حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛ تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔
میں اپنے والدین کا پہلا نہیں چوتھا بچہ تھا لہٰذا کوئی گماں باندھ سکتا ہے کہ میری پیدائش اُس گھر میں کوئی غیر معمولی واقعہ نہ رہا ہوگا۔ وہ ایک ننھے منے وجودکو پاکر خوش ہوئے ہوں گے مگر اُتنا نہیں جتنا کوئی اپنی پہلی اولاد پر خوش ہوتا ہے۔ میرے ماں باپ پہلی پہلی اولاد کی خوشی میری پیدائش سے دس برس پہلے منا چکے تھے۔ میں 1957ء میں پیدا ہوا تھا اور سب سے بڑے بھائی جاوید 1947ءمیں ۔ بہن زرینہ اور بھائی خورشیدہم دو کے بیچ آئے تھےاور اپنے حصے کی توجہ اور محبتیں سمیٹ رہے تھے ۔ میرے بعد اس گھر میں بچوں کی پیدائش کا سلسلہ رُکا نہیں تھا ؛ وحید، نوید،شاہد،زاہد اور بہن امینہ ۔اور جب میں ہوش سنبھال چکا تھا تو بہ چشم خود مشاہدہ کر رہا تھا کہ ہر وجود کی آمد پر یوں خوشی منائی جاتی تھی جیسے کہ وہ پہلا بچہ ہو۔ ہر بچے کو اباجی نے گھٹی پلائی ۔ کان میں اذان بھی وہی دیتے ۔ اس مقصد کے لیے ایک کاغذ کو گول گول لپیٹ کر اس کی کیف سی بنا لی جاتی تھی اور وہ کیف کے کھلے سرے میں منہ رکھ لیتے۔ اس کیف کے ذریعے بچے کے کان میں پہنچائی جانے والی آواز بہت مدہم رکھی جاتی تھی؛یوں جیسے سرگوشی کی جارہی ہو۔ اس موقع پر شیرینی تقسیم ہوتی۔ ساتویں دِن نائی گھر آتا ۔ نومولود کی جھنڈ اُترائی ہوتی۔ جو بال اُترتے اُن کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کی جاتی ۔ ساتویں روز عقیقہ ہوتا۔بچے کا نام بھی اسی روز رکھا جاتا ۔ لڑکا ہوتا تو ساتویں روز ہی ختنے ہوتے ۔ ختنے ہسپتال میں نہیں نائی کیا کرتا تھا۔ عزیز اقربا جمع ہوتے مکھڈی حلوا پکتا ۔ شہر کے خواجہ سراآ دھمکتے ۔ناچتے گاتے اورجب تک انہیں وہ سب دِے نہ دیا جاتا جس کی وہ توقع باندھ کر آئے ہوتے تو ٹلتے نہ تھے۔ میں تصور باندھ سکتا ہوں کہ میری پیدائش کے بعد بھی یہ سارا ہنگامہ رہا ہوگا۔ کسی زچہ کے ہسپتال میں داخل ہونے اور اُس کے لیبر روم میں گائنی ڈاکٹر کی نگرانی میں آپریشن کے ذریعے بچے کی پیدائش یوں لگتا ہے جیسے معمول بنتا جارہا ہے ۔ تب گھر میں پیدا ہونا معمول تھا اور ہسپتال جانے کا مطلب تھا معاملہ ہاتھوں سے نکل چکا ہے ۔ میں ہسپتال میں نہیں اپنے گھر میں پیدا ہوا تھا۔ میں ہی کیا ہم سب بہن بھائی گھر کے ایک مخصوص کمرے میں پیدا ہوئے تھے ۔ جب میں چھوٹا ہونے کے باوجود چیزوں کو سمجھنے لگا تھا تب مجھے اندازہ ہو جایا کرتا تھا کہ گھر میں نئے بچے کی آمد آمد ہے۔ دائی اماں گھر میں گھستیں تو میں چوکنا ہو جاتا ۔ دوسری نشانی وہ دہکتے انگاروں سے بھری ہوئی پرات تھی جو اس کمرے کے وسط میں رکھ دی جاتی۔ تیسری نشانی ہرمل کی دُھونی تھی۔ یہ نام میں نے دائی اماں سے سنا تھا جو پرات کے کوئلوں پر کچھ ایسا ڈالا دیتی تھیں کہ تڑ تڑ کی آواز اور بہت سارا دھواں نکلتا تھا ۔ اس دھوئیں کی خاص مہک تھی، جس سے وہ سارا کمرہ بھر جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کمرہ بند ہو جاتا۔ اب دائی اماں کو کچھ چاہیے ہوتا تو تھوڑا ساپٹ کھول کر منھ نکالتیں اورکہہ دیتیں۔ جو چاہیے ہوتا میں یا کوئی دوسرا بھائی بھاگ کر لے آتا اور انہیں تھما دیتے تھے ۔ کمرے کا دروازہ بند رہتا اور ہمیں اس کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جاتا تھامگر ہمارے کان اسی کی سمت لگے رہتے تھے۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر باہر نکلتیں تو ہم اُن کی طرف لپکتے ۔ وہ ہم سے بے نیازیوں گھر کے بڑوں کی طرف بڑھ جاتیں جیسے کوئی علاقہ فتح کرکے نکلی ہوں ۔ ایک ایک کو مبارکباد دیتیں اور جس کے بس میں جو ہوتا انہیں انعام دیتا۔موقع پا کر ہم کمرے میں گھس جاتے تھے۔ میں بتا چکا ہوں کہ بچوں کے ختنے بھی گھر میں ہی ہوا کرتے تھے۔ جس طرح کا چلن اب ہو چلا ہے کہ ہسپتال گئے ،ختنے کے نام پر چھوٹے سےپروسیجر سے ماس کٹوا کر الگ کروایا ، بڑا سا بل ادا کیا اور گھر لوٹ آئے۔ ڈاکٹر نے مرہم پٹی کر دی ، سو وقت پر زخم مندمل ہوگیا۔ اللہ اللہ خیر صلا ۔ اور یہ سارا کچھ یوں خاموشی سے ہو جاتا ہے کہ کسی عزیز رشتہ دار کو خبر تک نہیں ہوتی ۔ ہمارے وقتوں میں ختنوں کا اہتمام اہم واقعہ ہوجاتا تھا ۔ اس رسم کو مسلمانی بٹھانا یا سنت کروانا کہتے ۔ جنہیں اس تقریب میں بلایا جانا مقصود ہوتا اُن کی فہرست بنتی اور نائی کے حوالے کر دی جاتی۔ وہ خوشی خوشی دعوت دینے گھر گھر جاتا تھا کہ بدلے میں اسے ہر گھر سے کچھ نہ کچھ مل جاتاتھا ۔ تقریب والے روز نائی اپنی رچھانی لے کر صحن کے وسط میں بیٹھ جاتا اور ایک صحنک منگواتا۔ صحنک اپنے سامنے اوندھاتے ہوئے اس پر رچھانی سے نکالے گئے اوزار رکھتا۔ یہ اوزار کیا تھے ؛ ایک استرا، ایک وٹی، چمڑے کی پٹیّ، نرسل کا بالشت بھر ٹکڑا ، سرمچو۔ وہ پہلے اُسترے کو وٹی پر تیز کرتا پھر چمڑے کی پٹیّ پر رگڑ رگڑ کراس کی دھار بناتا تھا۔کچھ کاغذ جلا کر اُن کی راکھ بناتا اور صحنک پر ایک طرف ڈھیر کر لیتا۔ اس کام سے فارغ ہو کر وہ اماں ابا کو بچہ لانے کو کہتا ۔ جب تک بچہ لایا جاتا وہ کچھ اوزار رچھانی میں سمیٹ کر صحنک کا وسطی حصہ خالی کر چکا ہوتا۔ بچے کو اُس کے دونوں پاؤں تھامتے ہوئے اور پشت بازؤوں پر سہارتے ہوئے صحنک پر یوں بٹھایا جاتا کہ اس کا رُخ نائیکی طرف ہوتا تھا ۔ وہ اپنے اوزار لے کر بچے کی ٹانگوں کے بیچ گھس جاتا ۔ جس ماس کو کاٹ کر الگ کیا جانا ہوتا اس میں پہلے سرمچو پھیر کر تسلی کی جاتی کہ وہ کہیں چپکا ہوا نہ ہو اور اس پر قلم کی طرح کٹا ہوا نرسل چڑھا دیتا ۔ پھر وہ استرا اٹھاتا اور اس کی تیز دھار سے ماس کاٹ کر الگ کر دیتا ۔ جہاں سے ماس کٹ کر الگ ہوتا تھا وہاں سے خون بہہ نکلتا اور ہم جو اس منظر کو دیکھ رہے ہوتے تھے سہم جایا کرتے تھے ۔ نائی اپنے کام میں مصروف رہتا اور خون روکنے کے لیے اوپر راکھ ڈال دیتا تھا ۔ اس دوران اگر بچہ پیشاب کر دیتا تو وہ اس کی دھار ہتھیلی پر روک کر زخم پر گرادیتا۔ میں نے اسے کہتے سنا تھا کہ اس طرح زخم جلد مندمل ہوتا تھا۔ لیجئے اس کاکام مکمل ہوا ۔ کھلی ٹانگوں کے ساتھ بچہ واپس لایا جاتا اور ماں کے حوالے ہو جاتا ۔ یہ عمل مکمل ہوتے ہی سارے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ۔ مراثنیں ڈھول پیٹ پیٹ کر ویلیں وصول کرتیں۔ تحائف کا تبادلہ ہوتا اور کھانے کے لیے دستر خوان بچھ جاتا تھا۔خوشی کا یہ اہتمام ہم سب بھائیوں کے لیے ہوا تھا۔ تیسرے مہینے کی وہ تئیس تھی اور سن کا بتا چکا ہوں اُنیس سو ستاون، جس تاریخ کو میں پیدا ہواتھا۔ لندن میں رہنے والی علم الاعداد کی ایک ماہر خاتون ہیں مشعیل بچانن، اُن کا یہ دعویٰ میں نے پڑھ رکھا ہے کہ جس تاریخ کو کوئی پیدا ہوتا ہے اُس عدد کا بھی پیدا ہونے والے کی شخصیت پر اثر ہوتا ہے۔ اب یہ دعویٰ درست ہے یا نادرست ،میں نے مشعیل کو پڑھ کر اس بحث کو ایک طرف رکھا اور جھٹ 23 تاریخ نکال کر اس کی ذیل میں لکھا ہوا پڑھا تھا۔ اس تحریر کے مطابق میں ایسے لوگوں میں سے تھا جو (دروغ بر گردن مشعیل) مسحور کن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ سفر کے اتنے شوقین کہ ہر دَم پا بہ رکاب رہتے ہیں۔ من موجی اورہنگامہ بپا کرنے والے۔ دوسروں کی مدد کرنا اور انہیں مفید مشورے دینا بھی ان کی شخصیت کا ایک جزو ہو جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ ۔ اِن میں سے ساری باتیں مجھ پر ٹھیک نہیں بیٹھتیں؛ مثلاً تھوڑا سا من موجی تو میں ہوں مگر ہر سفر سے پہلے میرا دِل بیٹھنے لگتا ہے یہ الگ بات کہ سفر آغاز ہو جائے تو میرا وجود تجسس سے بھر جاتا ہے۔ قسمت اور مزاج آنکنے کے لیے ہاتھ کی لکیروں سے بھی مدد لی جاتی ہے ۔ یہ اگست 2008 کی بات یاد آگئی ۔ میں اور نجیبہ عارف لاہور کسی پروگرام میں شرکت کے لیے گئے تو وقت نکال کر محمد سلیم الرحمن سے ملنے اُن کے گھر پہنچ گئے تھے۔ وہیں ہاتھ کی لکیروں پر بات چل نکلی۔ نجیبہ کو اس کی کافی سدھ بدھ تھی ہم اپنے ہاتھ کھولے اُن سے لکیروں کے بھید جان رہے تھے کہ اس موقع کی ایک تصویر محمدعارف جمیل نے بنالی۔ میں نے وہ تصویر ایک نوٹ کے ساتھ سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر دِی جس پر دلچسپ ردعمل آیا تھا۔ پہلے اپنا نوٹ مقتبس کردیتا ہوں۔ ردعمل پر ایک آدھ بات بعد میں؛ “میں ان سب ہاتھوں کی بابت نہیں بتاؤں گا جو اس تصویر میں ہیں کہ کون سا ہاتھ کس کا ہے،تاہم اتنا بتا دیتا ہوں کہ ان میں سے ایک میرا ہے اور دوسرا ایک بہت محترم اور سینئر ادیب کا۔ جب سے میں نےمحترم ادیب کے نفیس اور نازک ہاتھ اور اس پر کھدی لکیریں دیکھی ہیں میری پامسٹری میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں کیرو کی طرف دھیان جانا یقینی تھا اور دھیان اس طرف گیا بھی۔ کہتے ہیں 1936ءمیں کیلیفورنیا میں اپنے کمرے میں چپکے سے مر جانے والا”اے سٹڈی آف ڈسٹنی” والا فکشن نگار ولیم جان وارنر اور کیرو دوالگ الگ شخص نہیں تھے۔ تاہم میرے دھیان پرجس نے دستک دی، وہ فکشن نگار نہیں ایک پامسٹ تھا۔ ایک ایسا شخص جو دنیا بھر میں کیرو کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اگرچہ آئرلینڈ کا رہنے والا تھا مگر اس نے اس فن اور اس فن سے جڑے ہوئے سارے بھید تب سیکھے تھے جب وہ ہندوستان آیاتھا اوربمبئی میں ایک برہمن سے ملا تھا۔ اس برہمن کو اس نے اپنا گرو مان لیا۔ یہ گرو اسے مہاراشٹرا لے گیا اور اس علمی خزانے تک رسائی دی جس کی مدد سے وہ ہاتھ کی لکیریں دیکھتاتھا اور شخصیت کے سارے راز اس پر کھل جایا کرتے تھے۔اس کی اس موضوع پر کئی تصانیف ہیں اورکہا جاتا ہے کہ وہ جو بتایا کرتا عین مین ویسا ہی ہوتا تھا۔ کیا دست شناسی واقعی ایساعلم ہے کہ کسی کے ماضی میں جھانکا جا سکے، اس کے حال کی بابت جانا جاسکے اور اس کے مستقبل کی پیش گوئی کی جاسکے ۔ مجھے ہمیشہ شک رہا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر جب جب میرا ہاتھ کسی نے دیکھا اور کچھ ایسی باتوں کی جانب اشارہ کیا جو بس میں ہی جانتا تھا تو میں حیرت کے مقابل ہوتا رہا ہوں ۔ ایسے میں اس گماں کا گزرنا بھی یقینی ہوتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ اس پامسٹری میں ایسا ہے کہ ہاتھ دیکھنے والے پر شخصیت پر بیت چکے لمحے کھل جاتے ہوں گے، جی کم از کم انسان کے ماضی کے باب میں۔ وہ لکیریں جو ایک بچہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے، کہتے ہیں اس پر دل، دماغ، قسمت، شہرت اور زندگی کی لکیریں ہوتی ہیں۔ کہہ لیجئے بچہ اس باب میں سب کچھ مٹھی میں بند کرکے لاتا ہے جو ایک اچھے پامسٹ پر مٹھی کھلتے ہی کتاب کی طرح کھلنے لگتی ہیں۔ ہاتھ کی ساخت، اس پر بنے ہوئے ابھار جنہیں عطارد، زہرہ، مشتری، زحل، مریخ اور چاند کے علاوہ سورج کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے، یوں سمجھئے لکیروں کی صورت لکھی گئی عبارت پروہ اعراب ہیں جو اس عبارت کو ڈھنگ سے پڑھنے میں مدد دیتے ہیں۔ جس نرم و نازک ہاتھ کا میں نے عین آغاز میں ذکر کیا بتا چکا ہوں کہ وہ ایک بہت محترم ادیب کا ہاتھ ہے۔ میں نے اپنے ہاتھ کی لکیروں کو ان کے ہاتھ کی لکیروں سے ملایا، میرے ہاتھ پرویسی ہی دل کی لکیر تھی، جیسی اُن کی تھی۔ دماغ، قسمت ،شہرت اور زندگی ، سب لکیریں لگ بھگ ایک جیسی، مگر ہاتھ کی بناوٹ اس پر بنے ہوئے ابھار سب اتنے مختلف تھے کہ مجھے لگا سب کچھ مختلف ہو گیا تھا ، ان عبارتوں کی طرح جن میں مضمون ایک سا ہوتا ہے مگراپنے اسلوب کی وجہ سے وہ اتنی مختلف ہو جاتی ہیں کہ مضمون کہیں پیچھے رہ جایاکرتا ہے ۔” پچاس سے زائد لوگوں نے اس نوٹ پر اپنی اپنی ماہرانہ رائے دی تھی۔ کچھ دوستوں نے میرا ہاتھ پہچان لیا اور اس باب میں دلچسپ باتیں کہہ دیں۔ دوسروں کے بارے میں جو کہا گیا اسے حذف کرتے ہوئے ایک دو آرا یہاں نقل کیے دیتا ہوں بہ طور خاص وہ جنہوں نے مجھے چونکایا تھا: محمود رضا سید:” رائٹ ہینڈ پر لکھا ہے محمد حمید شاہد…شاہد صاحب آپ کا ہاتھ وزنی ہے مگر آپ کے پاس بھی عروج ہی عروج ہے میں یہ دو چار لائینیں اس لیے لکھ رہا ہوں [کہ[ میرے والد محترم ریاضی دان تھے اور پامسٹری اُن کا پسندیدہ سبجیکٹ تھا۔” فیض عالم بابر:” دوسرا ہاتھ جو نظر آرہا ہے اس میں زحل اور عطارد کے اُبھار کے درمیان سے ایک لکیر نیچے کو گر رہی ہے یہ پیشاب کے امراض ،قطرے آنے وغیرہ کی علامت ہے اس کے ہاتھ میں تقدیر اور دماغی لائن کے ملاپ سے ایک تکون بن رہی ہے جو بہت اچھی علامت ہے ایسا شخص تقدیر کا دھنی ہے غیب سے مشکل سے مشکل کام بن جاتا ہے ۔” خدا وند کریم کے فضل سے مجھے اپنے پڑھنے والوں سے اتنی محبت ملی کہ کم کم کسی کا مقدر ہوئی ہوگی۔ پھر یوں بھی ہے کہ جب جب مجھ پر مشکل وقت پڑا تو ہمیشہ غیب سے مدد آئی اورمجھےیوں لگتا رہا جیسے میرے سامنے کامیابیوں کے دروازے کھلتے چلے جارہے تھے ۔ اگر مجھے یہ بتایا جارہا تھا کہ یہی کچھ میری ہاتھ کی لکیریں بھی کہہ رہی تھیں تو میرا چونکنا تو بنتا ہی تھا۔ اب رہی یہ بات کہ میں پیشاب کے قطروں کا مریض ہو سکتا تھا تو یہ بات اس حد تک درست ہے کہ میں گردوں کی پتھری کا مریض رہا ہوں اور اب بھی ہوں حالاں کہ تین دفعہ پتھری نکلوا چکا ہوں۔ خیریہ بات ضمناً آگئی تھی ذِکر تو بچپن کا ہو رہا تھا۔گزشتہ دنوں برصغیر کے معروف فکشن رائٹر محمد حمید شاہد کی تازہ ترین تصنیف اور ان کی خود نوشت ”خوشبو کی دیوار کے پیچھے“ کا ابتدائیہ ہم نے قارئین کی خدمت میں پیش کیا تھا،یہاں اس خودنوشت کا پہلا باب پیش کیا جارہا ہے،آنے والے دنوں میں اس کی مزید قسطیں پیش کی جائیں گی۔ ادارہ
یہ بھی پڑھیں:محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ
رجب علی بیگ سرور کی’’فسانہ عجائب‘‘پڑھ رہا تھا، وہیں غلام علی ہمدانی مصحفی کے ایک شعر پر نظر پڑی تھی۔ اِسی مضمون کا ہے جس پر بات چل رہی ہے۔: اُسے دیکھ طفلی میں، کہتی تھی دایہ یہ لڑکا طرح دار پیدا ہوا ہے مصحفی نے یہ کب کہا ؟کیوں کہا؟ اور کس کے حوالے سے کہا؟ میں اس تلاش میں تھوڑا سا وقت لگانے اور کچھ نہ ہاتھ آنے کے بعد اوب کر اور یہ سوچ کر ایک طرف ہو بیٹھا تھا کہ موصوف کی دایہ کے تخمینے آخر کہاں تک درست ہو سکتے تھے؟اس تلاش میں اگر کچھ ہاتھ آیا تو اتنا کہ’’انتخابِ سخن‘‘ جلد ششم مرتبہ حسرت موہانی میں اس شعر کا پہلا مصرع یوں تھا: کہے تھی یہ طفلی میں دیکھ اس کو دایہ میری دائی اماں کو میری پیدائش پر اور مجھے دیکھتے ہی کیا سوجھا ہوگا مجھے اس کی کھوج نہ تھی؛ 23 مارچ کو اُس برس دِن کیا تھا ، اس کی کھوج البتہ رہی۔ یہ بتانے سے پہلے کہ وہ دِن کو ن سا تھا، آپ کی توجہ اُس انگریزی نظم کی طرف چاہیے جسے آج کل کے بچے بہت شوق سے پڑھتے ہیں؛
Monday’s child is fair of face Tuesday’s child is full of grace Wednesday’s child is full of woe Thursday’s child has far to go Friday’s child is loving and giving Saturday’s child works hard for a living And the child that is born on the Sabbath day Is bonny and blithe and good and gay.امی جان نے بتا رکھا ہے کہ جس روز میں پیدا ہوا وہ ہفتہ کا دِن تھا۔نظم میں”سبت ڈے”یہی ہفتہ ہے ۔ یہودیوں کے مقدس ترین دنوں میں سے اہم ترین دن۔ سبت جمعہ کو غروب آفتاب کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور ہفتے کو غروب آفتاب تک جاری رہتا ہے۔ اس دِن پیدا ہونے والے کیسے ہو سکتے ہیں؟ نظم کی آخری دو لائنیں پڑھ لیجئے، میں نے پہلی بار پڑھی تھیں اور ’’bonny‘‘،’’blithe‘‘ اور’’good‘‘ کے الفاظ پر آئینہ دیکھنے کودوڑا تھا مگر’’gay‘‘ کا لفظ پڑھا اور دھیان میں وہ معنی آئے جو وقت گزرنے کے ساتھ کچھ زیادہ ہی رواج پا گئےہیں تو پسینے چھوٹ گئے تھے ۔ فوراً انگریزی لغت اُٹھا کر دیکھا اور اس میں معروف معنوں کے بعد’’ نرم دِل‘‘ اور’’بے پروا‘‘ لکھا پا یا تو کچھ حوصلہ ہوا تھا۔ نظم کی بات ہو گئی مگر”سبت ڈے”کی گونج ابھی تک میرے اندر باقی ہے۔ دِھیان رہ رہ کرسورۃ الاعراف کی اُن آیات کی طرف ہورہا ہے جن میں اصحاب السبت کا ذکر آیا ہے ۔ایسے میں مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرے لیے ہفتے والا دِن پورے ہفتے کا ہو گیا ہے۔ ایک ہفتہ ایک مہینے میں کا اور ایک مہینہ ایک برس کا ۔ یہ برس میری زندگی کو محیط ہے ۔ میرے سامنے وقت کے پانیوں سے خواہشات کی مچھلیاں اُچھل اُچھل کرباہر آتی ہیں ۔ یہ وہی رنگ برنگی اور فربہ مچھلیاں ہیں جن کا شکار مجھے منع ہے۔ میں ضبط کرتا ہوں ، مگر پھر بھی میرے اندر ہی کہیں ان مچھلیوں کی سمت ایک جھول پڑتا ہے اور ایک لپک پیدا ہوتی ہے۔ مجھے اور زیادہ ضبط کرنا پڑتا ہے؛ آخری حد تک ضبط۔ حتی کہ وہ مچھلیاں پھسل کر واپس پانی میں چلی جاتی ہیں۔ روایت ہے کہ قران پاک میں بیان ہونے والا اصحاب السبت والا واقعہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ یہود کو ہفتے والے دِن شکار کی ممانعت تھی ؛ عین اُس روز جب مچھلیاں زیادہ تعداد میں اُچھل اُچھل کر سامنے آتی تھیں ۔ یہود ہفتے کو پانی کا رُخ اُن نالیوں کی سمت موڑ لیاکرتے جو انہوں نے مچھلیوں کو وہاں پھنسا کر باقی دنوں میں شکار کرنے کے لیے بنا لی تھیں۔ گویایہ ایک حیلہ تھا اطاعت کا جھانسہ دِے کر اطاعت سے نکلنے کا ۔ مجھے یاد ہے ابا جان نے یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا تھا؛
’’بیٹا ! خواہشات یوم سبت کو پانی سے کود کودکر باہر آتی مچھلیوں جیسی ہوتی ہیں۔ ایک پکڑو گے، دوسری اُچھل کر سامنے آئے گی، تھیلا بھر جائے گا دِل نہیں بھرے گا، یہاں تک اصحابِ سبت کی طرح ہلاکت مقدر ہو جائے گی۔بیٹا! جب دوسروں سے چھپ کریا کسی کودھوکا دِے کر کچھ حاصل کرنے کو دِل چاہے تو سمجھ جانا بات ضرورت سے بڑھ گئی ہے۔‘‘تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔ اور ہاں امی جان نے یہ بھی بتایا تھا کہ میرے پیدا ہونے کاوقت دِن ڈھلے کا تھا۔ سارا دِن وہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہی تھیں ۔ دوپہر سب کو کھانا دیا اور پھر انہیں محسوس ہوا تھا کہ اب وہ زیادہ چل پھر نہ سکیں گی لہٰذا دائی کو بلوا نا چاہا ۔ دائی کا گھر ذرا فاصلے پر تھا کھجوروں والے محلے میں ۔ کس کوبھیجتیں کہ اسے لے آتا ۔ بچے باہر گلی میں کھیلنے نکلے ہوئے تھے مگر اب وہ وہاں نہیں تھے۔ شاید پیپل والے تھڑے کی طرف نکل گئے تھے ۔ امی جان اسی پریشانی میں تھیں کہ داداجان کسی کام سے گھر میں داخل ہوئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طرف درد اور بے چینی ایسی کہ ایک پل قرار نہ تھا اور دوسری طرف انہیں اس حجاب نے آلیا تھا کہ اپنے سسر سے کیسے کہیں کہ دائی کو بلوانا ہے۔ہمارے دادا جان نے بھی شاید اپنی بہو پریشانی دیکھ لی تھی ۔ پوچھا :’’خیریت تو ہے ؟‘‘ امی جان انہیں کیا بتاتیں، بہانہ بنادیا کہ وہ بچوں کے لیے پریشان ہیں گلی میں نکلے تھے اب وہاں نہیں ہیں ۔ دادا جان وہیں سے باہر نکل گئے اور بچوں کو ڈھونڈ کر لے آئے ۔ امی جان کا کہنا ہے کہ میرے بڑے بھائی کے دائی کی طرف جانے اور اسے بلا لانے تک وہ نڈھال ہو کر بستر گر چکی تھیں۔ (جاری)