھی ‘سبئے بھومی گوپال کی’ جیسا نعرہ —یہ پوچھتے ہوئےکہ ‘تامے اٹک کہاں؟’، لیکن ایودھیا میں مذکورہ بالا طبقے کی آپسی ملی بھگت اور کھلم کھلا مچائی گئی لوٹ سے لگتا ہے کہ ان کے ذہن میں اپنے اس ’عقیدے ‘کے بارے میں کوئی ’اٹک‘ نہیں ہے کہ ‘جہاں کی، جو بھی اور جیسی بھی’ زمین ان کو اپنے مفادکے لیے ٹھیک لگے، ان کو جیسے بھی بنے، قبضہ کر لینے کا حق ہے اور کوئی قاعدہ قانون اس ‘حق’ کی راہ میں نہیں آ سکتا۔
(اتفاق سے، ‘سبئے زمین گوپال کی’ کو سب سے پہلے پنجاب میں اپنے وقت کے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1813 میں، ایک بالکل مختلف تناظر میں، اٹک کے قلعے پر قبضہ کرنے کی اپنی فوجی مہم کے دوران استعمال کیا تھا – جب ایک اپھنتی ہوئی برساتی ندی نے ان کی فوج کا راستہ روک لیا تھا۔ اس وقت انہوں نے یہ کہہ کر اپنا گھوڑا ندی میں اتار دیا تھا کہ سبئے زمین گوپال کی تامے اٹک کہاں، جاکے من اٹک ہے سوئی اٹک رہا۔آخر کار، ان کی فوج بھی ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔
یوں کھلےگل!
یہاں ان حقائق اور اعداد و شمار کو دہرانے کا کوئی مطلب نہیں ہے جو انگریزی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ نے پچھلے دنوں ایک
طویل تحقیق کے بعد شائع کیے ہیں اور ہندی اخبارات کی کبھی جان بوجھ کر اور کبھی انجانے میں اس نوع کے حقائق سے آنکھیں بند رکھنے کی فطرت کو بے نقاب کرنے کا کریڈٹ لیا۔
یہ سمجھ لینا کافی ہے کہ 5 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ نے رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کا تصفیہ کر دیا اور اس کے کے مطابق تشکیل پانے والے شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کی نگرانی میں عظیم الشان رام مندر کی تعمیر شروع ہوئی تو مرکزی اور اتر پردیش اور ریاست کی حمایتی حکومتوں نے اس کے متوازی تریتا دور کی عظمت کو بحال کرنے کےبہانے ایودھیا کی اندھا دھند کارپوریٹائزیشن کی پالیسیاں پر تیزی سے عمل شروع کر دیا۔
اس کارپوریٹائزیشن میں اپنے لیے امکانات دیکھ کر مذکورہ موقع پرست طبقے کے عزائم نے سرسا(راکشش) کا روپ دھارنا شروع کیا تو ایودھیا کی کبھی کوڑی کے مول نہ پوچھی جانے والے زمین اچانک سونا بن گئی۔ جلد ہی اس کی خرید و فروخت کی کارروائیوں کو پنکھ لگ گئے اور ایسی ہوڑ مچی کہ قومی شاعر رام دھاری سنگھ ‘دنکر’ سے معذرت کرتے ہوئے ان کے لفظوں میں کہیں تو دھرم،شیل( شائستگی) و سداچار( اخلاقیات) جو بھی اس ہوڑ میں حائل ہو ، ان کے سر پر تقریباًایک جیسی لکد زنی کی جانے لگی۔
اس طرح کی لکد زنی کے سلسلے میں،اور تو اور شری رام جنم بھومی تیرتھ ٹرسٹ کا نام بھی سامنے آنے سے نہیں بچا- ایک نہیں بلکہ کئی کئی بار نام سامنے آیا، اس کے مبینہ بدعنوانی کے کئی دستاویزوں کے ساتھ – اور پھر ان کی تحقیقات کے مطالبات بھی اٹھائے گئے۔ لیکن بالآخر وہی کہاوت سچ ثابت ہوئی کہ سیاں کوتوال تو ڈر کاہے کا؟
ویسے،کئی ماہرین کے مطابق سیاں کوتوال نہ ہوں تو بھی، کالے دھن کو سفید کرنے کا ایک بہترین طریقہ اس سے زمین خرید لینا بھی ہے، کیونکہ اس کو روکنے کے لیے جو قانونی پابندیاں لگائی گئی ہیں، اس طبقے کے لیےان کا توڑ نکالنے میں ذرا دیرنہیں لگتی،جن کے بارے میں گوسوامی تلسی داس کہہ گئے ہیں- ‘سمرتھ کو ناہیں دوس گوسائیں’۔
حکومت کا موقف توواضح ہے
تاہم، اس سلسلے میں دیگر پارٹیوں کے کردار کی نشاندہی کے لیے تحقیقات وغیرہ کی ضرورت ہو سکتی ہے، لیکن اتر پردیش حکومت اور ایودھیا کی مقامی انتظامیہ کا کردار تو بغیر کسی چھان بین کے اس حقیقت سے ہی واضح ہے کہ انہوں نے ایودھیا میں 2017 کے بعد یعنی پچھلے سات سالوں سے زمین کے سرکل ریٹ کا دوبارہ تعین نہیں کیا۔
عام طور پر، ضلع مجسٹریٹ ہر سال مارچ کے مہینے میں اس شرح کو دوبارہ طے کرنے یعنی بڑھانے پر غور کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ایسا نہ ہونے کی وجہ سے زمین کے مالکان کو، جن میں سے زیادہ تر چھوٹے یا درمیانے درجے کے کسان ہیں، کو اپنی زمین پرانی شرح پر یعنی کوڑیوں کے مول اس مطلب پرست طبقے کو فروخت کرنی پڑی(ابھی بھی پڑ رہی ہے) جو ان پر گدھ کی نظر رکھے ہوئے تھے اورفروخت کے لیے دباؤ بنوا رہے تھے– بعض اوقات انتظامیہ کے ذریعے بھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان زمین مالکان کی زمین سرکاری اسکیموں کے لیے لی گئی توبھی ان کی تقدیر نہیں بدلی، کیونکہ اس کا معاوضہ بھی انہیں2017 کے سرکل ریٹ کے مطابق دیا گیا۔ اس صورتحال میں زمین کے سودوں کی لکھا پڑھی کے لیےاسٹامپ کی ضرورت نہ بڑھنے سے سرکاری ریونیو کا نقصان بھی ہوا، لیکن حکومت میں کسی بھی سطح پر کسی نے اس کی پرواہ نہیں کی۔
اب جب بھی سرکل ریٹ میں اضافہ ہو اور آنے والے دنوں میں اس میں اضافہ یہ ناگزیر ہی ہے، تو سب سے زیادہ منافع ان موقع پرستوں کو ہی ہوگا جنہوں نے زمین مالکان سےاونے پونے زمین خریدرکھی ہے۔ ایودھیا (فیض آباد) سے سماج وادی پارٹی کے نئے ایم پی اودھیش پرساد ان کی بابت کہہ رہے ہیں کہ ان تمام موقع پرستوں کی شناخت جو بھی ہو، سب سے بڑی اجتماعی شناخت یہ ہے کہ یہ سب ‘بڑی پونجی والے’ ہیں، ‘بی جے پی سے وابستہ’ ہیں یا ان کے اور ان کی سرکاروں کے حامی ہیں۔ انہوں نے ان سرکاروں کی حوصلہ افزائی سے ہی عام کسانوں کی اربوں روپے کی زمین کوڑیوں کے مول لینے میں کامیاب حاصل کر لی ہے اور اب زیر تعمیر رام مندر سے پندرہ بیس کلومیٹر کے دائرے میں آنے والی زمین کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ چکی ہیں اور مستقبل میں اس کی قیمت اور بڑھے گی ہی ، اس لیے ان کی بانچھیں کھلی ہوئی ہیں۔
بہت پرانا ہے مرض!
لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کے آغاز کے بعد سےہی زمین کے سودوں میں بدعنوانی یا زمین کی لوٹ کے حوالے سے ایودھیا جب بھی سرخیوں میں آتی ہے تو اس کا چرچہ خوب چٹخارے لے کر کیا جاتا ہے، لیکن اس بات کو بھلا دیا جاتا ہے کہ اس بدعنوانی یا لوٹ کی جڑیں بہت پرانی اور گہری ہیں۔
کے کے کے نائر، جو 22-23 دسمبر 1949 کو
بابری مسجد میں مورتیاں رکھے جانے کے وقت فیض آباد کے اسسٹنٹ کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے، نے اس لوٹ کو ایک ‘نئی جہت’ دی اورنو ماہ اور 14 دن کی اپنی مدت میں خود کو بڑی جائیداد کا مالک بنا ڈالا تھا۔
دو سینئر صحافی کرشنا جھا اور دھریندر کمار جھا نے اپنی معروف کتاب ‘ایودھیا کی وہ سیاہ رات’ میں اس کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ نائر نے فیض آباد اور اس کے آس پاس بہت سی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ کر کے اپنی بے پناہ بھوک مٹا ئی۔ انہوں نے بھگوان کے نام پر عطیہ کی گئی زمین کو بھی نہیں بخشا اور ایودھیا کے رانوپالی میں واقع نانک شاہی مندر کے اس وقت کے مہنت کیشوداس کی افیون کی لت کا استعمال کیا اور مندر کی زیادہ تر زمین کو اپنے خاندان کے نام کروا لیا۔
مصنفین کے مطابق، اس سلسلے میں نائر کے لالچ کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ بابری مسجد میں ‘معجزہ’ کروانے کے بعد تو ان کے لیے ‘زمین کے عطیات’ کی بارش بھی ہونے لگی تھی۔ ایک تنظیم نے فیض آباد رائے بریلی روڈ پر واقع اپنے پورے ‘لکھ پیڑوا’ یعنی ایک لاکھ درختوں کا باغ ان کے نام کر دیا تھا۔ گورکھپور واقع گئورکش پیٹھ کے اس وقت کے مہنت دگوجئے ناتھ، جن کے علاقے کے زمینداروں اور چھوٹے موٹے راجاؤں سے گہرے تعلقات تھے، ‘زمینوں پر قبضہ کرنے کی مہم’ میں نائر کے سرگرم ساتھی تھے۔
اس ‘مہم’ سے فائدہ اٹھانے والے صرف نائر ہی نہیں تھے۔ ان کے بہت سے قریبی لوگوں نے بھی اس کا فائدہ اٹھایا، جن میں سے اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا کی فیض آباد اکائی کے اس وقت کے جنرل سکریٹری گوپال سنگھ وشارد بھی تھے ۔
دو جولائی 1951 کو وشارد نے مہنت دگوجئے ناتھ کو خط میں جو کچھ لکھا، اس سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے؛
’’آپ کے آنے سے، حقیقت میں بہار کی آمد کی طرح ہندو ؤں میں نئی زندگی آگئی ہے، جس کی بنیاد پر ہم ہندو راشٹرکی تعمیر کے لیےروشنی حاصل کر سکیں گے… جناب نائر صاحب دو سو بیگھہ زمین مجھے بھی دینے جا رہے۔ یہ کہہ کر کہ میرے پاس زمین سے متعلق کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اور پھر وہ اصرار کے ساتھ ایسا کرنے جا رہے ہیں، حالانکہ میں نے کبھی اس خواہش کا اظہار نہیں کیا ہے۔‘‘
نائر نے زمینداروں کو اس طرح لوٹا
دراصل، جب (ایک جون 1949 سے 14 مارچ 1950 تک) نائر فیض آباد میں عہدے پرفائز تھے اور بہت سے پلاٹ پر قبضہ کر کے امیر ہو رہے تھے، زمینداروں کی زمینداری اور چھوٹے چھوٹے راجاؤں کی ‘حکومت’ اپنے خاتمے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ وہیں، اتر پردیش حکومت زمینداری کو ختم کرنے کے لیے قانون بنانے کی طرف بڑھ رہی تھی۔
اس سے پہلے اس نے مقررہ ٹیکس ادا نہ کرنے والے راجاؤں اور زمینداروں کی زمین اور دیگر جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیےانکمبریڈ اسٹیٹ ایکٹ بنایا تو نائر نے اس میں اپنے لیے بڑا موقع دیکھا اور ٹیکس کے بقایہ دار راجاؤں اور زمینداروں کی جائیدادیں قبضے میں لے لیں- حکومت کے لیے نہیں، اپنے اور اپنے پیاروں کے لیے۔ ان میں سب سے بڑی اور بیش قیمتی زمین ‘لور پور اسٹیٹ’ فیض آباد میں سول لائنز کے وسط میں واقع تھی جسے ‘لور پور ہاؤس’ کہا جاتا تھا۔
اسے پالینے کے بعد نائر نے اسے کچھ عرصے کے لیے اپنی رہائش گاہ بھی بنایا۔ لیکن بعد میں اسے چھوٹے چھوٹے پلاٹوں میں بیچ دیا اور نائر کالونی کھڑی کر دی گئی۔ نائر نے لورپور اسٹیٹ کے پلیا شاہ آبادی اور گونڈہ ضلع کے ٹکری کے ایک گاؤں میں بھی اسی طرز پر زمین پر قبضہ کیا۔
تاہم، اس تناظر میں سماج وادی وچار منچ، اتر پردیش کے کنوینر اشوک شریواستو طنزیہ انداز میں کہتے ہیں، ‘ کیا سمجھتے ہیں آپ ؟ جو لوگ ایودھیا کے نام پر ملک میں اقتدار پر قبضہ کریں گے، ان کے لوگ زمین لوٹنے کا موقع ہاتھ آنے پر بھی اس میں ہاتھ نہیں آزمائیں گے؟‘
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)