کشمیر پولیس نے وی پی این صارفین کو حراست میں لیا، ماہرین نے کہا – شخصی آزادی پر حملہ

اظہار رائے کی آزادی کی مہم چلانے والوں اور قانونی ماہرین نے وی پی این پر پابندی لگانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی طور پر حراست میں لینے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے شخصی آزادی اور معلومات کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

اظہار رائے کی آزادی کی مہم چلانے والوں اور قانونی ماہرین نے وی پی این پر پابندی لگانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی طور پر حراست میں لینے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے اسے شخصی آزادی اور معلومات کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

جموں و کشمیر پولیس کی علامتی  تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر پولیس کی علامتی  تصویر: پی ٹی آئی

سری نگر: اظہار  رائے کی آزادی کی مہم چلانے والوں اور قانونی ماہرین نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) پر پابندی لگانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو من مانی حراست میں لینے کے لیے جموں و کشمیر انتظامیہ کی مذمت کی ہے، اور  اسے شخصی  آزادی اور معلومات کے حق پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔

بتادیں کہ ایگزیکٹو حکام کی جانب سے ہنگامی اختیارات کےمن مانی استعمال کے الزامات اس وقت سامنے آئے، جب وادی چناب کے ضلع ڈوڈا میں انتظامیہ نے ‘تکنیکی نگرانی’ کے تحت غیر متعینہ تعداد میں رہائشیوں کو حراست میں لیا، جو وی پی این کا استعمال کرتے ہوئے پائے گئے۔

پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد 2 مئی کو جاری ایک حکم نامے میں ڈوڈا کے ڈپٹی کمشنر ہرویندر سنگھ نے ‘عوامی نظم، امن اور قومی سلامتی کو سنگین خطرہ’ کا حوالہ دیتے ہوئے وی پی این پر پابندی لگا دی۔

دو ماہ کی پابندی انڈین سول سیفٹی کوڈ، 2023 (بی این ایس ایس) کی دفعہ 163 کے تحت لگائی گئی تھی، جو ضابطہ فوجداری کی متنازعہ دفعہ 144 کا ایک نیا ورژن ہے، جو مجسٹریٹس کو مواصلات یا عوامی نقل و حرکت کو منظم کرنے کے لیے ہنگامی اختیارات دیتا ہے۔

‘بی این ایس ایس کی دفعہ 163غیر آئینی ہے’

قانونی ماہرین نے استدلال کیا کہ ملک میں وی پی این کا استعمال غیر قانونی نہیں ہے اور ہندوستان کے نوآبادیاتی حکمرانی کی علامت بی این ایس ایس کی دفعہ 163 کو لاگو کرکے معلومات کو منظم کرنا اور شخصی آزادی  پر پابندی لگان ملک کی جمہوری اسناد کو ایک اور دھچکا لگا سکتا ہے۔

گزشتہ 16 مئی کو ایک پریس بیان میں ڈوڈا ضلعی پولیس نے کہا کہ اس نےوی پی این  کا استعمال کرتے ہوئے ‘انٹرنیٹ کی پابندیوں کو ختم کرنے’ کے الزام میں’متعدد افراد’ کو حراست میں لیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ’حراست میں لیے گئے تمام افراد سے فی الحال پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور قانون کی متعلقہ دفعات کے مطابق مزید قانونی کارروائی شروع کی جائے گی۔’ بیان میں کہا گیا ہے کہ وی پی این  کا استعمال ‘ممنوع ہے… جب تک حکم نافذ رہے گا’ اور’کوئی بھی خلاف ورزی… سخت تعزیری نتائج کو اپنی طرف متوجہ کرے گی۔’

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل نتیہ رام کرشنن نے دی وائر کو بتایا کہ بی این ایس ایس کی دفعہ 163 ایگزیکٹو کو’وسیع اور اختیارات’ دیتا ہے اور یہ قانون بذات خود غیر آئینی ہے۔’

انہوں نے کہا، ‘مواصلات کے خلاف دفعہ 163 کا استعمال شخصی آزادی کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔ آج کی یہ بیان بازی کہ سیکورٹی کے نام پر سب کچھ ٹھیک ہے، خطرناک اور یہ کہنے کے مترادف ہے کہ کوئی بھی سیکورٹی ایجنسی راجہ ہے۔ خلاف ورزیوں کو بدتر بنانے کے لیے مبینہ مجرموں کو ان کی آزادی سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔’

‘قانون میں خامی’

کشمیر میں مقیم سینئر وکیل حبیل اقبال نے کہا کہ 2022 میں الکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی مرکزی وزارت کے منظور کردہ قواعد کے تحت وی پی این کے استعمال پر پابندی نہیں لگایا گیا ہے ‘وی پی این فراہم کرنے والوں کو صرف پانچ سال تک ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وی پی این استعمال کرنے والوں کو گرفتار کرنے کی کوئی شق نہیں ہے۔’

اقبال نے کہا کہدفعہ 163 کے تحت ڈوڈا میں حراست میں لینا، جس میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کی سزا ہے، ‘قانون کے لحاظ سےغلط’ ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے 2023 میں فیصلہ دیا تھا کہ پولیس کو ایسے ملزمان کو گرفتار کرنے کی ضرورت نہیں ہے جن کی زیادہ سے زیادہ سزا سات سال سے کم ہو۔

اقبال نے کہا،'(دفعہ 163 کے تحت وی پی این پر پابندی لگانے کا) حکم جاری کیا جا سکتا ہے یا نہیں، یہ بحث کا موضوع ہے۔ لیکن اگر کوئی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو یہ قابل ضمانت جرم ہے۔ افسر کو حراست میں لیے گئے شخص کو فوری طور پر رہا کرنا چاہیے۔ اگر مشتبہ شخص کو اس کا علم نہیں ہے تو پولیس کو انہیں ان کے حقوق سے آگاہ کرنا ہوگا، انہیں بانڈ پر دستخط کرانا ہوگا اور انہیں رہا کرنا ہوگا۔’

‘احتیاطی تدابیر’

شہری حقوق کی کارکن اور اظہار رائے کی آزادی کی پیروکار گیتا شیشو نے کہا کہ دفعہ 163 ایک احتیاطی اقدام ہے، جسے ‘انتہائی ہنگامی حالات میں’ استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی آئین کے تحت ایک بنیادی حق ہے اور معلومات تک رسائی پر کوئی پابندی شہریوں کے جاننے کے حق کے لیے نقصان دہ ہے۔

اس ماہ کے شروع میں، مرکزی حکومت نے کچھ خبروں اور دیگر ویب سائٹس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا، جن میں سے متعدد پاکستان میں واقع ہیں، ان پر ‘ہندوستان، اس کی فوج اور سیکورٹی ایجنسیوں کے خلاف اشتعال انگیز اور فرقہ وارانہ طور پر حساس مواد، جھوٹے اور گمراہ کن بیانات اور غلط معلومات شائع کرنے’ کا الزام لگایا۔

پاکستان کے معروف انگریزی روزنامہ ڈان کے یوٹیوب چینل سمیت پڑوسی ملک سے چلنے والے کم از کم 16 یوٹیوب چینل کو   ‘آپریشن سیندور’ کے بعد بلاک کر دیا گیا، جبکہ ہندوستام میں 8000 ایکس اکاؤنٹ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی، جن میں سے کچھ اب بھی صارفین کے لیے ناقابل رسائی ہیں۔

فری اسپیچ کلیکٹو کے شریک بانی شیشو نے کہا،’ایک ایسے وقت میں جب غلط معلومات پھیلی ہوئی ہیں، حکومت کو شفافیت کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے اور پابندیوں اور سینسر شپ کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں ہے۔’

فری اسپیچ کلیکٹواظہار  رائے کی آزادی کے دفاع اور فروغ کے لیے وقف افراد کا ایک نیٹ ورک ہے۔

شیشو نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا وی پی این  پابندی پاکستان اور پاکستان مقبوضہ جموں و کشمیر سے سرحد پار سے آنے والی معلومات تک لوگوں کی رسائی کو لے کر گھبراہٹ کی علامت ہے۔

انہوں نے کہا، ‘مجھے نہیں لگتا کہ یہ ہندوستان جیسی جمہوریت کے لیے بہت زیادہ یقین دہانی کا اشارہ ہے۔ درحقیقت یہ غلط معلومات کے پھیلاؤ کو اور بھی بدتر بناتا ہے۔ مزید برآں، بی این ایس ایس کا استعمال پریشان کن ہے کیونکہ یہ انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کے تحت مقرر کردہ انٹرنیٹ سروسز کو بلاک کرنے یا بند کرنے کی تفصیلی دفعات سے باہر ہے۔’

شیشو نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے کے ایگزیکٹو کے اختیارات اور ان احکامات پر نظرثانی کے طریقہ کار پر رہنما خطوط جاری کر دیے ہیں۔ لیکن دفعہ 163 کے تحت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کی طرف سے جاری کردہ احکامات پر نظرثانی کرنے بہت کمزور سسٹم ہے۔

دفاع

سری نگر میں مقیم وکیل عمیر رونگا نے انتظامیہ کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ وی پی این پر پابندی جموں و کشمیر جیسے حساس خطے میں قومی سلامتی کے مفاد میں ایک ضروری اور مناسب اقدام ہے۔

انہوں نے کہا،’اگرچہ وی پی این کااستعمال جائز ہے، لیکن ان کا غلط استعمال تنازعات سے متاثرہ یا سکیورٹی سے متعلق حساس علاقوں میں اہم خطرات کا باعث بنتا ہے جو نگرانی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کمزور کر سکتا ہے، سائبر کرائم کو آسان بنا سکتا ہے، قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے، اور حکومتی پابندیوں کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔

رونگا نے کہا، ‘وی پی این پر پابندی لگانا ایک معقول ردعمل ہے جب تک کہ سیکورٹی کی صورتحال (جموں و کشمیر میں) مستحکم نہیں ہو جاتی۔ یہ یقینی بناتا ہے کہ قومی مفادات، عوامی تحفظ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیتوں پر کسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)