حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔
نام میں کیا رکھا ہے؛شیکسپیئر سے منسوب اِس قول نے ہمیشہ مجھے اُلجھایا ہے۔ پھر اس پرجناب کی طرف سے یہ وضاحت کہ گلاب کو جس نام سے بھی پکارا جائے، وہ گلاب ہی رہے گا اُس کی خوشبو میں فرق نہیں پڑے گا، مزید اُلجھن میں ڈالتا رہا ہے۔گلاب کیا ہے؟ ایک پھول، پھول تو کئی قسم کے ہو سکتے ہیں؟ بیلا، چمیلی، گیندا، کنول، نرگس، یاسمین، سوسن، نسترن، گل دوپہر، رات کی رانی، گڑہل، گلاب وغیرہ وغیر ہ ۔ سب کی اپنی خوشبو ۔ کسی کی کم کسی کی زیادہ ۔ کسی کی اتنی تیکھی کہ سر کو چڑھے اور کسی کی ایسی ملائم کہ پھسلتی ہوئی شامہ میں اُترے اور روح تک کو معطر کردِے۔ ہر خوشبو کی پہچان اس نام سے جڑی ہوئی ہے جو اس پھول کا ہے ۔
گویا نام ہی سے تو پہچان قائم ہوتی ہے ۔ ایک ملاقات میں خالدہ حسین سے مکالمہ چل رہا تھا۔ بات نام پر آئی تو کہنے لگیں ؛ اگر کوئی پوچھے کہ میں کون ہوں؟ تو میرا جواب ہوگا:خالدہ حسین۔ یہ نام محض چند حروف کا مجموعہ نہیں ہے میری شناخت بھی ہے۔ میرے وجود کی پہچان ۔میں خالدہ حسین ہوں یا اس نام کے خول کے اندر جو وجود ہے وہ خالدہ حسین ہے ؟آپ دونوں کو الگ نہیں کر سکتے۔ یہ نام محض میرے وجودکا خول نہیں ہے جسے اُتار دینے اور الگ کر دینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ یہ نام والی بات خالدہ حسین کے ہاں تخلیقی سطح پر بھی مسئلہ ہوئی ہے ۔ اُن کے ایک افسانے میں جب بچی کا نام نہیں لیا جاتا تو اسے اپنی شخصیت منہدم ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔
والدین بہت سوچ سمجھ کر بچوں کے نام رکھتے ہیں ۔ جو نام رکھا جائے اس کے معنی اچھے ہوں ۔ کوئی نام ایسا نہ ہو جو تاریخی ا علاقے میں پہلے سے بدنام ہے۔ قدامت پسند مذہبی طبقہ ہو یاوہ جدیدطبقہ جوبہت سی روایات کو جھٹک چکا ہے اچھے شگون والے ناموں کوہی پسند کرتا ہے تاہم جس علاقائی پس منظر سے میرا تعلق ہے وہاں نام رکھتے ہوئے بعض اوقات زیادہ سوچا نہیں جاتا تھا۔ لڑکی گوری چٹی ہوئی تو اس کا نام سفیداں یا مکھنی ہو گیااور شب رات کو پیدا ہوئی تو شبراتن۔
لڑکا رمضان کے مہینے میں پیدا ہوا توملک رمضان اور عید کے روز پیدا ہوا تو عید محمد ورنہ دریا ،پہاڑ، سمندرکے آگے خان لگا کر نام بنا لیا۔ اس سب کے باوجود جب کوئی نام پاکر یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو جہاں ماں باپ کی جھڑکیوں سے ، روک ٹوک اور نصیحتوں سے ، ان کے قول و فعل سے اور ان کے دوسروں کے ساتھ لین دین سے اثر قبول کرکے اپنی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں وہیں اپنے نام سے بھی اثر قبول کر رہے ہوتے ہیں ، کچھ یوں کہ اسی نام کے سانچے میں ان کی شخصیت چست بیٹھ جاتی ہے۔
ہم سب بھائیوں اور بہنوں کے نام رکھتے ہوئے اباجان نے ایک قرینہ رکھا ہواتھا یہی کہ نام کا مفہوم خوب ہو، سننے اور لکھنے میں اچھا لگے اورسب بھائیوں کے ناموں میں ایک صوتی رشتہ بھی قائم ہو جائے۔ ہم سب بھائیوں کے نام ‘محمد’سے شروع ہوتے ہیں۔ اباجان کی جانب سے یہ التزام خیر و برکت کے لیے بھی تھا اور عشق رسول کے سبب بھی جس کے مظاہر ہم اُن کے ہاں کئی مواقع پر دیکھتے آئے تھے۔ سب بھائیوں کے ناموں میں ایک صوتی رشتہ قائم کرنے کے لیے ہر نام ‘د’ پر ختم ہوتا ۔
یہ بھی پڑھیں:محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ
میرا نام جو اباجان کی ڈائری میں پیدائش والے اندراجات کے صفحے پر درج تھا وہ ‘ محمد حمید’ تھا ۔ پرائمری اسکول میں داخلے کے وقت بھی یہی نام لکھوایا گیا مگر میں نے بعد ازاں ‘شاہد ‘ کا اضافہ خود کر لیا تھا۔ میٹرک کا زمانہ تھا اور جو استاد مکرم ہم سے امتحان کے لیے بورڈ کا فارم پُر کرارہے تھے، اُن کی طرف سے اجازت بھی مل چکی تھی کہ جو کوئی اپنے نام کے ساتھ کچھ لگانا چاہے لگالے۔ یہیں بتاتا چلوں کہ سال ڈیڑھ سال سے مجھے اپنے نام کے باب میں ایک اُلجھن سی ہو چلی تھی کہ شایدیہ مناسب نہ تھا۔ اُن دنوں میں لفظوں کے لغوی معنوں سے چھری کٹاری کرنے لگا تھا۔ خیال گزرتا عبدالحمید نام ہوتا تواچھا ہوتا مگر اس طرح میرے نام کا آغاز بھائیوں کے نام سے مختلف ہو جاتااور ایسا مجھے قبول نہیں تھا۔
اپنے نام پر غور کرنے کا سلسلہ رُکا نہیں ۔ مجھے اپنے نام کا پہلا حصہ محض اسم صفت نہ لگتاتھا جناب رسالت مآب ﷺ کا اسم پاک لگتا تھا۔ نام کا یہ حصہ دوسرے حصے سے جڑنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے ہر کہیں سے نبی پاک ﷺ پر درود بھیجا جا رہا ہو۔لیکن جب سے مجھے پتہ چلا تھا کہ ‘ حمید’ خدا وند کریم کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے،میں اپنے دو لفظی نام کا عجیب و غریب خاکہ بناتا رہتا۔ نہ جانے کیوں میں اِن دوالفاظ کو محض نام کے طور پر قبول کرتے ہوئے خود کو گناہ گار اور بے ادبی کا مرتکب سمجھنے لگا تھا۔ میٹرک کے امتحان کے لیے داخلے کا فارم بھرتے ہوئے اِس اُلجھن سے نکلنے کی صورت یوں نکلی کہ میں نے اپنے نام کے ساتھ ‘شاہد ‘ کا اضافہ کر لیا۔
میرے چھوٹے بھائی کا نام محمدشاہد تھامگر نہ جانے کیوں مجھے یہ احساس ہو چلا تھا کہ ‘شاہد ‘ ہی وہ لفظ ہے جو میرے نام کے ساتھ جڑ کر اسےایسے معنی عطا کر سکتا تھا جو مجھے مطمئن کر سکیں۔ اپنے نام کے بعد بار بار میں نے ‘شاہد ‘ لکھ کر دیکھا ہر بار مجھے یوں لگتا جیسے آسمان کی وسعتوں سے میرے آقا ﷺ پردرود و سلام بھیجا جارہا ہو۔ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ۔ اور میں دور کہیں زمین کے الگ تھلگ ٹکڑے پر مؤدب کھڑا سارے نورانی اور پرجمال منظر کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ میں آٹھویں یانویں درجے میں تھا کہ ان دنوں ختم نبوت تحریک کے حوالے سے اخبارات میں تین علماء کا بہت ذِکر ہورہاتھا؛ سید مودودی، مولانا مفتی محمود اور شاہ احمد نورانی۔
یہ بھی پڑھیں:سبت کا دِن
اباجان کے یہاں جو مختلف جرائد آتے رہتے تھے ان میں مجھے اِن تینوں کے پتے مل گئے میں نے اپنے نام والی اُلجھن کے بارے میں استفسار پر مشتمل ایک خط تیار کیا اور تینوں کو الگ الگ بھیج دِیا۔ مجھے صرف سید مودودی کی طرف سے خط کا جواب ملا تھا ۔ اُن کے خط میں مجھے مطمئن کرنے کے لیے بڑی دلیل سے بات کی گئی تھی مگر میری اُلجھن رفع نہ ہوئی ۔ ستم یہ ہوا کہ میں وہ خط پاکرایک اور اُلجھن میں گرفتار ہو گیا تھا۔
ہوا یوں کہ مودودی صاحب نے اُردو ٹائپ کی عبارت کے آخر میں والسلام کے بعد اپنے قلم سے اپنا نام ‘ابوالاعلیٰ’ لکھا تھا۔ میری الجھن یہ تھی کہ یہ نام درست کیسے ہو سکتاتھا جب کہ اعلیٰ ذات تو بس ایک ہی تھی۔ میں جب جب سجدے میں جاتا تھا یہی تو دہراتا آیاتھا: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَی۔
میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔