چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ کیا آپ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اتنے سالوں سے چل رہا یہ پورا تنازعہ جائیداد کے لیے ہے ؟ ہم صرف جائیداد کے حقوق کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن ہم رشتوں کے اصلاح کے امکانات پر غور کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام جنم بھومی-بابری مسجد زمین تنازعہ سلجھانے کے لئے صلح کا مشورہ دیتے ہوئے منگل کو کہا کہ وہ رشتوں کو سدھارنے کے امکان پر غور کر رہا ہے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی کی صدارت والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے کہا کہ اس معاملے کو عدالت کے ذریعے تقرر کیے گئے ثالثی کو سونپنے یا نہیں سونپنے کے بارے میں 5 مارچ کو حکم دیا جائےگا۔
بنچ نے کہا کہ اگر صلح کا ایک فیصد بھی امکان ہو تو سیاسی نظر سے حساس اس زمینی تنازعے کے حل کے لئے اس کو ایک موقع دیا جانا چاہیے۔ آئینی بنچ کے دیگر ممبروں میں جسٹس ایس کے بوبڈے، جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس عبدالنذیر شامل ہیں۔بنچ نے عدالت کی رجسٹری سے کہا کہ تمام فریق کو 6ہفتے کے اندر سارے دستاویزوں کی ترجمہ کی ہوئی کاپیاں دستیاب کرائیں۔
بنچ نے کہا کہ اس معاملے پر اب آٹھ ہفتہ بعد سماعت کی جائےگی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ اس آٹھ ہفتے کی مدت کا استعمال صلح کے امکان تلاش کرنے کے لئے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ہی اس معاملے میں سماعت کی جائےگی۔اس معاملے میں سماعت کے دوران جہاں کچھ مسلم فریق نے کہا کہ وہ اس زمینی تنازعے کا حل تلاش کر نے کے لئے عدالت کے ذریعے ثالثی کی تقرری کے مشورہ سے متفق ہیں، وہیں رام للا وراج مان سمیت کچھ ہندو فریق نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ صلح کی کوشش پہلے بھی کئی بار ناکام ہو چکی ہے۔
بنچ نے فریقوں سے پوچھا کہ کیا وہ اس زمین تنازعے کا حل تلاش کرنے کے لئے صلح کے امکان تلاش کرسکتے ہیں؟بنچ نے کہا، ‘ اگر ایک فیصد بھی امید ہو تو صلح کی جانی چاہیے۔ کیا آپ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اتنے سالوں سے چل رہا یہ پورا تنازعہ جائیداد کے لئے ہے؟ ہم صرف جائیداد کے حقوق کے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں لیکن ہم رشتوں کو سدھارنے کے امکان پر غور کر رہے ہیں۔ ‘
اس پر، ایک مسلم فریق کی طرف سے سینئر وکیل راجیو دھون نے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا اور کہا کہ پہلے بھی صلح کی کوشش کی گئی لیکن وہ ناکام رہی۔رام للا کی طرف سے سینئر وکیل سی ایس ویدناتھن نے کہا کہ وہ کسی بھی طرح کی صلح کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ ہم صلح کا دوسرا دور نہیں چاہتے۔ ‘
اس سے پہلے، سماعت شروع ہوتے ہی بنچ نے کہا کہ اگر دستاویزوں کے ترجمہ کے بارے میں عام اتفاق ہے تو آگے کارروائی شروع کر سکتی ہے۔ بنچ نے کہا، ‘ اگر ترجمہ شدہ دستاویز سبھی کو قابل قبول ہیں، کوئی بھی فریق سماعت شروع ہونے کے بعد ترجمے پر سوال نہیں اٹھا سکتا ہے۔ ‘بنچ نے اس معاملے میں دستاویزوں کی حالت اور سیل بند ریکارڈ کے بارے میں سپریم کورٹ کے سکریٹری جنرل کی رپورٹ کی کاپیوں کا ذکر کیا اور چیف جسٹس نے دونوں فریق کے وکیلوں سے کہا کہ وہ ان کا تجزیہ کر لیں۔
اس پر دھون نے کہا کہ ان کو ترجمہ شدہ دستاویزوں کو ابھی دیکھنا ہے اور ان کو دستاویزوں کے ترجمے کی سچائی کو بھی پرکھنا ہے۔وید ناتھن نے کہا کہ ترجمے کی تصدیق کی گئی تھی اور تمام فریق نے دسمبر، 2017 میں اس کو منظور کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اتر پردیش حکومت کے ترجمے کی تفتیش کے بارے میں حکم دیا گیا تھا اور اب دو سال بعد ان پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اس پر، سپریم کورٹ نے فریقوں کو وہ حکم دکھانے کے لئے کہا جس میں وہ اتر پردیش حکومت کے ذریعے داخل ترجمہ شدہ دستاویزوں پر متفق ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے جب مسلم فریقوں سے پوچھا کہ ترجمے کی جانچ کے لئے ان کو کتنا وقت چاہیے تو دھون نے کہا کہ ان کو12-8 ہفتے کا وقت چاہیے۔الٰہ آباد ہائی کورٹ کے 2010 کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں کل 14 اپیل دائر کی گئی ہے۔ ہائی کورٹ نے 2.77 ایکڑ متنازعہ زمین تین حصوں میں سنی وقف بورڈ ،رام للا اور نرموہی اکھاڑے کے بیچ باٹنے کا حکم دیا تھا۔